نیوٹن نے جب حرکت کے قوانین دریافت کرلئے اور کشش ثقل کی توجیہ سے سیارگان کی بیضوی حرکت کو ریاضیاتی طور پر ثابت کردیا تو ساتھ ہی زمان کو مطلق متصور کیا۔ میکسول نے جب الیکٹرک اور میگنٹک فورسز کو یکجا کرکے مساوات دریافت کی تو اس کی مقدار روشنی کی مقدار کے برابر ثابت ہوچکی تھی جس سے روشنی کو بھی الیکٹرو میگنٹک تسلیم کرلیا گیا۔۔ لیکن دو صدیوں سے یہ مسئلہ زیر بحث رہا کہ آخر کیسے روشنی اسپیس میں سفر کرتی ہے یعنی جب آواز اور دوسری تمام چیزیں میڈیم کی محتاج ہیں بغیر ہوا کے آواز پیدا نہیں ہوسکتی تو روشنی خلاء میں کیسے سفر کرلیتی ہے یہ کیسے ممکن ہے؟
بیسویں صدی میں اسکے لئے ایتھر کا مفروضہ پیش کیا گیا کہ اسپیس بذات خود کوئی خلاء نہیں بلکہ اس میں ایک ان دیکھی قوت موجود ہے جو کہ ایتھر ہے اور روشنی اسی کے ذریعے سفر کرتی ہے۔
البرٹ آئن اسٹائن کو شروع سے ہی ایتھر کا نظریہ فضول محسوس ہوتا تھا۔ چناچہ بچپن سے ہی آئن اسٹائن نے نیوٹن کے حرکت کے قوانین اور روشنی پر غور کرنا شروع کردیا اور سوچنے کی کوشش کی کہ آیا کائنات میں کوئی چیز معروضی بھی ہے کہ نہیں۔ مثال کے طور پر حرکت معروضی کیسے ہے؟ تصور کریں کہ کائنات میں کوئی شئے بھی موجود نہیں ہے اور ایک گیند خلاء میں انتہائی تیز رفتاری سے سفر کر رہی ہے تو ہم کیسے معلوم کریں کہ اسکی رفتار کتنی ہے؟ ہم نہیں معلوم کرسکتے کیونکہ اسے معلوم کرنے کے لیے دوسرا ابجیکٹ ہونا ضروری ہے جس سے آئن سٹائن اس نتیجے پر پہنچا کہ حرکت ایک اضافی مقدار ہے معروضی نہیں ہے۔ اور یہ دوسری چیزوں سے تقابل کرکے ہی اپنی کوئی تعریف رکھتی ہے۔
اسکے ساتھ ہی اگر کوئی چیز موجود نہ ہو اور ایک گیند ہی خلاء میں تیر رہی ہو تو آپکے پاس وقت کی بھی کوئی مقدار معلوم نہیں ہوسکے گی کیونکہ وقت معلوم کرنے کے لیے بھی مقایسہ ضروری ہے۔ مثال کے طور پر زمین کے وقت اور مشتری کے وقت میں بہت فرق ہوگا، کیونکہ وقت کی تفہیم انکے سورج کے گرد گھومنے سے نکالی گئی ہے۔کسی اور ستارے اور اسکے سیاروں کا وقت بھی اس ستارے کی حرکت پر مبنی ہے۔ یعنی وقت بذات خود معروضی شے نہیں ہے بلکہ یہ ایک نسبی مقدار ہے۔
نیوٹن بہت بہتر انداز میں عام رفتاروں پر حرکت کے قوانین سمجھا چکا تھا لیکن آئن اسٹائن نے غور کیا کہ اگر کوئی شے روشنی یا اسکی قریبی رفتار سے سفر کرنے لگے تو کیا ہوگا تب اس نے 1906 میں اپنے تین پوسچولیٹس پیش کیے جس میں پہلا یہ تھا کہ رفتار بڑھانے سے وقت دھیما ہوتا جائے گا ، دوسرا یہ تھا کہ اسکی لمبائی کم ہوتی جائے گی اور تیسرا ماس میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ بعد میں جب ایک ایٹامک گھڑی جس کو جہاز میں بھیجا گیا اور دوسری کو زمین پر رہنے دیا گیا تو یہ ثابت ہوگیا کہ دونوں کے وقت میں ہلکا سا فرق آچکا تھا۔ یہ آئن اسٹائن کی اسپیشل اضافیت کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اس پر ایک پیراڈوکس بھی دیا گیا جس کو ٹوئن پیراڈکس کہتے ہیں۔ ٹوئن پیراڈوکس سادہ سا ہے دو جڑواں بچے ہیں ایک زمین پر رہتا ہے اور دوسرے کو ایک تیز راکٹ میں بھیج دیا جاتا ہے جب دوسرا بچہ واپس آئے گا تو اسکی عمر اپنے دوسرے بھائی سے کم ہوگی کیونکہ راکٹ کی رفتار کی وجہ سے اسکے لیے وقت دھیما ہوجائے گا۔
آئن اسٹائن کا دوسرا نظریہ جنرل ریلیٹویٹی کا ہے جو کہ پیچیدہ ہے جب اسپیشل ریلیٹویٹی سے وقت کی معروضیت ختم ہوجاتی ہے تو آئن اسٹائن مزید یہ نظریہ پیش کرتا ہے کہ ایتھر نام کی کوئی چیز نہیں ہے ہمارا اسپیس بھی بذات خود وجود رکھتا ہے اور جس کو ہم کشش ثقل کی ان دیکھی قوت کا نام دیتے ہیں وہ اسپیس اور ٹائم کے خم سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔
اس کو اس طرح سمجھیں کہ ایک فیبرک ہے اس میں اگر وزنی چیز رکھی جائے تو وہ ایک جھول بنائے گی اور جو اسکے قریب چھوٹے ماس کی چیزیں ہونگیں وہ اس بڑے جھول میں گرنے لگیں گی۔ ہمارا نظام شمسی بھی ایسے ہی ہے سورج ماس میں تمام سیاروں سے بڑا ہے اور تمام سیارے اسکے بنائے ہوئے خم میں ہر وقت گر رہے ہیں چونکہ فاصلہ زیادہ ہے تو یہ اسپیس میں تیرتے رہتے ہیں۔ اسکی تصدیق ایڈنگٹن نے جب کردی تھی جب اس نے دیکھا کہ نیوٹن کے قوانین سے عطارد کے مدار کی مقدار درست نہیں آرہی تب آئن اسٹائن کے نظریے کو ایک ڈھکوسلہ سمجھا جاتا تھا حتیٰ کہ ایڈنگٹن نے خود اسکے رد میں لیکچرز بھی دیئے تھے لیکن وہ ایک خط آئن اسٹائن کو لکھتا ہے کہ وہ اسکی کوئی ریاضیاتی مساوات دے دے جو کہ مرکری کے مدار سے بھی کنسلٹنٹ ہو تو اسکی بات سمجھ آئے گی آئن سٹائن مساوات دریافت کرلیتا ہے اور صحیح طور پر مقدار معلوم کرلیتا ہے۔ اسکے بعد 1919 میں ایڈنگٹن بذات خود اسکی تجرباتی تصدیق کرنے کے لیے سورج گرہن کی تصاویر لیتا ہے اور آئن اسٹائن راتوں رات ہیرو بن گیا۔ جرمن طبعیات اور انگریزی طبعیات کا جھگڑا ختم ہوگیا سائنس عملی طور پر حدود سے آزاد ہوگئی۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn