ریشماں کہا ں ہو تم بیٹا ، کہاں ہو۔
کیا ہوا اماں ، ریشماں نے ہڑبڑاتے ہوئے جواب دیا۔ اماں کا سانس پھول رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا وہ دوڑ کر آئی ہوں۔
تم سوتی رہو بیٹا ، پتہ ہے تمھارا مرد بڑا کمینہ نکلا۔ اماں کے چہرے سے مسلسل غصہ ٹپک رہا تھا۔
کیا ہوا اماں اس نے بیزار ہوتے ہوئے کہا۔
وہ تیرا مرد ہے نا سنا ہے وہ سوکن لا رہا ہے تیرے لئے۔
اماں یہ سوکن کہتے کسے ہیں۔ وہ مسکراتے ہوئے بولی لیکں اس کی مسکراہٹ میں ایک درد تھا جو اماں نے محسوس کر لیا تھا
بیٹا تم نہیں جانتی سوکن کو۔
نہیں اماں ۔ابھی تک تو نہیں جانتی تھی آج سے شاید جان لوں۔
ریشماں بیٹا وہ دوسری عورت لا رہا ہے۔ دوسری شادی کر رہا ہے۔
ریشماں کے چپرے پر زرا برابر بھی کسی قسم کا تاثر دیکھنے کو نہیں آیا۔
اماں ۔دوسری عورت کو سوکن کہتے ہیں نا تو پہلی عورت کو کیا کہتے ہیں۔ چلو اس کو تو کوئی نام مل گیا سوکن کا۔لیکن پہلی عورت کا پھر کیا نام ہوتا ہے اماں نے اسکے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
بیٹا سوکن کا سایہ اور جن کا سایہ ایک جیسا ہی ہوتا ہے ایک دفعہ یہ سایہ کسی کو لگے تو پھر جان نہیں چھوڑتا۔
جانے دو اماں جب مرد عورت کو جان کہہ کر لاتا ہے تو جان کہہ کر چھوڑنا کون سی بڑی بات ہے اس کے لئے۔ اور اماں غلطی اس کی بھی نہیں چار سال ہوگئے شادی کو کوئی بچہ نہں ہوا تو وہ کیا کرے۔
لیکن بیٹا مایوسی تو گناہ ہے۔ اللہ کے ہاں دیر ہے مگر اندھیر نہیں۔
اماں مایوسی گناہ ہے لیکن مرد کو شاید گناہ سے ہی دلچسپی ہوتی ہے۔ وہ ضرورت کے لئے بیوی لاتا ہے اور ضرورت پوری ہونے پرسوکن کو محبوبہ سمجھ کر لے آتا ہے۔
بیٹا تم تو کہتی تھی وہ تم سے شدید محبت کرتا ہے تمھاری شادی تو لو میرج تھی نا۔
اماں مرد محبت کے نام پر لٹتا بھی ہے اور لٹاتابھی ہے۔محبت میں ترجیحات تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ جیسے پانی کا رنگ تبدیل ہوتا ہے اسی طرح انسان کی محبت بھی رنگ تبدیل کرتی ہے کبھی کسی رنگ میں کبھی کسی رنگ میں۔کاشان سے اس نے لو میرج کی تھی۔ لو میرج جس میں اب لو شاید کہیں نہیں تھی۔ وہ ہمیشہ اس سے پوچھتی تھی۔ "کاشان شادی سوشل کنٹریکٹ نا ہوتا تو اس کا نام” ٹھیکداروں والا کنٹریکٹ ہوتا” بہت بڑے دعوے کرو۔ لیکن بعد میں ساری چیزوں میں ملاوٹ کردومحبت کو درمیان سے نکال دو، وفا کی مقدار کم کردو اور ایک کمزور رشتے کی دیوار کھڑی کردو۔
کاشان کہتا تھا۔ وہ اس سے بے پنا ہ محبت کرتا ہے لیکن اسے کاروبار سنھبالنے کے لئے وارث چاہئیے ۔ وارث جو اس کا کاروبار سنبھال سکے ۔ وہ مسکرا کر کہتی ۔ اور محبت سنبھالنے کے لئے بھی کچھ چاہئیے۔
وہ اکثر اس کے ہاتھوں کو دیکھتی تو اداس ہو کر کہتی ۔ تمھارے ہاتھوں میں وفا کی لکیر بہت کمزور ہے ۔وہ مسکرا کر کہتا اور شادی کی۔ وہ جل کر بولتی ۔ ہاں وہ بہت مضبوط ہے ۔وہ مسکرا کر کہتا نہیں ریشماں میں تم سے ٹوٹ کر وفا کروں گا۔ تب اس کی آنکھوں میں چند موتی اتر آتے اور وہ درد بھرے لہجے میں بولتی ۔ وفا کرنے والے اکثر ٹوٹ جاتے ہیں اکثر وفا کے نام پر ہی انہیں توڑا جاتا ہے۔ دیکھ لینا۔ وفا کے نام پر مجھے توڑ مت دینا۔
وہ ہر حکیم کے پاس گئی تھی ہر ڈاکٹر کو دکھایا تھا۔ مگر سب نے اسے مایوس ہی کیا تھا۔ راتوں کو اٹھ کر دعائیں مانگیں تھیں ۔ کتنی التجائیں کی تھیں۔ مگر جب نصیب میں کوئی چیز نہ ہو جتنی کوشش کر لو وہ نہیں ملتی۔
سوکن عورت کا دوسرا روپ ہوتا ہے ۔ دوسرا روپ جس کا پہلا روپ بس دکھ ، اذیت اور حسرت کی تصویر ہوتا ہے۔ وہ اکثر اپنی سہیلیوں سے کہا کرتی تھی ،میں شادی کروں گی نا تو ایسے شخص سے جو صرف میرا ہو۔ میں بس اس کے نام سے جیوں ۔ اس کے نام سے میری آنکھوں میں روز خوشی کے جگنو اتریں ۔اور میں اس کی چاہت میں کسی نکھرے گلاب کی طرح نکھر جاوں ۔ چائے کا کپ ہاتھ میں پکڑ کر وہ سوچ رہی تھی ہاتھ میں چائے کا مگ تھا ، دل میں اس کی تڑپ ، سرخ رنگ کا جوڑا اسکے قتل کئے گئے جذبات سے کافی مماثلت کھا رہا تھا۔اس کے چہرے پرسنہری بادلوں نے پیار سے جدائی کا میک اپ کر دیا تھا۔ وہ سوچ رہی تھی کہ اس کی زندگی میں محبت کی بارش اتنی کم ہوئی کہ اس کے دل کا چمن جو جذبوں کے خوبصورت پھولوں پر مشتمل تھا ، مکمل مرجھا گیا۔
مرد جب دوسری عورت لاتا ہے تو پہلی عورت کو خاطر میں لانا چھوڑ دیتا ہے۔ ایسا لگتا ہے وہ عورت کسی گھر میں نصب شدہ وہ زائد بلب ہے جس کی ضرورت خال خال ہی پڑتی ہے۔ اس کےساتھ بھی ایسا ہوا تھا۔ دوسری عورت آئی تھی لیکن اپنے ساتھ ایک جدائی کی دیوار بھی لائی تھی۔ ایسی دیوار جس کے درمیان اس کی سب محبتیں چاہتیں ، وفا اور تمنائیں دب گئیں۔ وہ مرد صرف اس کا تھا لیکن سوکن کے آنے کے بعد وہ بھی دوسرا مرد بن گیا تھا۔ وہ کہتی تھی جب دوسری عورت سوکن ہو سکتی ہے تو دوسرا مرد کیوں سوکن نہیں ہو سکتا ۔دوسرا مرد جو پہلی محبت کی تعمیرشدہ عمارت کو چند روز میں گرا دیتا ہے اور نئے جھوٹ سے ایک نئی محبت کی عمارت کا ٹھیکہ لیتا ہے اور پلٹ کر بھی نہیں دیکھتا جس شاخ پر وہ محبت کا گھونسلہ بنا کر آیا ہے وہاں کے پنچھی کس حال میں ہیں۔
سال ہوگیا تھا اس نے ایک بار بھی اسے پلٹ کر نہیں دیکھا تھا۔ ایک گھر میں رہتے ہوئے جب دو انسان اجنبی ہو جائیں تو درمیان میں تکلفات اور دوری کی دیوار آجاتی ہے۔ جب بات کرنے والے بات کرنا چھوڑ دیں تو دھڑکنے والا دل بھی دھڑکنا چھوڑ دیتا ہے۔جیسے آسماں پر اڑنے والا پرندہ ساکت ہوجائے تو گدھ اس کے گرد منڈلانا شروع کرتے ہیں۔ اسی طرح محبت بھی ساکت ہوجائے تو ہجر اور نفرت کے گدھ انسانی وجود کے گرد منڈلانا شروع کرتے ہیں۔ محبت ضرورت سے شروع ہوتی ہے جہاں محبوب کا وجود سب سے ضروری سمجھا جاتا ہے اور ضرورت پر ختم بھی ہو جاتی ہے۔ لیکں جب ختم ہوتی ہے تو محبوب ضروری نہیں رہتا۔
اس دن اس کے ہاتھ سے چائے کا مگ گر گیا تھا۔ چائے فرش پر بکھر گئی تھی۔ جیسے اس کی ذات کاشان کی ذات کے گرد بکھر گئی تھی اس نے بہت ساری ہمت جمع کی انا کو محبت کے قید خانے میں ڈال دیا۔ محبت بھی ہو اور انا بھی ، ایک دل میں دو مخالف نہیں رہ سکتے ۔کاشان، اس دن وہ روتے ہوئے بولی۔ کیا میں تمھاری بیوی نہیں۔ کیا میرا تمھاری زندگی پر کوئی حق نہیں۔ میری زندگی تو تم نے غموں کو ٹھیکے پر دے دئے۔ میری ذات کو تم نے کرچی کرکے بے وفائی کے سمندر میں پھینک دیا۔ میری ذات کے کئی ٹکرے کر کے بے معرفت ہواؤں کے سپر د کر دیا۔ کیا دوسری عورت آئے تو پہلی عورت سوکن بن جاتی ہے مرد کی۔ تم میرے لئے سوکن لائے لیکن مجھے لگتا ہے میں تمھاری سوکن ہوں ۔ اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ جب مرد کے پاس کوئی جواب نا ہو تو وہ خاموش ہی رہتا ہے۔ وہ اب اس سے نظریں چرانے لگا تھا۔ محبت کرنے والے جب نظریں چرانے لگیں تو سمجھ جاو وہ بھٹک گیا ہےاور محبت کی راہ سے ہٹ گیا ہے۔
وہ سوکن کے پاس بھی گئی اس سے بھی اظہار محبت کیا۔ سوکن اس سے پوچھنے لگی میں تو تمھاری دشمن ہوں مجھ سے کیوں اظہار محبت کر رہی ہو۔ وہ سپاٹ لہجے میں بولی۔ محبت میں جب اپنوں کا دل دشمن کے پاس چلا جائے تو دشمن کے دل کو ہی اپنا سمجھنا پڑتا ہے۔ تم میری دشمن ہو لیکن تمھارا دل جہاں دھڑکتا ہے وہ میری محبت کی مقدس کتاب ہے۔ جس کے ہر صفحے پر تم نے جدائی لکھ دی ہے۔
وہ روز بھٹکتی ۔ محبت جب لاحاصل ہو جائے تو انسان ویرانوں میں بھٹکتی ہوئی آوارہ روحوں کی طرح دل کے ویراں خانے میں بھٹکنا شروع کر دیتا ہے۔ محبت میں وہ کسی آوارہ بھٹکتی ہوئی روح جیسی ہوگئی تھی ۔ وہ ہر سو کاشان کو ڈھونڈتی اماں سچ کہتی تھیں محبت کی بازی میں انسان یا تو اسے کھو دیتا ہے جسے جان کہتا ہے یا پھر اپنی جان ہی کھو دیتا ہے۔ وہ روز دل کے ویرانوں میں اسے ڈھونڈتی اور بند کمرے میں یادوں کے کواڑ میں اسے بند کر دیتی ۔وہ اس کے پاس ہوتے ہوئے بھی محبت میں فیل ہو چکا تھا۔ وہ جو محبت کو سب سے بڑا راز کہتا تھا ۔ اب اپنا راز دوسری عورت کے حوالے کر دیا تھا۔
آج اس کی محبت کی سالگرہ تھی ۔ شادی کی سالگرہ، لیکن کسی نے نا کیک کاٹا نا اسے زند گی کا ایک سال کم ہونے کی مبارکباد دی۔ جب زندگی محبت کے بغیر بسر ہورہی ہو تو انسان سوچنا چھوڑ دیتا ہے کہ سال کم ہو رہے ہیں یا زیادہ۔ اس نے ہاتھوں میں اس کی پسند کی چوڑیا ں پہنی تھیں، آنکھوں میں لگے کاجل سے دکھ کے آنسو ہجرکے پل صراط سے قطرہ قطرہ ٹپک رہے تھے۔کیک پر جلی موم بتیاں خاموشی سے پگھل رہی تھیں۔ اور وہ ان کی لو میں اپنے وجود کو تلاش رہی تھی۔ لو گ نہیں سمجھتےعورت محبت میں ‘شریک’ سہہ ہی نہیں سکتی ، تب وہ کسی موم بتی کی طرح اپنی ذات میں جلنا شروع ہو جاتی ہے۔
اماں نے اسے اپنے پاس بلا لیا تھا۔ وہ بیمار رہنے لگی تھی۔ اماں نے کئی دفعہ کہا تھا کہ وہ اسے بھول جائے وہ ہنس کر کہتی تھی۔ اماں وہ ذہن سے جائے تو بھولوں نا۔ ذہن میں کسی موذی بیماری کی طرح بس گیا ہے۔ بھو لنا چاہوں تو روز بڑھتے ہوئے چاند کی طرح مزید یا دآنا شروع ہوجا تاہے۔ اماں اسے کہتی تھیں بیٹی محبت کی بھی ایک حد ہے۔ کوئی تمھیں پلٹ کر نا دیکھے اور تم اس کی راہ کی خاک بن جاو ۔ کوئی تم سے گفتگو بھی نا کرنا چاہے اور تم قریہ قریہ اسے صدا دیتی پھرو۔ کوئی تمھیں زندگی سے کسی پرانے سامان کی طرح نکال دے اور تم اسے مقد س تعویز کی طرح دل میں بسا کر رکھو یہ کو ن سا اصول ہے؟ ۔ محبت بڑی بے اصول ہوتی ہے اماں ، بڑی ہی کرپٹ ہوتی ہے ، جب خود پر آئے نا یہ سب اصول بھول جاتی ہے بس ایک اصول یا د رکھتی ہے کہ محبت کا کوئی اصول ہی نہیں ہوتا ۔ محبت اصولوں میں بندھی ہوتی نا تو دل قانون کی کتابوں کا حوالہ ہوتے۔ اماں اس نے مجھے جان کہا تھا ۔اب وہ جان لے کر ہی چھوڑے گا۔
آج بہت عرصے بعد وہ دونوں آمنے سامنے آئے تھے ۔ کاشان نے اس کی حالت دیکھی، بکھرے بال، کاجل چہرے پر پھیلا، کھردرے ہونٹ، ایسا لگ رہا تھا کوئی مسافر مدتوں سے کسی کی یاد کے صٖحرا میں بھٹک رہا ہو۔ کاشان کی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔وہ بس مسکرا رہی تھی اور وہ سوچ رہا تھا۔ عورت برداشت کرنے پر آئے تو سوکن کے ساتھ اس مرد کو بھی برداشت کر لیتی ہے جو اسے برداشت نہیں کر پاتا۔ کاشان نے اس سے اپنے رویوں کی معافی مانگی کافی عرصے بعد وہ گھومنے کے لئے ناران کاغان گئے اور جب وہ واپس آئی تو بس بہت سی خوبصورت یادیں تھیں ۔ بھٹکے ہوئے مرد نے اسے کچھ پل خوشی کے دئے تھے۔ یہی اس کا سب سے بڑا اثاثہ تھے۔
آج اس کی طبیعت کافی خراب تھی۔ اماں اسے مسلسل کہہ رہی تھیں ڈاکٹر کے پاس چلو۔ کاشان نے بھی کئی دفعہ کہا تھا۔ لیکن اس نے انکار کیا تھا۔ وہ بس اس کے لفظوں کے سحر میں کھوئی ہوئی تھی۔وہ دوبارہ اسکے کتنا قریب آچکا تھا۔ دوسری عورت کوشاید اس پر رحم آہی گیا تھا۔ اور اس نےکاشان کو اجازت دے دی تھی کہ وہ اس کے حقوق بھی ادا کرے۔ اس کے ٹیسٹ ہوئے ۔ اورجیسے ہی رپورٹس آئیں اس کا وجود کانپنے لگا۔ وہ بس روتے ہوئے آسمان کو دیکھنے لگی۔ بہت سے سارے بادل گرج کر اسے تسلی دے رہے تھے۔ اس کی آنکھوں میں بہت سے آنسو تھے اور ہونٹ لرز رہے تھے ۔ دفعتا اس نے کاشان کو سوچا اور دوبارہ رپورٹ کو دیکھا اس کی آنکھوں میں حیا کی سرخی آگئی ، چہرہ شرم کے مارے سرخ ہوگیا اور دل میں بہت ہی خوبصورت جذبے پنپنے لگے۔پہلی عورت آج مکمل ہوچکی تھی۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn