رات کو جب کبھی میرا دل درد سے بھرتا تھا اور میرے لئے وقت کاٹنا مشکل ہوجاتا تھا تو میں حسن پروانہ کالونی کے ایک چوبارے کو جانے والی تنگ و تاریک سیڑھیوں پر سنبھل سنبھل کر چڑھتا تھا۔ گھپ اندھیرے میں قبر کی سی تاریکی والی ان سیڑھیوں کے اختتام پر ایک لوہے کا دروازہ تھا۔ لوہے کے دروازے پر ہلکی سی دستک بھی گردوپیش کے سناٹے کو مرتعش کردیتی تھی۔ دستک دینے کے بعد میں کچھ دیر انتظار کرتا۔ اندر سے پہلے چارپائی کے چرچرانے کی آواز آتی۔ پھر کوئی سلیپر پہنتا اور جب سلیپر دروازے کی جانب گھسیٹنا شروع کرتا تو مجھے اس کی آواز سے اندازہ ہوجاتا کہ یہ نثار صاحب ہی ہیں۔ وہ دروازے کے پاس آکر تحکمانہ انداز میں ’’کون اے‘‘ کہتے۔ اور پھر میری آواز سن کر ان کا تحکمانہ انداز محبت بھرے لہجے میں تبدیل ہوجاتا۔’’آگئے او۔۔۔ بڑا ٹیم کڈیا اے اج تے‘‘(آگئے ہو۔۔۔بڑا وقت نکالا آج تو)یہ ان کا مخصوص انداز تھا۔ دروازہ کھلتا اور اگلا جملہ یہی ہوتا کہ ’’میں ذرا قمیض پالواں‘‘ ’’آپ تو بہت جلدی سوجاتے ہیں یہ کوئی شرفاء کے سونے کا وقت تو نہیں ہے‘‘۔ میرے اس جملے پر وہ وقت پوچھتے؟ وقت عموماً رات کے بارہ ایک بجے کا ہوتا تھا پھر وہ میرے ساتھ سیڑھیاں اترتے۔ ہم کسی چائے خانے یا فٹ پاتھ کا رخ کرتے۔ وقت گزرنے کا احساس بھی نہ ہوتا۔ رات کٹ جاتی ، درد سے بھرا دل ہلکا ہوجاتا۔ 3نومبر 2004 کے بعد میں قبر کی سی تاریکی والی سیڑھیوں پر دوبارہ نہیں گیا کہ اب نثار صاحب نے خود قبر کی تاریکی اوڑھ لی ہے۔ ہمیں احساس نہیں ہوتا کہ جب ہمارا کوئی دوست ہم سے ہمیشہ کے لئے جدا ہوتا ہے تو وہ صرف اپنی رفاقت، اپنے خلوص اور اپنی محبت سے ہی ہمیں محروم نہیں کرتا بلکہ اپنے ساتھ اوربھی بہت کچھ لے جاتا ہے۔ وہ اپنے ساتھ وہ راستے بھی لے جاتا ہے جن پر ہم اس کی رفاقت میں چلتے ہیں، وہ ہم سے ایک پورا ماحول چھین لیتا ہے ہم صرف ایک شخص ہی نہیں ایک پورے منظر نامے سے محروم ہوجاتے ہیں۔ ہم اس کی وجہ سے جن لوگوں کو ملتے ہیں ان کی رفاقت بھی ختم ہوجاتی ہے۔ بظاہر ہم صرف ایک شخص کو روتے ہیں لیکن درحقیقت ہم کئی راستوں، گلیوں، رابطوں اور واسطوں کا بھی ماتم کررہے ہوتے ہیں۔ نثار صاحب نے مجھ سے قبر کی سی تاریکی والی سیڑھیوں کی رفاقت بھی چھین لی جن کے اختتام پر لوہے کے دروازے پر دستک دیتے ہوئے یہ امید ہوتی تھی کہ ابھی چارپائی کی چرچراہٹ اور سلیپر گھسٹنے کے بعد وہ شخص نمودارہوگا جس سے ملاقات کے بعد میرے دل کا درد تھم جائے گا۔
نثار احمد اختر ان کا پورا نام تھا اور ان کے ساتھ تعلق یہی کوئی پانچ چھ برسوں پر محیط تھا۔ وہ شاعر نہیں تھے مگر شاعری سے اتنا شغف کہ انہوں نے اپنے نام میں تخلص کا بھی اضافہ کیا ہوا تھا اور اس تخلص کی وجہ بھی انہوں نے خوب بتائی تھی۔ کہنے لگے ’’اخترمیرا ایک دوست تھا جو مجھ سے بچھڑ گیا اور میں نے اس کی موت کے بعد اس کے نام کو اپنے نام کا حصہ بنالیا۔ اب دیکھ لو جب تک نثار زندہ ہے اختربھی زندہ رہے گا۔ میں اپنی زندگی میں تو اختر کو کبھی مرنے نہیں دوں گا۔‘‘ وہ شاعر نہیں تھے مگر شاعروں سے دوستی رکھتے تھے۔ افسانے لکھتے تھے مگر لکھ کر اپنے پاس ہی محفوظ کرلیتے تھے۔ اِن کی عمرکا اک بڑا حصہ کراچی میں گزرا تھا۔ کراچی کے بیشتر قلمکاروں کے ساتھ ان کے مراسم تھے۔ بابا نجمی سے ہمارا تعارف انہی کی وساطت سے ہوا تھا۔ کتاب سے محبت کرتے تھے ہر اچھی کتاب ڈھونڈ کر پڑھتے اور پھر دوستوں کو پڑھنے کی ترغیب دیتے ۔کتاب کے ساتھ جس محبت کے ساتھ نثار صاحب پیش آتے اس کی مثال بھی کم ہی ملتی ہے۔وہ ہم سے کوئی کتاب پڑھنے کے لئے لے جاتے تو واپسی پر اس کتاب پر خاکی رنگ کا گردپوش چڑھا ہوتا اور کتاب کا نام مار کر سے انتہائی خوشخط لکھا ہوتا۔ دوستوں کو کتاب دیتے وقت عموماً یہ دھڑ کا رہتا ہے کہ معلوم نہیں اب کتاب واپس بھی آئے گی یا نہیں۔ لیکن نثار صاحب کو کتاب دے کر ہم بے فکر ہوجاتے تھے۔ ہمیں معلوم ہوتا تھا کہ وہ ہماری کتاب کی ہم سے زیادہ حفاظت کریں گے۔ بسا اوقات تو یوں بھی ہوتا کہ ہم انہیں کتاب دے کر بھول جاتے مگر انہیںیادہوتا کہ انہیں کتاب واپس کرناہے۔ جب وہ کتاب واپس لے کر آتے تو ہمیں یاد آتا کہ یہ کتاب تو ہم نے انہیں دے رکھی تھی۔ کتاب کا ایک ایک حرف پڑھتے اور پھر اس پر بحث بھی کرتے۔ ہم اپنی کوئی مطبوعہ کتاب انہیں دیتے تو ایک یاد و ہفتے بعد ہمیں لفافے میں بند ایک کاغذ ملتا جس پر انہوں نے کتاب میں موجود پروف کی غلطیوں کی صفحہ نمبر اور سطر نمبر کے ساتھ نشاندہی کی ہوتی۔ آخر میں یہ جملہ ضرور ہوتا کہ اگلے ایڈیشن میں یہ غلطیاں نہیں ہونی چاہئیں۔
بہت عرصہ تک ہمارایہ معمول رہا کہ ہم جمعہ کی دوپہر اکٹھے گزارتے تھے۔ نثار صاحب اسے دوستوں کی باجماعت محفل اور مجھے اس کا پیش امام کہا کرتے تھے۔ جمعہ کی ملاقاتوں میں تعطل آیا تو ان کا معمول بن گیا کہ وہ بدھ کی شام میرے گھر آجاتے تھے۔ سیاست، مذہب اور سماجی رویوں کے حوالے سے ہمارے خیالات میں غیر معمولی ہم آہنگی تھی۔’’پہلی بار انہوں نے دبے لفظوں میں مجھ سے سوال کیا تھا کہ مذہب اور خدا کے بارے میں آپ کے کیا خیالات ہیں ؟‘‘اور میرے بے دھڑک جواب پر انہوں نے خود بھی اپنے نظریات واضح کر دیئے ۔وہ بہت کم وقت میں ان چند دوستوں کی صف میں شامل ہوگئے جن کے ساتھ ہر موضوع پر کھل کر بات کی جاسکتی ہے۔ بہت میٹھے اور دل موہ لینے والے انداز میں بات کرتے تھے۔ دوستوں کو بھرپور احترام دیتے اور بہت اپنائیت کے ساتھ پیش آتے تھے۔ ان کی موت کی خبر اتنی حیران کردینے والی تھی کہ اب تک دل نہیں مانتا کہ وہ ہمیں چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ وہ ہارون آباد میں رہتے تھے۔ دوستوں کا اتنا خیال رکھتے تھے کہ مرتے وقت کسی کو پریشان کرنا مناسب نہ سمجھا۔ دفتر سے چھٹی لے کر اپنے گھر گئے اور پھر وہاں سے ان کی موت کی خبر آگئی۔ دوست اب تک حیران ہیں کہ بیماری کی چھٹی تو سبھی لیتے ہیں بھلا کوئی موت کے لئے بھی اس طرح رخصت لیتا ہے۔
مجھے یاد ہے کہ ایک بار میں نے طفیل ابنِ گل کے بارے میں ایک مضمون لکھا اور اس میں یہ المیہ تحریر کیا کہ طفیل ابنِ گل کے ساتھ میں نے بہت سا وقت گزارا مگر اس کے ساتھ تصویر بنوانے کا کبھی دل میں خیال ہی نہ آیا اور نہ کبھی کوئی ایسا سبب بنا۔ طفیل کی موت کے بعد معلوم ہوا کہ میری تو اس کے ساتھ ایک بھی تصویر نہیں ہے۔ ہم اپنے جن پیاروں سے بچھڑنے کا تصور بھی نہیں کرتے ان کے ساتھ تصویر بنوانے کا ہمیں خیال ہی نہیں آتا۔ ہاں جن سے بچھڑنے کا دھڑکا موجود ہو ان کے ساتھ ہم بار بار تصویریں بنواتے ہیں۔ میرا یہ مضمون پڑھتے ہی نثار صاحب نے کیمرہ اٹھایا اور میرے پاس آگئے۔ کہنے لگے آپ نے جس المیے کا ذکر کیا اس نے مجھے پریشان کردیا ہے۔ دوستوں کے بچھڑنے کا دھڑکا ہو یا نہ ہو۔ دوستوں کے ساتھ تصویر ضرور بنوانی چاہئے۔ پھر نثار صاحب نے میرے اور شاکر کے ساتھ تصویریں بنوائیں اور ایک ایک پرنٹ ہمیں بھی دے دیا۔ نثار صاحب جاتے ہوئے اور تو کئی دکھ دے گئے مگر انہوں نے ہمیں اس دکھ سے بچا لیاجو ہمیں طفیل ابنِ گل کی موت کے بعد ہوا تھا۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn