Qalamkar Website Header Image

کُل قبرستان بین القبور مشاعرے کی روداد – ڈاکٹر صلاح الدین حیدر

salah-ud-din-haiderحجلہ گور میں تازہ لاش اتری تو اس کی آمد کی خوشی میں حضرت بجّو جی مقبور نے انتظامی فرائض سنبھال کر کل قبرستان محفل مشاعرہ کے انعقاد کا اعلان کر دیا۔ اور اس موقع پر راجہ گدھ جی کو بطور مہمان خصوصی مدعو کرنے کے لیے دعوت نامہ بھی ارسال فرمایا۔ لیکن انہوں نے قبر سے باہر گوناگوں دفتری و مُرداری مصروفیات کے باعث شرکت سے معذرت کر لی۔ اس موقع پر ’’لاش نوشی کے لیے زیر زمین حشرات کی ذمہ داریاں‘‘ عنوان کے تحت ایک سیمینار کا بھی پروگرام تھا۔ لیکن قبرستان میں تازہ لاشوں کے فنڈز کی کمی کے باعث یہ پروگرام معطل کر دیا گیا۔
ادھر جب محفل مشاعرہ کی اطلاع دور دراز غاروں کونوں کھدروں اور قدیم آبائی قبروں کے گوشوں میں پہنچی تو مختلف انواع کے حشرات اپنا اپنا تازہ کلام لے کر نکل کھڑے ہوئے چنانچہ ان حالات میں کثرتِ کلام پر بند باندھنے کے لیے محض لاش کی مدح کے موضوع پر طبع آزمائی کے لیے شعرا کو پابند کر دیا گیا اور یوں لاش کو تمام شعرائے کرام کا ایک قیمتی ورثہ قرار دے کر قبر کی حفاظت کے عزم کا اظہار کیا تاہم محفل مشاعرہ میں بعض کنکھجوروں نے اپنی لمبی مصرعوں جیسی ٹانگوں سے آداب محفل کا خیال نہ رکھا۔ کسی استاد کی تربیت نہ ہونے کے باعث شاعری کا انجام ویسے بھی نیش زنی پر ہوتا ہے۔ بزرگ شاعر حضرت کنکھجورا قبرستانوی کو یہی شکوہ تھا کہ چھوٹے موٹے کیڑوں مکوڑوں کو جان بوجھ کر ان سے پہلے پڑھوا کر ان کی تذلیل کی گئی۔ بعض حلقوں سے یہ بھی پتہ چلا کہ بزرگ شاعر بچھو خونخوار پوری کے کلام میں کسی مکوڑے نے ایطائے جلی کی نشاندہی کر دی۔ جس کے باعث یہ ہنگامہ برپا ہوا۔ حضرت بچھو کا ذاتی خیال عقیدے میں بدل گیا تھا کہ کنکھجورا قبرستانوی نے اپنے شاگردوں کی معرفت یہ طوفان اٹھایا لیکن آپ نے سوز و گداز سے لبریز ہونے کے باوجود صبر و تحمل سے کام لیا۔ لیکن کلام کے بعد جب بغرض طعام بہت سے بچھّو کنکھجورے ، نیولے صاحبزدہ بجّو جی کی رہنمائی میں لاش کے اندر اترے تو معاوضے کے لفافے نظر نہ آنے پر انہوں نے بجو جی پر دھاوا بول دیا اور ان کی پونچھل اور اس کے اندر زہر کلام میں تاثیر کی طرح دوڑنے لگا ۔۔۔۔۔۔ حضرت بچھو خونخوار پوری اتنے برہم ہوئے کہ انہوں نے معاوضہ لینے سے انکار کر دیا لیکن لاش میں منہ مار مار کر اپنا منہ لہو لہان کر دیا ان حالات میں حفظِ مراتب کا قرینہ تو بالکل ہی درہم برہم ہو گیا اور یہ پتہ نہ چل سکا کہ کون کس کا کلام پڑھ گیا۔ آخر میں جناب بجو جی مقبور نے اپنے گناہوں کی بیاض کھولی اور ترنم کے ساتھ لاش کی ایسی مدح کی کہ چھوٹے چھوٹے کیڑے مکوڑے تو ایک طرف، بڑے بڑے کوہڑ کِرلے بھی اپنے حواس گم کر بیٹھے۔ دن چڑھنے سے پہلے ہی وہ سوز و گداز سے لبریز ہو کر آہستہ آہستہ سمٹتے ہوئے لاش کی جڑوں میں جا اترے اور پھر قبر کی داخلی دنیا سے کبھی باہر نہیں آئے۔

حالیہ بلاگ پوسٹس

ورلڈ ٹی ٹونٹی: پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان ہونے والے میچ پر میمز کی بھرمار

ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ میں آج چوتھے دن پاکستان اور نیوزی لینڈ کا میچ ہے۔ یاد رہے پچھلے ماہ پاکستان کے دورے پر آئی نیوزی لینڈ کی ٹیم میچ شروع

مزید پڑھیں »

نسوار

پرسوں ایک ہم عصر و ہم عمر بزرگ راہ چلتے ملے ۔ سلام دعا و بغل گیری کے بعد ایک سگریٹ سلگا کرپوچھنے لگے۔آپ سگریٹ پیتے ہیں ۔ میں نے

مزید پڑھیں »

دکھی آتما، عشق و عاشقی

کچھ لوگوں کو شعر و شاعری سے انتہا کا عشق ہوتا ہے کہنا تو شغف چاہیے لیکن ہم یہاں بات کریں گے ان دکھی آتماؤں کی جو ہر وقت عشق

مزید پڑھیں »