Qalamkar Website Header Image

تیسری عورت

جیسے ہی وہ دروازے سے اندر داخل ہوئی اسے کسی نے بتایا کہ یہ دنیا کا دروازہ ہے ۔وہ ایک موم کا مجسمہ تھی پھر اس میں کسی نے محبت سے روح پھونکی، اس کے دل کو احساسات اور جذبات سے سینچا گیااس کی روح میں روز وفا کی تلاوت ہوتی، فرشتوں نے اس کےوجود میں برداشت کو کوٹ کوٹ کر بھر دیا تھا، اور آنکھوں میں تخلیق کی سب سے خوبصورت تشبیہ یعنی اخلاق کی مہک کو تسلیم کے چمن سے نچوڑ کر قطرہ قطرہ ٹپکایا۔ اسے واحد سے محبت تھی لہذااس کی محبت میں وحدت کو بھر دیا گیا اور جب وہ تکمیل کے مرحلے پر تھی بہت سی برداشت کو مستعار لے کر اس کے وجود میں ضم کر دیا گیا۔یوں اسے عورت بنا کر زمیں پر اتارا گیا۔
لیکن آج کسی نے بتایا کہ وہ تیسری عورت ہے اور دو عورتوں کے وجود سے کشید کی گئی ہے۔ وہ مجسم جذبات اور احساسات ہے مگر ان دو عورتوں نے اپنے وجود کی ساری خوب صورتی اسے عطا کی تھی۔ پہلی دو عورتیں کون تھیں وہ نہیں جانتی تھی، وہ ہمیشہ ان سے ملنا چاہتی تھی۔ وہ انہیں جاننا چاہتی تھی۔
آج وہ پہلی عورت سے ملنے جارہی تھی۔ بہت زیادہ تیا ر ہوکر، سنا تھا وہ اس کے دل کے کسی کونے میں ہی رہتی ہے اور آج اس نے ملاقات کا وقت دیا تھا۔وہ جیسے ہی اس کے پاس پہنچی اس نے دل کی زمیں سے اٹھ کراس کا استقبال کیا۔یہ شاید اس کے وجود کا پہلا روپ تھا۔اس کی آنکھوں میں جا بجا اداسی تھی۔ اس کے وجود پر کپڑے چیتھڑوں کی صورت میں لٹک رہے تھے۔ اس کی آنکھوں سے مسلسل آنسو ٹپک رہے تھے۔ اس کی زباں پر کسی نے جیسے چپ کی مہر لگا دی تھی۔وہ سوچ رہی تھی جب وہ زمیں پر اتری تب بھی کیا ایسی ہی تھی، ایسی ہی بے رونق، ایسی ہی اداس، اس کا پہلا روپ بھی زمیں پر اترتے ایسا ہی تھا کیا؟ تبھی لرزتے ہوئے ہونٹوں کے ساتھ کسی نے اس کا نام پکارا تو چونک کر ادھر ادھر دیکھا وہی پہلی عورت نظریں جھکائے اسے دیکھ رہی تھی۔
’تم، اس نے مخاطب کرتے ہوئے کہا میرا نیا روپ ہو نا، کتنا عرصہ ہوگیا تم سے ملے ہوئے۔‘ وہ جب بولتی ایسا لگتا جیسے گہرے کنویں میں کسی نے دکھ کو ایکو کا اثر دے دیا ہو۔
وہ ہنسی ۔
’عورت؟ تم عورت ہونا نئی عورت؟ ‘وہ ہنسی تو ایک دکھ بھری کھانسی دیر تک اس کے منہ سے خارج ہوتی رہی۔
’ہاں میں پہلی عورت ہی ہوں اور تمھیں جاننا چاہتی ہوں۔ ‘اس نے ہمدردی سے اسے کہا تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔
’میرے پاس بیٹھو میرے مسیحا۔ آج تمھیں اپنی کہانی سناتی ہوں۔‘
پھر اس نے اپنی کہانی سنانی شروع کی۔
’جانتی ہو جب میں آسمانوں پر تھی، تب بادلوں میں پھرا کرتی تھی، روزخواہشوں کے بادلوں میں اپنے چھوٹے سے دوست ارمان کے ساتھ کھیلا کرتی، روز آسمانوں میں اپنی صورت کو چاند میں دیکھا کرتی، تیا ر ہوتی اور خوابوں کے سفر پر نکلتی اور راستے میں بہت سی چھوٹی چھوٹی خوشیاں چن کر لاتی ۔ان چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو یادوں کی سیپ میں چھپا دیتی، یہی میرا کل خزانہ ہوتا اورمجھے لگتا کہیں کوئی اس سیپ کو چرا نہ لے جائے۔ پھر میں زمیں پر اتری، عورت بن کر۔ بیٹی بن کر، بہن بن کر۔
میں جب پیدا ہوئی تو بہت کم خوشیا ں منائی گئیں ایسا لگا اس کی وجہ شاید وہ سیپ ہو کیونکہ اپنے حصے کی خوشیاں میں نے اس سیپ میں بھر لی تھیں۔دفعتا ََوہ رکی اور خلاؤں میں دیکھنے لگی۔ ایسے لگا جیسے خود کو ڈھونڈ رہی ہو۔ جانتی ہو۔ وہ دوبارہ گویا ہوئی۔بابا کو لگا تھا اماں نے مجھے پیدا کرکے کوئی جرم کیا ہے اور اس کی سزا زندگی بھر انہیں طعنوں کی صورت میں ملتی رہی۔اس کے بعد ایک لڑکا پیدا ہوا۔ شاید اس کی آنکھوں میں خواب نہیں دکھتے تھے اس لئے اس کی آنکھوں میں ماں باپ نے مل کر اپنے خواب بن دیئے، بہت سے خواب جن کی تعبیر عمر بھر نہیں ملی۔میری آنکھوں میں بہت سے خوابوں کا بسیرا تھالیکن میں ایک موم کی عورت تھی اس لئے میری آنکھوں میں بسنے والے ہر خواب کو دار پر چڑھایا گیا۔مجھے بہت کم پڑھا یا گیا شاید اتنا کہ جب میں اپنی شناخت کھو دوں تو اپنا آپ بھی ڈھونڈ نہ سکوں۔ جانتی ہو میں کبھی اپنے آپ سے نہیں مل سکی۔ خواب میں دیکھتی تھی لیکن آنکھیں اس لڑکے کی ہوتی تھیں جو میرے بعد اس دنیا میں آیا تھا۔ لوگ کہتے تھے وہ میرابھائی ہے لیکن اس نے ہر خواب کی تعبیر اپنے نام کر دی تھی ۔وہ کہتا تھا میں ایک موم کی عورت نہیں بلکہ ایک موم کی گڑیا ہوں اور موم کی گڑیا کو خواب کی تعبیر نہیں ملا کرتی۔
پھر میں نے تاروں سے دوستی کر لی ایک روشن تارہ میرا دوست تھا۔ وہ روز رات کو چھت پر مجھ سے ملنے آتا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ اس کا کام بس روشنی دینا ہے۔ لیکن اسے بھی میری طرح نہیں پتہ کہ وہ کسے روشنی دے رہا ہے۔ اسے لگتا ہے وہ بھی بس کسی غلام کی طرح کسی کا محکوم ہے اور اطاعت ہی اس کا آسرا ہے۔ ہم راتوں کوڈھیروں باتیں کیا کرتے ۔کبھی میں آسمانوں میں اس کے سنگ پھرتی ، اس کی باتیں سنتی اور اسے اپنے دکھ بتاتی۔ اسے بتاتی کہ روز میری بنائی ہوئی روٹیوں میں ابا کو داغ نظر آتے ہیں۔ ابا کو لگتا ہے میرےپاؤں میرے وجود کے دہلیز کے پار ہوچکے ہیں اور میری آنکھیں شاید نوچ لی گئی ہیں ۔وہ لڑکا میرے حصے کے سیپ چن لیتا اورمیں بس اپنا ہر سیپ اس کے ہاتھوں میں چپکے سے تھما دیتی۔جانتی ہوصبح سے شام تک میں کام کرتی بہت سارے کام۔ جس کا انعام یہ ہوتا کہ رات کو سنتی کہ عورت فضول پیدا ہوئی ہے اس کا کام ہی کیا ہے۔؟لڑکا ہو تو وہ پھر بھی کسی کام آتا ہے۔پھر کچھ کاغذوں نے اور ایک پین نے مجھ سے دوستی کر لی۔تاروں سے کچھ لفظ ادھار لے کر میں نے کاغذوں کی زبان سیکھ لی اور روز ان کاغذوں کو اپنی کہانیاں سناتی۔ہم یوں ملتے رہے لیکن ابا کو ہمارا اس طرح ملنا پسند نہیں آیا وہ کہتے تھے میں غیر لوگوں سے ملتی ہوں جو میرے اپنوں سے مجھے دور کر رہے ہیں پھر ایک دن انہوں نے میرے ان دوستوں کو گھر سے نکال دیا۔ اس کے بعد ہم دوبارہ پھر کبھی نہیں مل سکے۔
میرے سب دوست روٹھ گئے۔ تارہ بھی چلا گیا۔ کاغذ کو بھی نکال دیا گیا ۔ ابا نے مجھے کہا کہ "میں بہت آزاد خیال ہوگئی ہوں اس لئے انہوں نے فیصلہ کیا کہا کہ مجھے اب قید کر دینا چاہئیے۔” انہوں نے مجھے سقراط کا جام پلایا۔ اماں نے انہیں بہت روکا اور کہا اسے تھوڑا بڑا ہونے دولیکن شاید میں بہت بڑی ہوگئی تھی۔ ابا کہتے تھے اس کاقد آم کے پیڑ سے بھی اونچا ہوگیا تھا، اسی لئے جب قد اتنا بڑھ جائے تو شاخ کو تراشنا پڑتا ہے۔ انہوں نے مجھے سقراط کا جام پلایا اور اس قید میں ڈال دیا۔ تب سے میں یہیں اپنی ذات میں قید ہوں۔
"سنو کتنی دکھی ہو نا تم، اسے احساس ہوا کتنے دکھ اس نے اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہیں۔ پہلی عورت جس نے صرف نفرت دیکھی تھی۔جس نے دھتکارنے جانے کا احساس ہی جانا تھا، جس کے خوابوں کو ایک لڑکے کی آنکھوں میں سمو دیا گیا تھا اور جس کے کسی بھی کام سے کوئی راضی نہیں ہوتا تھا۔پہلی عورت، جس کے آنکھوں کے آنسو بھی اب ساتھ نہیں دیتے تھے۔ جو دکھ کی چادر اوڑھے دل کے سب سے اداس کونے میں کب سے مقید تھی۔
’سنو!! اس نے کہا وہ جا رہی ہے۔ اس کا دکھ قابل برداشت نہیں تھااس کے لئے، اسے ابھی دوسری عورت سے بھی ملنا تھا۔
پہلی عورت نے غور سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
’ "چلی جاؤ تم اس دکھ کی دنیا سے بہت دور، یہاں آرزوں کی زندہ قبرستانیں آباد ہیں۔ یہاں ارمانوں کا روز جنازہ اٹھتا ہے”۔
پھر وہ وہاں سے نکل آئی، عورت جسے شاید محبت کو مٹی میں گھوند کر بنایا گیا تھامگر کس طرح اس نے اپنے خواب بیچدیئے تھے، وہ بس پہلی عورت کے بارے میں سوچ رہی تھی، پہلی عورت جو پہلے لڑکے کو اپنے خواب بیچ آئی تھی جس نے تاروں سے دوستی کر لی تھی مگر اس کے خوابوں کی کوئی تعبیر نہیں تھی۔
جب وہ دل کو آسرا بنا کر ، محبت کو رہنما بنا کر دوسری عورت کے پاس پہنچی تو دوسری عورت بہت زیادہ دکھی تھی۔ وہ کہ رہی تھی کہ وہ اسے اپنی کہانی نہیں سنائے گی۔ اس نے کہا وہ وقت بھی نہیں دے گی کیونکہ دینے کے لئے اس کے پاس وقت ہے ہی نہیں۔اس نے بہت منت سماجت کی کہ وہ تھوڑا سا وقت دے دے۔کئی دن اس نے دوسری عورت کے گرد چکر لگائے۔اسے منانے کی کوششیں کیں شاید ایک دن اسے رحم آیا اور کہا
” وہ چلی آئے وہ دل کے کسی کونے میں اسے مل جائے گی۔اس کی پہچان یہی ہوگی کہ بہت سے دفن شدہ خوابوں کے تکئے پر وہ سوتی ہے اور دکھ کا بستر اس کا پسندیدہ بستر ہے۔”
وہ تیار ہو کر اس کے پاس پہنچی شاید ایک عورت جس کی آنکھیں ہی نہیں تھیں اور وہ سن بھی نہیں سکتی تھی۔ وہ بس دیوار پر کچھ لکھتی تھی۔ اس نے دیوار پر اسے خوش آمدید لکھا اور کہا آو تمھیں اپنی کہانی سناتی ہوں۔

یہ بھی پڑھئے:  امید سحر

"سنو تم پہلی عورت سے ملی ہوگی میں نے اسی سے جنم لیا تھا۔ ایک دن بہت سے لوگ آئے اور مجھے اپنے ساتھ لے گئے۔ابا کہتے تھےکہ” میرا قد آم کے پیڑ سے اونچا ہو گیا ہے اور وہی شخص میرا قد دوبارہ اصلی حالت میں لے کر آئے گا۔”
وہ ایک انسان کے لبادے میں آیا اور اس نے میرا ہاتھ تھا ما اور کہا وہ مجھے چاند کے پار لے کر جائے گا۔ اس دن کے بعد میں بہت زیادہ سنورنے لگی۔میں نے حیا کا دوپٹہ پہنا۔ شرم کا لباس اوڑھا۔ہاتھوں پر وفا کی مہندی سجائی اور اس شخص کے ہمراہ چل دی۔ ہم مسلسل چلتے جا رہے تھے۔راستے میں بہت سی منزلیں آئیں لیکن ہم نہیں رکے۔وہ مرد کہتا تھا وہ مجھ سے بہت پیا ر کرتا ہے لیکن پیار کیا ہوتا ہے میں کبھی نہیں سمجھی۔اس کے گھر میں بہت سے لوگ تھے اور اس کی آنکھوں میں بہت سی باتیں ہوتی تھیں۔میں روز اٹھ کر اس کی آنکھوں کے خواب پڑھتی اور اپنی آنکھوں سے تعبیر کی چادر ان پر اوڑھ دیتی۔ وہ کہتا تھا، موم کی عورت کو اگر سجایا جائے تو وہ چاند کی طرح چمکنے لگتی ہے۔ میں روز گھر کے سارے کام کرتی۔ بہت سارے کام، ختم نہ ہونے والے کام شاید یہ کام اب میرے نئے دوست تھے۔نئے دوست جو مجھے جان سے عزیز تھے لیکن رات کو جب وہ مرد مجھ سے پوچھتا تم دن بھر کیا کرتی ہو تو کچھ کہ نہیں پاتی تھی، وہ مر د کسی ناکارہ درخت کی شاخ کی طرح تھا بس اچھے وقت کے لئے قسمت کو پتوں میں ڈھونڈتا تھا مگر قسمت ہاتھ میں ہوتی ہے پتوں میں نہیں۔ایک دن بہت سارے پتے اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئے۔ بہت سے عجیب شکلوں والے لوگ آئے اور وہ چھت جہاں ہم رہتے تھے وہ لے گئے۔ دو معصوم بچے ہمارے ساتھ تھے۔ ہم بچوں کے ساتھ ایک نئے آسماں کے نیچے آگئے۔میں نے اس مر د کی ناکارہ شاخ کو ٹھیک کرنے کی بہت کوشش کی مگر وہ شاخ ٹوٹ چکی تھی۔ وہ ٹوٹی ہوئی شاخ والا روز میری آنکھوں کے خواب نوچتاروز میری آنکھیں نکالتااور روز بچوں کے چہروں سے روشنی چھین لیتا۔
جانتی ہوپھر ایک دن وہ شاخ مکمل ٹوٹ گئی وہ اپنے درخت سے جدا ہوگئی اور بہت سارے خواب پھر میری آنکھوں میں دم توڑ گئے۔ پھر کسی نے مجھے بتا یا۔جب شاخ ٹوٹ جائے تو بہت سی اجنبی شاخیں دوسرے درختوں کی حد پھلانگ کر اس درخت پر بھی بسیرا کرنا چاہتی ہیں۔لیکن میں اپنے بچوں کو لے کر دور چاند کے پار چلی گئی۔ وہاں دور مجھے ایک دکھ کا مکان نطرآیا اور اس میں رہنے لگی۔
پھر ایک دن وقت ملا اور وقت نے مجھے دوبارہ قید میں ڈال دیا اور میں پہلی عورت کی طرح قید میں رہنے لگی۔ دوسری عورت کی کہانی ختم ہوچکی تھی۔ تب وہ اٹھی اور چپ چاپ ادھورے راستے سے واپس آگئی۔ پہلی اور دوسری عورت نے کہا تھا کہ وہ انہیں کہانی سنائے۔ اس نے فیصلہ کیا تھا وہ انہیں سب سے اچھی کہانی سنائے گی۔ سب سے خوبصورت کہانی۔
صبح سویرے وہ اٹھی سورج پورے آب وتاب سے چمک رہا تھا۔ہر سو ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں۔آج پہلی اور دوسری عورت اس کے ہاں مہمان تھیں۔سب سے خوبصورت کہانی سننے کے لئے، دور کہیں پھولوں کی مہک اٹھی او راسی کے ساتھ اس کا وجود پھولوں کے قالین پر وارد ہوا۔ اس نے دونوں عورتوں کا استقبال کیا۔بہت پیار سے انہیں دل کے خوبصورت کونے میں لے گئی وہاں جاکردونوں عورتوں کی بینائی اور سماعت لوٹ آئی تب انہوں نے بہت اسرار کیا اور وہ انہیں سب سے خوبصورت کہانی سنانے لگی۔
تیسری عورت نے دوسری عورت سے جنم لیا تھا۔ وہ بہت مایوس رہتی تھی۔اسے لگتا تھا، زندگی بہت مشکل ہے پھر ایک دن آسماں سے ایک خواب اترا اور اس کے کانوں میں سرگوشی کی کہ وہ ہمت کرے تو بہت سارے خواب اس کی دہلیز پر تعبیر سمیت دم توڑ سکتے ہیں۔ وہ ڈری پھر اس کے اندر موجود بچوں کی محبت نے ہمت کی اس نے بہت زیادہ محنت کی۔ اس نے بہت سے خواب بچوں کی آنکھوں میں بھر دیئے اور دوبارہ پھرسے کاغذوں سے دوستی کر لی اور اس نے بچوں کے لئے بہت سارے لفظ خرید لئے ۔ اس نے لفظوں کے پاس اپنے خواب گروی رکھ دیئے اور ایک دن بچوں کے خواب مکمل کرنے کے لئے اپنی آنکھیں بیچ دیں۔اب وہ خواب نہیں دیکھتی تھی۔ اس کے بچے کہتے تھے خواب بہت خوبصورت ہوتے ہیں۔وہ بس ان کی باتیں سن کر خوش ہو جایا کرتی تھی۔جانتی ہو جب اس تیسری عورت کا جنم ہوا تھا تب ستاروں نے کہا تھا شاید یہ بھی بس ان کی طرح روشنی دیتی رہے گی اور ایک دن ان کی طرح ساکت ہوجائے گی اور کوئی حرکت نہیں کر سکے گی شاید ستاروں سے دوستی کرنے والے بھی ان کی طرح ستارے جیسے ہی ہو جاتے ہیں
اس عورت نے بچوں کو بہت سے لفظ سکھائے یہاں تک کہ بچے بہت کچھ سیکھ گئے۔اس کے بھی دو بچے تھے۔ ایک لڑکا تھا ایک لڑکی، لیکن اس نے لڑکی کے وجود میں چپکے سے سیپ کو چھپا دیا اور اس کی آنکھوں میں روشنی بھر دی۔ اس نے چاند اور تاروں سے چمک لی، پھولوں سے مہک لی، جس مٹی سے اسے گھوندا گیا تھا اس میں حیا، وفا اور ایماں کو مکس کرکے لڑکی کے وجود کو اس سے معطر کر دیا۔ اس نے چپکے سے اس لڑکی کی دوستی بہت سے صفحوں اور قلم سے کروا دی۔ اس نے اپنی ساری محرومیوں کو دھو کر اور حسرتوں کو محنت کے گلاب سے تر کر کے اس کی گھٹی میں شہد کی طرح اتار دیا۔
اس نے لڑکے کی آنکھوں کو عورت کی عزت اور تکریم سے بھر دیا۔ اس نے لڑکے کو چاند کی سیر کروائی اور وہاں سے اسے حیا کے بادلوں پر لے جا کر، عاجزی کے پانی سے غسل دیا۔ وہ لڑکا کسی مہکے ہوئے گلاب کی طرح کھل اٹھا۔ اس کی آنکھوں میں عزت کی چمک بڑھ گئی اور ہونٹوں پر محبت کی مسکراہٹ سج گئی۔ اس کے لفظوں نے احترام کا روپ اوڑھ لیا اور اس کی آنکھوں میں شرم کی تہہ جم گئی۔ وہ لڑکا چاند سے بھی روشن تھا۔ اس کے پورے وجود سے انسانیت کی مہک آتی تھی۔ اس کی آنکھوں میں عزم مصمم تھا اور اس کے ہونٹوں پر اس عورت کے لئے بہت سی نیک خواہشات، پھر اس لڑکے نے عورت کا بازو پکڑا اور پیا ر سے خواہشوں کی دنیا میں لے گیا۔ وہ اس عورت کو ماں کہتا تھا۔ اس نے ماں کے چہرے کو تعبیر کے پانی سے دھویااوروقت کو اپنے ہاتھ میں کر لیا۔
وہ لڑکا اپنی ماں سے بہت محبت کرتا تھااور وہ لڑکی جو اس کے بعد دنیا میں آئی تھی وہ اسے بہن کہتا تھا۔ اس نے اپنی بہن کے ہاتھوں پر سجی خوابوں کی مہندی کو کئی رنگ دے دئے۔اس نئی لڑکی کو نئی روشنی دے دی۔ وہ اپنی ماں اور بہن کو اپنی دنیا کہتا تھا۔ وہ روز اپنے وجود کو محبت سے غسل دیا کرتا اور اطاعت کی خوشبو سے اس کا وجود مہک اٹھتا۔ وہ عورت پھر سے جی اٹھی تھی۔ اس نے پھر سے بہت سے خواب بن لئے تھے اور اب وہ لڑکا دور چاند سے ان خوابوں کی تعبیر چن کر لاتا اور ان کے دامن میں بہت ساری خوشیاں بھر دیتا۔
’جانتی ہوتیسری عورت بولی، تم دونوں نے اپنے آپ کو وقت کے حوالے کردیا تھا۔وقت بڑا بے رحم ہوتا ہے۔وہ کسی کا نہیں ہوتا۔ تم نے اپنے وجود کے اند ر موجود اس ہمت کو ماردیاتھا ، تم نے وقت سے دوستی کر لی لیکن بھول گئے وقت کسی کا دوست نہیں ہوتا۔ وقت سب سے بڑا خود غرض ہوتا ہے جب اسے غرض ہوتی ہے وہ خوب تیا ر ہوکر دوست بن کر تمھارے در پر آکھڑا ہوتا ہے تمھارا سب سے بہترین دوست بن کر تمھاری آغوش میں سر رکھ کر سوتا ہے لیکن جیسے ہی اس کی ضرورت پوری ہوجاتی ہے وہ آنکھیں پھیر لیتا ہے۔ اس نے بھی شروع میں وقت سے دوستی کر لی تھی پھر اس کے دل میں موجود ہمت ، جستجو اور خوابوں نے اس سے دوستی کی تب اس نے وقت سے دوستی توڑ دی کیونکہ اس دن اسے معلوم ہوا، اس کی اصل دوست تو اس کی ہمت ہے۔ آگے بڑھنے کی جستجو ہے۔اس کے خواب ہیں۔
وہ کہہ رہی تھی تیسری عورت پہلی عورت جیسی نہیں تھی جو ہمت ہار جائے نہ ہی دوسری عورت جیسی تھی جو خود کو وقت کے سپرد کر دے۔ تیسری عورت دونوں عورتوں سے زیادہ باہمت عورت تھی جس نے وقت کو اپنے دام میں کر لیا تھا جس نے جینے کا ڈھنگ سیکھ لیا تھا۔ تیسری عورت جو عورت کا سب سے خوبصورت روپ تھااور وہی وہ عورت تھی۔

یہ بھی پڑھئے:  ایران کے بارہویں صدارتی انتخابات | نادر بلوچ

حالیہ بلاگ پوسٹس

کنفیشن باکس

سرد ہوا جیسے رگوں میں خون جمانے پر تلی تھی ۔ رات بھر پہاڑوں پہ برف باری کے بعد اب وادی میں یخ بستہ ہوائیں تھیں ۔ خزاں گزیدہ درختوں

مزید پڑھیں »

کتبہ (افسانہ) غلام عباس

شہر سے کوئی ڈیڑھ دو میل کے فاصلے پر پُر فضا باغوں اور پھلواریوں میں گھر ی ہوئی قریب قریب ایک ہی وضع کی بنی ہوئی عمارتوں کا ایک سلسلہ

مزید پڑھیں »

داعی (افسانچہ) – ابوعلیحہ

مولانا کمال کے آدمی تھے۔ ستر برس کے پیٹے میں بھی ان کے ضخیم بدن کا ہر ایک رونگٹا، ان کی مطمئن صحت کی چغلی کھاتا تھا۔ ملیح چہرے پر

مزید پڑھیں »