Qalamkar Website Header Image

پیمرا کی انوکھی منطق

rizwanپیمرا نے یہ کہہ کر ملک کے اکثر علاقوں میں بھارتی چینل بند کر دیے ہیں کہ ان ٹی وی چینلوں پر ہندو یودھاؤں کے طویل سیریل بچوں کے ذہن کی کن خطوط پر نشوونما کررہے ہیں، یہ رامائن اور مہابھارت کے پاٹھ کس سمت میں لے جارہے ہیں، یہ شیواجی، مہارانا پرتاپ سنگھ، ہنومان جی وغیرہ کے نام پر انتہائی مربوط انداز میں پیش کئے جانے والے ڈیلی سوپ کیا ہیں، یہ تہواروں کے موقع پر نیوز چینلوں پر باضابطہ تقاریب کے لائیو مناظر کس سمت کی طرف اشارہ کرتے ہیں، شاید کبھی سوچنے کی زحمت ہی نہیں کی۔ یلغار صرف سیاسی نہیں ثقافتی و تہذیبی محاذ پر بھی ہے اور ہم پسپائی کے موڈ میں آگئے ہیں بغیر کچھ سوچےمیری سمجھ میں تو بھارتی ثقافتی یلغار کی بات بھی نہیں آتی اور نہ ہی یہ کہ کس طرح کارٹونز سے ہمارے بچے بگڑ جاتے ہیں ہندوستان میں ہم سے زیادہ مسلمان بستے ہیں پیمرا بتائے کہ آج تک کتنے مسلمان نوجوانوں نے سات پھیرے لے کر شادی کی ہے عید الفطر پہ راکھی باندھی ہے ہا عید قرباں پہ ہولی کے رنگ بکھیرے ہیں اور کون سی ثقافتی یلغار ہو رہی ہے ایک لکیر کھنچنے اور ایک سرحد اٹھنے سے ایک ہی خطے کی صدیوں پرانی ثقافت الگ الگ کیسے ہوگئی۔ واضح رہے کہ مذہب ثقافت کا ایک جزو تو ہوسکتا ہے، مذہب ثقافت نہیں ہوتا، ثقافت کا تعلق زمین ، موسم اور آب و ہوا سے جڑے بود و باش، رسم و رواج، ضرب الامثال، روز مرہ، محاورہ، جذبات و احساسات اور اقدار سے ہوتا ہے ، اور ان معاملات میں ہندوستان اور پاکستا ن میں کتنا فرق ہے؟ جو زبان بولی جاتی ہے ؟ اس میں کتنا فرق ہے؟ کیا یہ زبان کراچی سے لے کر دکن تک بولی اور سمجھی نہیں جاتی۔ کیا میر و غالب کو صرف ہندوستان کا اور اقبال کو صرف پاکستان کا شاعر کہا جائے؟ کیا پاکستانی رفیع، لتا، کشور اور مکیش کے گانوں اور ہندوستانی نصرت مہد ی حسن، نورجہاں، ریشماں اور غلام علی سے تعلق توڑ سکتے ہیں؟ فلمیں سنیما پر نہیں آئیں گی تو ڈی وی ڈی پر دستیاب ہوں گی، یو ٹیوب پر مل جائیں گی۔ انٹر نیٹ کے اس دور میں فن اور فن کار جس کی کوئی سرحد نہیں ہوتی پر پابندی لگانا ناممکن ہے. اور ایسا کر کے ہم دنیا کو کیا پیغام دینا چاہ رہے ہیں اگر بھارتی چینلز ہماری اخلاقیات خراب کر رہے ہیں تو پاکستانی چینلز کونسا کسی سے کم ہیں ہمارا میڈیا بھی تو ہندوستانی میڈیا کی اک بے ڈھب شکل سے زیادہ کچھ بھی نہیں.بچوں کی اکلوتی تفریح ختم کرنے سے پہلے پیمرا کو سوچنا چاہییے تھا کہ پاکستان کا اپنا اک بھی کارٹون چینل نہیں اور کیا ہی بات ہے ہمارے ایمان کی جو کارٹونز اور ڈراموں سے خطرے میں پڑ جاتا ہے اگر ایسا ہے تو اس میں قصور چینلز کا نہیں قصور آپ کا اپنا ہے اس سے پہلے بھی ہم اپنے احساس کمتری کی وجہ سے پاکستان ڈسکسڈ ہندوستانی فلمز کو بین کرتے رہے ہیں مثال کے طور پہ گزشتہ برس کی ریلیز فینٹم کو یہ کہہ کر بین کر دیا گیا کہ جی اس میں حافظ سعید کے قتل کا منصوبہ بنایا گیا ہے جب یہ فلم ریلیز ہوئی اسی عرصے کے دوران مشن امباسیبل سلسلے کی پانچویں فلم ریلیز ہوئی جس میں امریکی سی آئی اے کو ناکام ہوتا دکھایا گیا اور امریکی صدر کی جان برطانوی ایجنسی بچاتی ہے کیا امریکہ نے اس فلم پرپابندی لگائی.. وائٹ ہاؤس ڈاون میں پورے وائٹ ہاؤس پہ دہشتگردوں کا قبضہ اور امریکی صدر کو یرغمال ہوتا دکھایا گیا ہے کیا اس ہٹ فلم پہ پابندی لگا دی گئی کہ اس سے ہمارا ملکی وقار مجروح ہوتا ہے نہیں ! کوئی بھی باشعور ملک ایسا نہیں کرتا کیونکہ اگر فلمز سے ملکی وقار مجروح ہوتے تو جرمنی آج بے وقعت ملک ہوتا کیونکہ سب دے زیادہ فلمز جرمنی اور ہٹلر کے خلاف بنائی گئیں ہیں آپ کو نہیں لگتا کہ یہ ایک احمقانہ فیصلہ ہے جس سے پوری دنیا میں ہماری جگ ہنسائی یو گی کہ یہ کیسا ملک ہے جو چند چینلز سے ڈر گیا بھائی اگر اس طرح آپ نے ثقافتی یلغار کو روک لیا ہے اور بھارت سے یہ جنگ جیت لی ہے تو مبارک ہو ورنہ میں نہیں سمجھتا کہ ہواؤں اور خوشبو پہ پابندی لگانا یا اس کو قید کرنا ممکن ہے

Views All Time
Views All Time
183
Views Today
Views Today
1

حالیہ پوسٹس

ڈاکٹر ظہیر خان - قلم کار کے مستقل لکھاری

موسمیاتی تبدیلی اور جدید سائنس: تباہی دہرانا بند کریں

وطن عزیز میں ہر سال کی طرح اس سال بھی مون سون کی بارشوں نے بڑے پیمانے پر تباہی کی ہے۔ مختلف علاقوں سے اب بھی نقصانات کی اطلاعات موصول

مزید پڑھیں »