Qalamkar Website Header Image

شراب پیتا تھا مگر چمچہ گیر نہیں تھا

نوٹ : صادق سعید بلوچ،بلوچستان کے نوجوانوں کی اس سوچ کے ترجمان ہیں،جو بلوچستان میں بلوچ دریانی سرمایہ دار طبقے سے سامنے آنے والی موقعہ پرست سیاست کو اچھی طرح سے بے نقاب کرتے رہتے ہیں۔اور ہمیں یہ بھی بتاتے ہیں کہ اسلام آباد جن سیاست دانوں کو بلوچوں کے حقیقی نمائندے بتلاتے ہیں،ان کے بارے میں خود بلوچ نوجوان نسل کیا سوچتی ہے۔اپنی مختصر سی تحریر میں انہوں نے بہت بڑی حقیقت کا انکشاف کیا ہے۔ہم یہ پوسٹ ان کی وال سے لیکر ان کے شکریہ کے ساتھ یہاں شائع کررہے ہیں۔ادارہ

میرے والد جو اپنے دور میں جانے پہچانے شرابیوں میں سے ایک تھے، صبح جب اٹھتے تو پانی کے بغیر شراب پی کر اپنے دن کی ابتدا کرتے۔
ایک دن اسکول سے جیسے گھر پہنچا تو ابو اپنے کمرے میں بیٹھے تھے، مجھے گزرتا دیکھ کر آواز دی ، قریب گیا تو مجھے پاس بٹھا کر اپنے سامنے رکھا ہوا شراب کا گلاس مجھے تھما کر کہا کہ پی لو ، نہ پینے پہ زور کاتھپڑ پڑا، پھر ڈر کی وجہ سے پی لیا، جب کڑوا گھونٹ حلق سے اترا تو منہ کا ذائقہ بہت برا لگ رہا تھا ، پھر اس نے بتایا کہ میرا یہ مقصد تھا کہ بڑےہو کر تمہیں اس کا ذائقہ پہلے ہی سے پتہ ہونا چاہیے اگر ابھی اچھا لگا ہو تو بڑا ہو کر خوب پینا ، اگر اچھا نہ لگا ہو تو ہاتھ بھی نہ لگانا۔
انہی دنوں الیکشن ہونے والے تھے تو پورے گاؤں میں چرچا تھا۔ ہر کوئی اپنے گھر کے اوپر جھنڈا لگا رہا تھا تو میرا بھی جی چاہا کہ لگا دوں کیونکہ بازار کے سارے بچے کہہ رہے تھے کہ ہمارے گھروں پہ دیکھو جھنڈا لگا ہوا ہے، تو میں نے بھی جھنڈا باٹنے والوں سے ایک لے کر گھر کے اوپر لگایا،

یہ بھی پڑھئے:  بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی

والد کی موٹر سائیکل کی آواز سن کر میں اور میری بہن جلدی جلدی کتابیں اٹھا کر بیٹھ جاتے کہ ڈانٹ نہ پڑے، جب وہ گھر پہنچے تو گالیاں دینا شروع کیا اور کہا کہ کس کی اتنی ہمت ہے کہ میرے گھر کے اوپر یہ جھنڈا لگا لیا ہے، ابو کی یہ آواز سنتے ہی اندازہ ہو گیا کہ اب بھاگنا ہی بہتر ہوگا وگرنہ خوب پٹائی ہونے والی ہے، ماتی مہناز جو ہمارے بچانے کے لیے واحد راستہ ہوا کرتی تھی تو اسی کے پاس گیا اور رات کو یہ سوچ کر واپس ہوا کہ اب وہ ٹھنڈے پڑ گئے ہوں گے مگر وہاں پہنچتے ہی تھپڑوں کی برسات شروع ہوگئی ۔ امی نے بچانے کی کوشش کی مگر وہ کامیاب نہ ہوئی، اتنی مار کھانے کے بعد بہت رویا تو اس رات مجھے جلدی نیند آگئی پھر اگلے دن اسکول سے واپس آیا تو ابو نے پاس بلا کر کل مار کھانے کی وجہ یہ بتائی کہ ” یہ جو تم نے ان لوگوں کا جھنڈا لگا رکھا ہے یہ سب مفاد پرست ٹولہ ہیں یہ یہاں کے معصوم لوگوں سے ووٹ لے کر بس اپنی زندگیاں خوشحال بنانا چاہتے ہیں، یہ دیکھو میری ڈگریاں ،اس نے اپنے B.A کی ڈگری دکھائی جو اس 1989 میں پاس کیا ہوا تھا ، کہا یہ ثبوت ہیں کہ میں بھی ان لوگوں سے کم تو نہیں ہوں مگر چونکہ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ میں انکی چمچہ گیری کروں تب جا کر یہ مجھے ملازمت دیں گے ، اور میں ایسی زندگی پہ لعنت بھیجتا ہوں جو دوسروں کی چمچہ گری میں گزرے، اسی لیے میں ان لوگوں سے نفرت کرتا ہوں لہذا آئندہ ایسی کوئی غلطی نہ کرنا۔
اس نے ڈھائی گھنٹے تک مجھے  لیکچر دیا مگر مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا اور دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ آج شاید کچھ زیادہ ہی نشے میں ہے جو اتنی باتیں کر رہا۔

یہ بھی پڑھئے:  کیوبا کا سورج ڈوب گیا۔۔۔ ظفر منہاس

بس اب اپنے مرحوم شرابی والد کو بتانا چاہتا ہوں کہ آپکا بیٹا آپ کی کہی ہوئی اس بات کو سمجھ چکا ہے، اور آپکی ذہانت کو داد دیتا ہوں جو1993 میں بھی ڈاکٹر مالک جیسے لوگوں کی سیاست کو سمجھ پائے تھے اور خود کو ان سے دور رکھا تھا، آپ شرابی تھے ہمیں روز ڈانٹتے ، کبھی پیٹتے بھی تھے۔
یقین مانو میں آجکل ایسا شرابی باپ بھی نہیں دیکھ پا رہا جسے اپنے بچوں کی تعلیم کی اتنی فکر ہو جو آپ کو اس دور میں ہماری تھی۔
ایسا بھی کوئی نظر نہیں آتا جو بازار کے بچوں کو دیکھ کر اسکول جانے کا کہے، اور اسکول میں آکر بچوں سے سوال پوچھے اور ہر جواب پہ 10 روپیہ انعام دینا 1994 میں یہ رقم بچوں کے لیے بہت بڑی بات ہوا کرتی تھی۔
جب 1995 کے شروع میں ہمارے اپنے گاوں میں اسکول کی منظوری دی گئی تو میرے شرابی والد نے کچھ لڑکوں کو پیسے دے کر کہا کہ اسکول کی دونوں جھونپڑیاں صاف کر دیں۔ اور اس شرابی نے اسکول کا آغاز خود پڑھا کر کیا۔
مجھے ایسے بھی شرابی والد نظر نہیں آرہے جو اپنے بچوں کو یہ کہیں کہ چمچہ گری سے پاک زندگی گزارو۔

حالیہ بلاگ پوسٹس