Qalamkar Website Header Image

اداسیوں کی چھاؤنی اور افضل صفی – رضی الدین رضی

razi-uddin-raziہم ظلم ،جبر اورآمریت کے سائے میں پروان چڑھنے والی اس نسل سے تعلق رکھتے ہیں جسے ورثے میں اداسیوں کے سوا کچھ نہیں ملا۔اداسی ہمارا وہ اثاثہ ہے جسے ہم بہت سنبھال کررکھتے ہیں۔یہ اداسیاں ہمارے وجود کاحصہ بن چکی ہیں اوریہ ہمیں اتنی آسانی سے بھی نہیں ملیں ان کیلئے ہم نے بہت سی قربانیاں دیں۔آرزوؤں ،امنگوں اور خوابوں کے ساتھ ساتھ بہت سی جانوں کے نذرانے بھی پیش کیے۔یہ اداسیاں پہلے پہل ہمارے گھروں میں نمودار ہوئیں۔پھرانہوں نے گلیوں اور محلوں میں ڈیر ے ڈالے ،کچھ عرصہ بعد شہروں اورپھررفتہ رفتہ انہوں نے ہمارے ملک میں ہی چھاؤنی ڈال لی۔اگلے زمانے میں لوگ تیغوں کے سائے میں پل کر جوان ہوتے تھے لیکن ہماری اورہمارے بعد والی نسلیں اداسی کی چھاؤنی کی چھاؤں میں پروان چڑھیں۔اداسی پہلے ہمارے چہروں پر رقم ہوئی ۔پھراس نے ہماری آنکھوں میں ڈیرے ڈالے اور رفتہ رفتہ پورے وجود کاحصہ بن گئی۔ایک طویل عرصہ تک توہمیں خبر ہی نہ ہوسکی کہ اداسی ہمارے وجود کاحصہ بن کر اسے گھن کی طرح چاٹ رہی ہے۔ہمیں اداسی کی خبر اپنے محبوب کی آنکھوں سے ہوئی۔اورجب ہم نے اس سے اس کی اداسی کاسبب معلوم کیاتواس نے ہمیں بتایا کہ اداسی توتمہاری آنکھوں میں بھی موجودہے۔سو اس دن سے ہم نے اپنی اداسی کی حفاظت کرنا شروع کردی اوراس حد تک حفاظت کی کہ اپنی آنکھیں بھی اجاڑ بیٹھے۔اپنی اداسی کی حفاظت اگرہم خود ہی کرتے توشاید معاملہ اتنا گمبھیر نہ ہوتا۔مسئلہ یہ ہوا کہ کچھ قوتیں ہماری اداسیوں کی حفاظت پر مامور ہوگئیں۔ہم اگر کبھی اداس موسموں کی یکسانیت سے گھبرا کر چند لمحے خوشیوں کے سائے میں سانس لینے کی کوشش بھی کرتے تو اداسیوں کی حفاظت پر مامور یہ قوتیں فوراً حرکت میں آجاتیں اورہم سے خوشیاں چھین کر ایک بار پھرہمارے گرد اداسیوں کی چھاؤنی ڈال دیتیں۔نتیجہ یہ نکلا کہ ہم اپنی اداسیوں سے ہی خوشیاں کشید کرنے لگے۔مانا کہ اب ہمارا وجود کھنڈر ہوچکا ہے لیکن کیایہ غنیمت نہیں کہ اب ہم نے اپنی اداسیوں کو ہی اپنی خوشیوں کانام دے دیا ہے۔صدشکر کہ ہم اب نہ صرف یہ کہ اپنی غیرلچکدار اداسیوں کی وسیع وعریض مملکت کے بلاشرکت غیرے حکمران ہیں بلکہ ہم نے اس کیلئے ایک لچکدار آئین بھی تیار کرلیاہے اورہم اس آئین کوآئینِ محبت کہتے ہیں۔ہم نے ایک اورکمال بھی کیا۔اداسی اگرچہ ہمارے چہرے سے جھلکتی اور آنکھوں سے چھلکتی ہے لیکن اس کے باوجود ہم اپنے محبوب کے سوا اسے کسی پر عیاں نہیں ہونے دیتے ۔اور اس میں ہم سے زیادہ ہماری اداسیوں کی حفاظت پر مامور قوتوں کا کمال ہے۔ان قوتوں نے ہمیں یہ ہنر سکھایا کہ اداسی کوآنکھوں اورچہروں سے عیاں ہونے کے باوجود اوروں سے کس طرح چھپایا جاتاہے۔پہلے پہل ان قوتوں نے ہمیں خاموش رہنے کاحکم دیا تو ہم بہت پریشان ہوئے۔ہمیں اپنی زبان بندی کی وجہ سمجھ نہیں آتی تھی۔پھرکسی سیانے نے بتایا کہ اگرہم خاموش رہیں گے کسی سے گفتگو نہ کریں گے تو ہماری اداسی کابھید کسی کو معلوم نہ ہوگا۔کہتے ہیں حکمرانوں کے ہرظلم میں کوئی نہ کوئی حکمت پوشیدہ ہوتی ہے۔سوزبان بندی کے حکم میں یہی حکمت پوشیدہ تھی کہ ہماری اداسی کسی پر عیاں نہ ہو کہ اداسی اگرعیاں ہوجائے تو کم ہوجاتی ہے اوراداسی کم ہوجانے سے ظلم کی سلطنتیں لرزہ براندام ہونے لگتی ہیں۔سو ہم نے خاموشی کی بکل ماری ،گفتگو ترک کی اور آنکھوں اور چہرے سے عیاں ہونے کے باوجود اداسی کے بھید کوچھپانے میں کامیاب ہوگئے اور ہم اس دولت کوکیوں نہ چھپاتے کہ اب انہی اداسیوں سے توہمیں خوشیاں ملتی ہیں۔
afzal-safiافضل صفی پربھی صحرا کی اداسی کابھید کبھی نہ کھلتا اگروہ صحرا سے گفتگو نہ کرتا ۔ہم نے اس کے پہلے شعری مجموعے میں اس کی وہ گفتگو سنی تھی جواس نے صحراکے ساتھ کی تھی وہ صحراؤں کاباسی ہے۔تھل کے خمیر سے اس کی ذات کی تشکیل ہوئی تو صحرا کی ا داسی اس کے وجود کابھی حصہ بن گئی۔ہم نے مضمون کے آغاز میں بتایا کہ ہمارے گھر،گلی محلے اور شہر اداس ہیں۔اورجب شہر اداس ہیں تو بھلا صحرا کیوں اداس نہ ہوں۔صحرا تو نام ہی اداسی کاہے کہ جسے چودھویں کا مکمل چاند ا یک رات اپنی جھلک دکھا کر رخصت ہوجاتا ہے اور پھر اداسی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس کامقدر بن جاتی ہے۔افضل صفی نے صحرا سے گفتگو کی تو اسے معلوم ہوا کہ صحرا اداس ہے۔صحرا اور اداسی ۔یہی افضل صفی کی شاعری کے بنیادی موضوعات ہیں۔اداسی کی وجوہات میں پہلے تفصیل کے ساتھ بیان کرچکا اورصحرا کا وہ خودباسی ہے۔یہ دواستعارے ہمیں افضل صفی کی شاعری کے پہلے دو مجموعوں میں بھی دکھائی دئے لیکن اس تیسرے مجموعے میں ان دونوں استعاروں کواس نے بہت سلیقے اور بہت سے زاویوں کے ساتھ برتا ہے۔وہ اداسی کے ساتھ ساتھ صحرا کوبھی اپنی ذات کاحصہ بناتا نظرآتا ہے اورپھرایسا منظر تشکیل دیتاہے کہ ہمیں افضل صفی صحرامیں اور صحرا افضل صفی میں گم ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔

یہ بھی پڑھئے:  ممتاز العیشی کی یاد میں - رضی الدین رضی

دھوپ دیوارں سے اتری جب تھکن کواوڑھ کر
ذات کاپھیلا ہوا صحرا مجھے ڈسنے لگا

یوں سرابوں پہ حقیقت کاگماں ہوتاہے
تیری بانہوں میں کوئی شام ڈھلی ہوجیسے

دلاسوں ہی سے دیتا ہے نمی وہ میرے صحرا کو
نئے وعدوں سے روزانہ نئی چھاگل بناتا ہے

سایہ وہ عطا کرتا ہے یادوں کی اداسے
صحرا کی تپش ہوتو وہ چھاؤں کی طرح ہے

صفی جب دورسے دیکھوں لگے دریا مروت کا
مگر جب پاس جاؤں تو وہی صحرا دکھائی دے

مبارک ہو تمہیں اس شہر کی ایک رعنائی
رفیق اپنا تو صحرا ہے ہمیں اس سے محبت ہے

یہ صرف چند مثالیں ہیں ۔اس کی شاعری میں صحرا جابجا ہم کلام ہوتا ہے اوراپنی اداسی کی وجوہات بیان کرتا دکھائی دیتا ہے۔وعدوں کی چھاگل اور محبوب کی بانہوں کاسراب خاص طور پرایسے مضامین ہیں جوبے اختیارقاری کو داد دینے پر مجبور کرتے ہیں۔صحرا اوراداسی کے ساتھ ساتھ اس کے ہاں ہمیں زندگی کے اوربہت سے موضوعات بھی پڑھنے کوملتے ہیں۔اس کے ہاں جوروشن خیالی اور ندرت خیال ہے وہ یقینااسے خیال امروہوی سے ورثے میں ملی کہ وہ جس خطے سے تعلق رکھتا ہے وہاں خیال امروہوی نے ہی اس سوچ کو پروان چڑھایا تھا۔انہوں نے صحرا میں جوپودا لگایاوہ اب تناور درخت بن رہاہے اورہمیں
یقین رکھنا چاہیے کہ روشن خیالی کاپیڑ جب ثمرآور ہوگا تو آنکھوں میں ویرانیاں ختم ہونگی۔چہروں پر حقیقی مسرت دکھائی دے گی ۔اداسیوں کی چھاؤنی ختم ہوجائے گی اور ایک حقیقی آئینِ محبت تحریرہوگا۔افضل صفی تم جب یہ آئینِ محبت تحریر کرو تو مجھے بھی یادکرلینا

حالیہ بلاگ پوسٹس

آئس کینڈی مین – تقسیم کی ایک الگ کہانی

بپسی سدھوا پاکستانی، پارسی ناول نگار ہیں۔ اِس وقت ان کی عمر اسی سال ہو چکی ہے۔ وہ پاکستان کے ان چند انگریزی ناول نگاروں میں سے ایک ہیں جنہوں

مزید پڑھیں »

زیف سید کا ناول گل مینہ

زیف سید کا ایک تعارف بی بی سی پر لکھے گئے کالم ہیں۔ وہ اپنے منفرد اسلوب کی بنا پر بی بی سی کے چند مقبول کالم نگاروں میں سے

مزید پڑھیں »

جنگ جب میدانوں سے نکل کر آبادیوں کا رخ کرتی ہے۔

”سر زمین مصر میں جنگ“ مصری ناول نگار یوسف القعید نے 1975 لکھا ہے۔ جو ہمیں بتاتا ہے کہ جنگ کی وجہ سے کسی ملک کے غریب باشندوں پر کیا

مزید پڑھیں »