آج سے کئی سال پہلے کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو یہ بات صاف نظر آئے گی کہ جب تک حقوق انسانی کا احترام کیا گیا معاشرہ امن و سلامتی کا گہوارہ رہا اور جیسے ہی انسانی حقوق کی پامالی شروع ہوئی تو تاریخ گواہ ہے کہ پھر معاشرے کا امن و سکون تباہ و برباد ہو گیا. موجودہ تناظر میں بھی اگر دیکھا جائے تو وجہ یہی نظر آئے گی.مگر المیہ یہ ہے کہ جب اپنے حقوق پامال ہوتے ہیں تو ہر فرد یہی رونا روتا ہے کہ اسلام کیا یہ درس دیتا ہے کیا احکاماتِ خداوندی یہ ہیں؟ لیکن جب اللہ تعالیٰ کا قانون نافذ کرنے اور اسلام کو قولی،عملی اور اعتقادی اعتبار سے دستورِ حیات بنانے کی کوشش کی باری آتی ہے تو یہ شور شرابا ڈال دیا جاتا ہے کہ اسلام میں اور دین میں جبر نہیں. حالانکہ یہ بات روزِ روشن کی طرح واضع ہے کہ افرادِ معاشرہ نے جب تک کسی کے حقوق پامال نہیں کیے اس وقت تک وہ اور ان کی قیادت قابلِ رشک، سکون اور اطمنان کی زندگی بسر کرتے رہے اور وہ خود تو کیا غیر مسلم بھی اُس معاشرے میں دل و جان سے خوش تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ اسلام سلامتی کا دین ہے اور امن و خوش نصیبی کا سر چشمہ بھی. ان کے اخلاق، پیار، رواداری اور انسانیت کے لیے درد رکھنے کو دیکھتے ہوئے کئی غیر مسلم مشرف بہ اسلام ہوئے.
ارشادِ باری تعالیٰ ہے……..
” اور ہم نے بنی آدم کو عزت و تکریم عطا کی اور انہیں خشکی اور تری پر سوار کیا اور انہیں پاکیزہ روزی عطا کی اور انہیں اپنی پیدا کی ہوئی بہت سی مخلوقات پر فضیلت بخشی”[سورۃ الاسراء:70]
نبئ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
” کسی عربی کو کسی عجمی پر کسی طرح کی برتری حاصل نہیں اور نہ ہی کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی برتری حاصل ہے. اور نہ کسی گورے کو کالے پر اور نہ کسی کالے کو گورے پر، اور نہ کسی سفید فام کو سیاہ فام پر فوقیت حاصل ہے مگر تقویٰ کے ساتھ”
آج معاشرے کے اندر موجود چند کالی بھیڑوں کی وجہ سے دین بدنام ہو رہا ہے. آپ حیران ہوں گے کہ انسانی حقوق کے یہ نام نہاد اس مجرم کے حق میں تو واویلا کرتے ہیں جسے امن و امان تباہ کرنے یا بے گناہ کو قتل کرنے یا زمین میں فساد پھیلانے اور حدود اللہ کی پامالی پر سزا دی گئی لیکن ان بدخواہان اسلام کی ڈکشنری میں ان بے گناہ اور بے بس مسلمانوں کے بارے میں انسانی حقوق نامی چیز کا کوئی لفظ موجود نہیں جنہیں لاکھوں کی تعداد میں بلا وجہ قتل کیا گیا اور ان کو ان کے گھروں سے بے دخل کیا گیا اور معصوم ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی عصمت دری کی گئی اور اس کے ساتھ ساتھ انہیں اپنی جانوں کے دفاع کے حق سے بھی محروم کیا گیا.
اسلام کی سلامتی کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ جب مکہ فتح ہوا تو پوری طاقت ہونے کے باوجود تمام کافروں کے لئے عام معافی کا اعلان کر دیا گیا یہاں تک کہ یہ تک کہہ دیا گیا کہ جو شخص ابو سفیان کے گھر میں پناہ لے لے اس کی بھی جان بخشی کر دی جائے.
میں یہ بھی بتا دوں کہ جو لوگ انسانی حقوق کے عالمی مجریہ 1947ء پر فخر کرتے ہیں اور اسے انسانی روابط کی اعلیٰ مثال قرار دیتے ہیں اور اسے انسانیت کے لئے امن کی چوٹی کہتے ہیں وہ دراصل حقیقتِ اسلام اور اس کے بنی نوح انسانیت کے ساتھ آبرو مندانہ برتاؤ اور اس کےحقوق کی حفاظت کے قوانین سے جاہل ہیں۔ انہیں کیا پتا کہ اسلام نے انسان کی زندگی کے مسائل کو منظم کرنے اور اسی سیدھی راہ پر گامزن کرنے اور اسے تباہی و بربادی سے بچانے کے لئے کیسے کیسے اصول وضع کیے ہیں.
اللہ رب العزت سے دعاہے کہ وہ ہمیں پوری قوت سے قانون اسلامی کو تھامے رکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور ایسی صورتِ حال سے محفوظ رکھے جس سے آج امت آج دوچار ہے. اور اللہ تعالیٰ سے یہ بھی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسلام اور پاکستان کو اندرونی و بیرونی فتنوں سے محفوظ رکھے. اور میرے پیارے ملک پاکستان کی سر زمین کو اسلام کی عزت و آبرو اور قوت و شوکت سے قائم رکھے…. آمین…
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn