ادب و احترام ہمارے معاشرے کا لازمی جزو ہے۔اب احترام و ادب سے مراد کیا لیا جاتا ہے؟ یہ ایک الگ بات ہے۔ ہمارے ہاں اس سے مراد اپنے سے بڑے افراد، والدین ، اساتذہ،مذہبی و سماجی رہنماؤں کی ہر کہی گئی بات کا بلا چوں چراں ماننا ہے۔اس سے اختلاف کرنا یاحتیٰ کے سوال کرنا بھی بے ادبی کے زمرے میں آتا ہے ۔ایسی صورتحال میں ایک گھٹن زدہ اور جھوٹا معاشرہ وجود میں آتا ہے جہاں بہت سی ایسی باتیں جو کہ وضاحت طلب ہیں ان کہی رہ جاتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس معاشرے میں پرورش پانے والے افراد غار کے دور سے تعلق نہیں رکھتے وہ جدید ٹیکنالوجی کے دور میں زندہ ہیں۔ جہاں انہیں گھر بیٹھے دنیا کی ہر ثقافت ہر تہذیب و تمدن سے سناشائی ہے۔وہ جانتے ہیں کہ سوال کرنا ہی دراصل علم و ترقی کی طرف قدم اٹھانا ہے۔لیکن جس ماحول میں وہ پرورش پاتے ہیں وہاں تربیت کے بنیادی ادارے یعنی گھر ،سکول ،یونیورسٹی اور مذہبی و معاشرتی حوالے ایسے احترام کے خول میں بند ہوتے ہیں جو نہ تو انہیں سوال سننے دیتا ہے نہ ہی کسی ایسے رویے کو پنپنے کی آزادی دیتا ہے جو پہلے سے طے شدہ روایات و عقائد پر سوچے ،سوال کرے اور اسے سمجھنے کی کوشش کرے۔
ایسی صورتحال میں ایک ایسی نسل وجود میں آتی ہے۔ جو اپنی مرضی سے جھوٹ کو اور چور راستوں کو نہیں اپناتی بلکہ اسے اس کا ماحول یہ سکھاتاہے کہ درست اور جائز بات کو بھی چھپایا جائے اور جھوٹ کا سہارا لیا جائے۔والدین کا احترام کے نام پہ اپنی اولاد سے دوری اختیار کرن،ا ان سے ایک خاموش ادب کا فاصلہ پیدا کرنا اگرچہ یہ فاصلہ خود اختیار کردہ نہیں ہوتا بلکہ لاشعوری طور پہ وہ سماجی روایت کو اپنائے ہوئے ہوتے ہیں۔ اولاد میں یا تو اعتماد کی کمی کو جنم دیتا ہے کہ وہ اپنی سوچ ،پسند اور نا پسند کا کھل کے اظہار نہیں کر سکتے یا پھر انہیں ایک ایسا باغی بناتا ہے جو کھل کے بغاوت نہ بھی کر سکے تو چور دروازے ضرور ڈھونڈ لیتا ہے کہ اپنی خواہشات کو پورا کر سکے۔ آئے دن امتحان پہ ناکامی ،روزگار نہ ملنے، پسند کی شادی نہ ہونے یا کسی معمولی اختلاف پہ خودکشی کی خبریں اسی رویے کا شاخسانہ ہیں۔وہ رویہ جو گھٹن اور دباؤ کا شکار افراد پیدا کرتا ہے۔
دوسری طرف وہ افراد ہیں جو چور دروازے اختیار کرتے ہیں وہ بچے جو گھر یا تعلیمی اداروں میں نہایت ”مؤدبانہ” رویہ اختیا کیے ہوتے ہیں ان کے کسی نشہ کے شکار ہونے،کسی اخلاقی برائی میں مبتلا ہونے یا بری صحبت میں اٹھنے بیٹھنے اور جرم کر بیٹھنے کی خبر بم پھٹنے سے کم نہیں ہوتی ۔وہ اپنی فرسٹریشن سے نجات پانے کے لیے غلط راستہ اپناتے ہیں اور ساتھ ہی ایک دوغلی شخصیت کے بھی مالک ہوتے ہیں۔یہاں بھی الزام تربیت کے ہی سر آتا ہے جو کہ اپنی بنیاد ہی میں ٹھہری ہے۔جو ایسا ماحول ہی نہیں پنپنے دیتی جہاں دلائل سے بات کو کہا اور سنا جائے نہ کہ زور زبردستی سے لاگو کیا جائے۔
بات یہ ہے کہ اس رویے میں تبدیلی کیونکر ممکن ہے وہ رویہ جو بچوں کو بنیادی ضروریات زندگی دینے جیسا کہ اچھا کھانا، پینا،لباس اورتعلیم دینے کے بدلے ان کی زندگی کا مالک بن بیٹھتا ہے ۔اس میں کیے گئے ہر فیصلے پہ اپنی رائے کو مقدم جانتا ہے۔ان کی سوچ اور ہر جزبے پہ اپنا حق جتاتا ہے اور اختلاف کو بغاوت گردانتا ہے ۔اس میں تبدیلی یا بہتری کیسے ممکن ہے؟یہ بات بہت واضح ہے کہ اس انداز فکر کی پرورش صدیوں میں ہوئی ہے اس کو مختصر عرصے میں بدلنا یا اس کا دعویٰ کرنا دیوانے کا خواب ہو گا لیکن انفرادی سطح پہ ابتدائی کوشش سے اس کا آغاز ممکن ہے ہمیں احترام کے اس غلط تشکیل کردہ بت کو توڑنا ہو گا اس بات کو واضح کرنا ہو گا کہ سوال کرنا اور سمجھنے کے بعد کسی روایت کو اپنانا یا اس سے منہ پھیر لینا کوئی بغاوت نہیں ہے بلکہ بنیادی انسانی حق ہے۔اگر والدین اساتذہ اور معاشرے کے دیگر ذمہ دار افراد ادب کے اس سٹیج سے اتر آئیں جہاں احترام دل سے کم اور خوف کی وجہ سے زیادہ کیا جاتا ہے ۔تو اس بات کا روشن امکان ہے انہیں ایک نئی سوچ اور با اعتماد نسل ملے گی جو نہ صرف کہ ان کے لیے فخر کا باعث ہو گی بلکہ اپنے لیے بھی جھوٹ،عدم اعتماد اور دھوکا دہی سے پاک معاشرہ تشکیل دے سکے گی جو لوگوں کا ہجوم نہیں ہو گا بلکہ واقعتاََ معاشرہ ہو گا۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn