فیض احمد فیض ایک مشاعرے میں موجودتھے کہ ایک نوجوان مائیک پر آیا اوران کی غزل ’’گلوں میں رنگ بھرے بادِ نوبہارچلے‘‘اپنے نام سے سنانا شروع کردی۔فیض صاحب خاموشی سے غزل سنتے اور مسکراتے رہے۔وہ نوجوان جب غزل سنانے کے بعد اپنی نشست پر واپس آیا تو مشاعرے میں موجودایک صاحب نے اسے بتایا کہ اس نے جوغزل اپنے نام سے مشاعرے میں سنائی ہے وہ تو فیض احمد فیض کے مجموعہ کلام میں موجودہے۔اس نوجوان نے انتہائی غصے کے عالم میں سرجھٹکایا اورکہنے لگا’’اب دیکھیں صاحب جب اتنے بڑے بڑے شعراء بھی ایسی حرکتیں کرنے لگیں تو ہم جیسے نئے لوگوں کی شاعری پر بھلا کون یقین کرے گا‘‘۔اسی طرح ایک اور صاحب نے غالب کی غزل اپنے نام سے مشاعرے میں سنادی اورجب انہیں بتایاگیا کہ یہ غزل تو ’’دیوان غالب‘‘ میں بھی موجودہے تووہ خاصے حیران ہوئے۔کہنے لگے کہ اب تو آپ کویقین آگیا ہوگا کہ بڑے لوگ ہمیشہ ایک ہی طرح سوچتے ہیں۔شاعری میں سرقے اورتوارد کے ایسے قصے صدیوں سے سننے میں آرہے تھے مگر جب سے کتابوں کی اشاعت آسان ہوئی ہے اس قسم کے واقعات کی تعداد میں بھی اضافہ ہوگیا۔ایک شعر یا ایک غزل کی تو بات ہی نہ کیجئے لوگ تو اب پوری پوری کتابیں اپنے نام سے شائع کرالیتے ہیں۔اوردیدہ دلیری کا ایسا مظاہرہ کرتے ہیں کہ رہے نام اللہ کا۔لطف یہ ہے کہ مسروقہ شاعری کواس تواتر کے ساتھ اپنے نام سے پڑھا جاتا ہے کہ اصل شاعر منہ دیکھتا رہ جاتا ہے اورشعر اسی کے نام سے مشہورہوجاتا ہے جس نے چوری کیا ہوتا ہے۔ہمارے ہاں بظاہر توہر کتاب پر جملہ حقوق مصنف محفوظ لکھا ہوتا ہے مگرعملی صورت اس کے برعکس ہے ۔کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے کہ جیسے یہاں ’’حقوق ‘‘ کالفظ حقے کی جمع کے طورپر استعمال ہوا ہے۔ہمارے ایک دوست تو حقوق کوکہتے ہی حقے کی جمع ہیں ۔ان کاکہنا ہے کہ جب سے حقوق کے عالمی دن منائے جانے لگے ہیں حقہ پینے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا ہے۔حقہ پینا دراصل بے فکری کی علامت ہے۔آپ چلم گرم کرکے آرام سے ایک آنکھ میچ کر نال منہ میں لیے گڑگڑاتے ہیں ، اساں جان کے میچ لئی اکھ وے گنگناتے ہیں اواس بات کی قطعاً کوئی پرواہ نہیں کرتے کہ آ پ کے گُڑ گُڑانے پر آپ کے گردوپیش میں کون بڑبڑا رہاہے۔خیر ہم بات کررہے تھے کتابوں کے غیرمحفوظ ہونے کی ۔کتابوں کے حقوق والاجملہ بھی دراصل اس جملے کی مانند ہے جو پرانے زمانے میں بسوں میں درج ہوتاتھا کہ ’’کتابچہ( جسے بعض لوگ کتا ۔ بچہ بھی پڑھتے تھے ) شکایات ڈرائیور کے پاس ہے‘‘۔نہ کتابچہ شکایات کبھی ڈرائیور کے پاس ہوتاتھا اور نہ ہی کتابوں کے حقوق محفوظ ہیں۔کبھی آپ نے کسی سے سنا کہ کتاب چوری پرکسی کی خلاف کوئی کارروائی عمل میں آئی ہو۔قوانین تو یقیناً موجود ہیں مگران پرعملدرآمد ہوتے ہم نے کبھی نہیں دیکھا۔یہاں توشاعر اور ادیب کے مرنے کے بعد اس کی لائبریری کی حفاظت کوئی نہیں کرتا حقوق کا تحفظ بھلا کون کرے۔ہم نے بہت سے ایسے ادیبوں کودیکھا جو عمربھر اپنی کتابوں کاپہرہ دیتے رہے( سانپ بن کر بیٹھے رہے ہم نے دانستہ نہیں لکھا ) یہ لوگ اوروں سے کتابیں لے کر ان پر’’ ذاتی کتب خانہ‘‘ کی مہریں لگا تے اور پھر ان کتابوں کو اپنی لائبریری میں شامل کرتے رہے۔خود تو عاریتاًکسی کو کتاب نہ دیتے تھے مگر دوسروں سے کتابیں مانگنااپنا حق سمجھتے تھے۔ پھرجب یہ لوگ اس دنیا سے رخصت ہوگئے تو ان کے اہل بچوں نے ان کی جمع کی ہوئی کتابیں ردی کے بھاؤ بیچ دیں ۔اب ایسے میں خودسوچئے جملہ حقوق کی حفاظت کون کرے اور کیسے کرے۔سو ان حالات میں لائبریریوں سے پرانی کتابیں نکلوا کر اپنے نام سے چھاپنے کارواج اب زور پکڑتا جارہاہے۔اس کے دوفائدے ہوتے ہیں۔ایک تو یہ کہ سارق صاحبِ کتاب ہوجاتا ہے اور دوسرا یہ کہ ہمیں نایاب کتابیں پڑھنے کو مل جاتی ہیں ۔نئی کتابیں لکھنے کیلئے تو دماغ کاہونا شرط اولین ہے مگر مسروقہ کتب اپنے نام سے شائع کرانے کیلئے صرف اورصرف سرمائے کی ہی ضرورت ہوتی ہے۔ہم نے ایک کتاب دیکھی کہ جوشائع تو حال ہی میں ہوئی ہے مگر اس میں موجود شاعری کوئی ایک صدی قبل کے اسلوب والی ہے۔حتیٰ کہ اس کتاب میں ملکہ وکٹوریہ کی شان میں ایک قصیدہ بھی شامل ہے جس میں ان کی صحت اور درازی عمر کی دعائیں کی گئی ہیں۔کتاب پر ہاتھ صاف کرنے والے نے جلدی میں متن بھی غور سے نہ دیکھا ورنہ ملکہ وکٹوریہ کو کم ازکم ملکہ الزبتھ میں توتبدیل کیاہی جاسکتاتھا۔موصوف ہمیں کتاب دینے آئے تو ہم نے کہاکہ جناب آپ تو شاعری سے ہمیشہ دور بھاگتے تھے اور شاعروں کو برابھلا کہتے تھے۔عمربھرآپ نے کسی محفل میں کوئی شعر نہ سنایااب بھلا شعری مجموعہ کیونکر شائع ہوگیا۔کہنے لگے ’’بس اسی کو ہرفن مولاکہتے ہیں۔ذہین آدمی جب چاہے اورجس وقت چاہے طبع آزمائی کرسکتا ہے۔‘‘
’’جناب آپ نے بجا فرمایا یقیناً آپ شعر کہنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہونگے۔لیکن آپ نے تو ملکہ وکٹوریہ کاقصیدہ بھی اپنی کتاب میں شامل کرلیا۔آپ ان کی موت کے بعد ان کی صحت یابی کی دعا کیوں کررہے ہیں‘‘ پہلے تو انہیں یہ سن کر حیرت ہوئی کہ ان کی کتاب میں ملکہ وکٹوریہ کاقصیدہ بھی شامل ہے۔پھر انہوں نے صورتحال کوخوبصورتی سے سنبھالا دیا۔کہنے لگے ’’اچھا شاعر ہرزمانے کا شاعر ہوتا ہے وہ غالب کی طرح مستقبل پربھی نظررکھتا ہے اورمیری طرح ماضی سے بھی منسلک ہوجاتا ہے۔میں نے یہ شاعری ملکہ وکٹوریہ کے عہد کو مد نظر رکھ کر کی ہے اس دور کے شعراء اپنے عہد کے مسائل ٹھیک طرح سے بیان نہیں کرسکے تھے میں نے اس دور کے مسائل آج بیان کیے ہیں تاکہ ہمیں ان کے دکھوں کااندازہ ہوسکے۔‘‘سامعین کرام ان کے دکھوں کااندازہ ہویانہ ہو مگرآپ کو اب ہمارے دکھ کااندازہ توہوہی گیا ہوگا۔ خیر چھوڑیں اس بحث کو اور حقوق کو نظر انداز کر کے حقہ پیجئے اور ساتھ میں یہ گیت گنگنائیے ’’ اساں جان کے میچ لئی اکھ وے‘‘
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn