Qalamkar Website Header Image

سسٹم – سخاوت حسین

جانتے ہو،ابراہام لنکن ایک بڑھئی کا بیٹا تھا۔ فرینکلین کا باپ موم بتیاں بنایا کرتا تھا۔ٹرومیں کا باپ ایک کسان تھا۔ریگن کا باپ ایک عام سیلز مین تھا لیکن دیکھو ان لوگوں نے تاریخ رقم کر دی۔ جانتے ہو انہوں نے اپنے باپ کی غربت کو محسوس کیا اور اپنی دنیا بدل دی۔اسی طرح کتنی شخصیات ہیں جو عام گھروں میں پیدا ہوئیں مگر محنت اور لگن سے انہوں نے دنیا کی بساط الٹ دی۔انہوں نے دنیا کو ایک نئی دنیا سے شناسا کیا۔ وہ ‘نہیں’ کا لفظ ہی نہیں جانتے تھے۔
وہ مسلسل میرے سامنے لوگوں کے کارنامے رکھ رہا تھا۔ ان لوگوں کے جو اب حیات نہیں تھے۔ تم جانت ہو یا نہیں لیکن دنیا بھری پڑی ہے ان لوگوں سے جو کہتے تھے ہمارے بغیر دنیا نہیں چل سکتی مگر وہ لوگ گم ہیں تاریخ کے گمشدہ اوراق میں مگر دنیا اسی طرح چل رہی ہے۔ فرعوں کا قارون کا، شداد کا اور ابولہب کا آج نام تک نہیں۔آج تاریخ کے تاتاری کسی کونے میں گم ہیں ۔ ان کو کوئی جانتا ہی نہیں۔
رکو میں گویا ہوا۔ جن لوگوں نے کہا دنیا ان کے بغیر نہیں چل سکتی ۔ انکے دور میں دنیا واقعی ان کے بغیر نہیں چلی۔ ہٹلر کو دیکھ لو۔ تاتاریوں کو دیکھ لو۔ تم کہتے ہو ۔ آج وہ ظالم کہاں ہیں تو آج وہ مظلوم بھی کہا ں ہیں۔ ظالم نے ظلم کیا اور مظلوم نے سہا۔ دونوں ہی آج تاریخ کا حصہ ہیں۔ وہ اپنے دور کے ظالم تھے اور انہوں نے اپنے دور میں جو کچھ ان سے ہو سکتا تھا کیا۔ ان مظلوموں کو زندہ کرکے پوچھو وہ تاتاریوں کے بارے کیا کہتے ہیں۔ ہم اسے لئے مار کھاتے ہیں کیونکہ ہم ہر موڑ پر یہی کہ کر خاموش ہو جاتے ہیں۔ ظلم کب تک؟؟آخر ایک دن تو ظلم ختم ہوگا نا۔ اسی فلسفے کو اپنا کر ہم ظلم سہتے جاتے ہیں اور ایک دن مٹی میں مل جاتے ہیں ہم بھی ظالم بھی۔ لیکن وہ ظالم تو ہمارے دور کا تھا نا۔ اس نے تو وہ سب کیا جو وہ ہمارے ساتھ کر سکتا تھا۔
اور سنو۔ تم جن لوگوں کی بات کر رہے ہو کہ وہ غریب ماں باپ کی اولاد تھے۔ کبھی غور کیا وہ کتنے فی صد تھے۔ اس سے بڑھ کر تم کہتے ہو وہ عام گھروں میں پیدا ہوائے۔۔عام گھر ہوتا کیا ہے۔ ؟؟کیا کسی غریب کا گھر عام گھر ہوتا ہے۔ تم آج تک سہہ ہی نہیں سکے کسی موچی کا بیٹے کو، بڑھئی کے بیٹے کو ۔اس لئے تم ہمیشہ کہتے ہو فلاں موچی کا بیٹا تھا۔ بڑھئی کا بیٹا تھا۔
یہ ہے تمھارا خود ساختہ نظام۔ جہاں کبھی تم نے سنا فلاں شخص جو ناکام ہوا کسی دولت مند کا بیٹا تھا۔ یا فلاں صدر کسی امیر تریں شخص کی اولا د تھی۔ تم ایسا نہیں کہتے کیونکہ تم نے ذہن بنا لیا ہے۔ امیر کا بیٹا امیر ہی ہوگا۔ صدر کا بیٹا صدر ہی ہوگا۔ لیڈر کا بیٹا لیڈر ہی ہوگا۔ وہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ لیکں کوئی جھونپڑی سے نکل کر لیڈر بنے تو تم دو سو سال تک یہ الفاظ دوہراتے رہو گے ۔ تم کہتے رہو گے۔ وہ موچی کا بیٹا تھا۔ یہ دراصل انکا ر ہے۔ یہ وہ غلامی کا میعار ہے جو تمھارے ذہنوں میں نافذ کر دیا گیا ہے اور تم اس نظرئے کے غلام بن گئے ہو۔
تمھارے نزدیک نائی کا بیٹا لیڈر بنے تو وہ سسٹم کو چیرنا ہے۔ اگر وہ ارتکاز دولت سے لڑ کر تھوڑی دولت سمیٹ لے تو یہ سسٹم کے ماتھے پر خنجر چلا نا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جسیے کے ٹو سر کرنا۔ گویا تم پیسے والوں ، عہدے والوں اور سیاسی طور پر مضبوط لوگوں کو ایک اونچے معیار پر دیکھتے ہو ۔ جہاں اس سسٹم کے خلاف کوئی اٹھے تو برسوں اس کہانی کا ہیرو بنا رہے گا۔ تم بھلے سات ارب ہو لیکن سات ارب میں ایک فیصد جدوجہد کرے گا تو وہ تاریخ کا حصہ بن جائے گا۔ اور تم کسی بھیڑ بکری کی ظرح زندگی گزارتے رہو گے۔ یہی کہتے ہوئے کہ ظالم کب تک ظلم روا رکھے گا۔
وہ ہنسا اور کہنے لگا۔ دوست جیسا دیس ویسا بھیس۔ تم سسٹم کو تبدیل نہیں کر سکتے۔ اس کے ساتھ چلنا پڑتا ہے۔
ہا ں میں مسکرایا۔ برسوں سے یہی کہ کر ہر سسٹم کے غلام بن چکے ہو تم اور اگے بھی بنتے رہوگے۔

حالیہ بلاگ پوسٹس