Qalamkar Website Header Image

"ہائے نی میں کِنّوں آکھاں”

 مارچ کو عین موسم بہار میں جب ہر سو سرخ گلابوں کی مہک رچی ہوتی ہے خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا موسم بہار میں خواتین کا یہ عالمی دن ہمارے معاشرے کی خواتین کو بہار کی نوید دیتا ہے جہاں عورتوں کے ساتھ دوسرے نہیں تیسرے درجے کے شہری جیسا سلوک کیا جاتا ہے حتی کہ دو وقت کی روٹی پہننے کو لباس اور چھت بھی اس طرح میسر کی جاتی ہے جیسے اس پر کوئی احسان کیا جاتا ہے کچھ خوش نصیب چند سال باپ کے سائے میں سکون کی سانس لے لیتی ہیں مگر شادی ہوتے ہی رسم و رواج کی بیڑیاں پہنا دی جاتی ہیں اور شوہر کے نام کی ہتھکڑیاں لگا دی جاتی ہیں شوہر مجازی خدا کی جگہ حقیقی خدا بن جاتا ہے اور سانس بھی چاہتا ہے کہ بیوی اس کی مرضی سے لے۔ میاں بیوی کو ایک دوسرے کا لباس کہا جاتا ہے مگر یہاں دو وقت کی روٹی، تن ڈھانپنے کو لباس اور چھت بھی اس طرح میسر کی جاتی ہے جیسے اس پر کوئی احسان عظیم کیا جا رہا ہو۔ ساری زندگی وہ اسی بار تلے رہتی ہے اور مرد کمائی کے زعم میں اسے دباتا چلا جاتا ہے.

اور اس سب کے بدلے میں دن رات کی خدمت، بچے پیدا کرنا، پھر اسے پالنا پوسنا اس پہ فرض ہو جاتا ہے وہ م روبوٹ کی مانند ہو جاتی ہے اور عورت اس طرح زندگی بسر کرتی ہے کہ اس کے پاؤں میں اولاد کی بیڑیاں اور ہاتھوں میں شوہر کی ہتھکڑیاں ہوتی ہیں اور مرد کو ہر طرح کی آزادی حاصل ہوتی ہے جب کہ عورت کی سانسیں بھی تنگ کر دی جاتی ہیں. یہ سلوک بلاتخصیص ہر طبقے کی عورت سے روا رکھا جاتا ہے ان پڑھ عورت اپنے حقوق سے آگہی نہیں رکھتی اس لیے چپ چاپ ظلم سہتی رہتی ہے اپنا نصیب سمجھ کر اور پڑھی لکھی عورت آواز بلند کرے اس یکطرفہ اجارہ داری پر تو باغی کا خطاب یا کسی اندھی گولی کا نشانہ بنا دیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھئے:  پانی پانی کرگئی مجھ کو ’جاپانی ‘کی یہ بات - گل نوخیز اختر

ایسی صورت حال میں عورتوں کا عالمی دن منانا، سیمینارز، کانفرنسیں، ٹاک شوز کی کیا حثیت ہے اس دن کیا بدلاؤ آتا ہے وہی روٹین، وہی روزمرہ کے کام جس معاشرے میں تعلیم حاصل کرنے کی آزادی نہیں اپنی مرضی سے ملازمت نہیں کر سکتی ہاں مرد چاہے تو شمع محفل بنا دے پسند کی شادی ساری زندگی کو عبرت بنا دے وہاں عورت کا دن ایک مذاق ہے.

خواتین کی زندگی میں بہار اس ایک دن کو منانے سے کیسے آ سکتی ہے ؟ ہر سال ایک دن منانا اور عملی اقدامات ندارد ، وہی تشدد مار پیٹ، سسرال کی ہرزہ رسائی اولاد نہ ہونے پر دیس نکالا کا ڈر، بیٹیاں ہیں تو بیٹا نہ ہونے کی پاداش میں سوتن کا خوف، شوہروں کا دوسری عورتوں سے سمبندھ، تعلیم ایک عیاشی، قرآن مجید سے شادی، ونی کرنا، کارو کاری اس سب کے ہوتے ہوئے کیسی بہار۔؟ کیسا دن یہ ایک مذاق ہے جو ہر سال عورت سے کیا جاتا ہے تین سو پینسٹھ دن صرف مرد کے ہیں ہر موسم مرد کا موسم ہے ہر بہار مرد کے لے ہے۔ ہاں اگر یہ دن منانا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ عملی اقدامات کیے جائیں انہیں تحفظ دیا جاۓ، انہیں عزت دی جائے وہ عزت جو میرے نبی محترم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بیٹیوں اور مسلمان عورتوں کو دی انہیں پیار دیا جائے وہ پیار جو میرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ازدواج کو دیا ان کی حفاظت کی جائے کہ میرے نبی نے انہیں نازک آبگینے کہا ہے انہیں آبگینوں کی طرح ہی سنبھالا جائے گا تو تب ہی یہ دن بہاروں کی نوید بنے گا۔ ابھی تو عورت شوہر اور بچوں کی زندگی کو پر بہار بنانے کے لیے اپنی ساری زندگی خزاں میں گزار دیتی ہے.

یہ بھی پڑھئے:  شکریہ اوریا انکل

زرد موسم کا تسلط ہے، ہما گلشن پر
کوئ بتلاے بہاروں کی فضا کیسے ہو

حالیہ بلاگ پوسٹس