"عورت ایک فرشتہ ہے بیک وقت عورت ذاتی لحاظ سے انسان بھی نہیں ہے“۔ اس پیرا ڈوکس نے ہمارے معاشرے میں ایسے شدید رویوں کو جنم دیا ہےـ
اول تو مشرقی معاشرے میں شاعروں سے لے کر فنکاروں تک نے عورت کو رومانیت میں حتی الامکان پرویا ہے اور بیک وقت یہ ایک لونڈی اور محکوم ہےـ یہ تضاد تصوریت اور مذہبی عملیت سے پھوٹ رہا ہےـ تصور میں عورت خوبصورتی، حسن اور زندگی کا استعارہ ہے لیکن یہ عورت کی مفروضاتی اہمیت سے مختص ہےـ مشرق میں یہ متصور عورت صرف ایک آئیڈیل ہے جس کو ہم کبھی بھی اپنی بیوی، بہن اور بیٹی پر منتہج کر کے نہیں دیکھتے یہ عینیت پسندی مختص بہ لذت ہے اور بس۔
دوسری جانب زراعت کی ایجاد کے بعد کلچرل ڈائنامکس مرد کی سربراہی میں بڑھنے لگی اور چونکہ مذاہب اسی روایت اور تہذیب سے پھوٹے ہیں اسی لیے ان میں بھی وہی عملیت رچی بسی ہوئی ہے۔ جس میں مرد کو عورت کے لیے الوہیت کا درجہ حاصل ہےـ اور اس مذہبی تعریف میں عورت کی ذات شناخت بالکل بھی نہیں ہے بلکہ عورت کی مطلق تعریف مرد کے تعلق سے اقتباس ہےـ شادی کے لیے مرد ولی کی اجازت اسی کو ظاہر کرتی ہے۔ اس روایتی فکر میں عورت مرد کی پرچھائی کے سوا کچھ بھی نہیں۔
عورت دور سے ایک فرشتے کی مانند ہے لیکن جیسے ہی اس کا تعلق کسی مرد سے قائم ہو تو اس کی حیثیت انسان سے بھی بدتر ہے کیونکہ اس کی ذاتی شناخت مرد کے اندر گم ہوچکی ہےـ عورت کو فرشتہ سمجھنے کے خیال کے پیچھے مرد اور عورت کے درمیان شدید فاصلے کا ہونا ہے اور فاصلے سے قبل مرد کے ذہن میں عورت کی تصوری اور رومانی تعریف ہوتی ہے لیکن جیسے ہی اس مرد کا تعلق عورت سے پڑتا ہے تو یہ تعریف ماند پڑ جاتی ہے اور اس کا نتیجہ جذبات کی ری پریشن سے عورت کو انسانیت کے درجے سے بھی نیچے گرا دینے کی شکل میں نکلتا ہےـ یہی فطری جدل جو کہ بعد میں عورت دشمنی، ریپ اور ان دوسری صورتوں میں نکلتا ہےـ ریپ کا تعلق بالکل بھی کپڑوں سے نہیں ہے بلکہ شخصی شعور سے ہےـ
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn