یہ امر واضح ہے کہ پاکستان کی عسکری قیادت کا تعین ایک مکمل آئینی، قانونی اور داخلی معاملہ ہے۔ کسی بھی بیرونی طاقت یا پالیسی ساز کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ پاکستان کے اداروں یا قیادت کے فیصلوں میں دخل اندازی کرے۔ اسی ضمن میں امر انتہائی توجہ کا حامل ہے کہ گزشتہ دنوں امریکی ایوانِ نمائندگان کی رکن راشدہ طلیب کی جانب سے ایک انتہائی متنازع بیان سامنے آیا، جس میں انہوں نے مطالبہ کیا کہ اگر موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر منصب پر برقرار رہتے ہیں تو پاکستان کو دی جانے والی امریکی فوجی امداد پر پابندی عائد کی جائے۔ اس کے ساتھ ہی 15 جولائی 2025 کو ذولفی بخاری نے ٹام لینٹوس کمیشن میں پاکستان کے سیاسی حالات پر ایک یکطرفہ اور جانبدارانہ گواہی دی، جس میں انہوں نے اپنی جماعت تحریک انصاف کو مظلوم اور موجودہ نظام کو جابر کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی۔ مبصرین کے مطابق ان دونوں کا پاکستانی اداروں کے خلاف بیانیہ کا مقصد ایک ہی ہے: پاکستان کے آئینی اداروں کو کمزور کرنا اور ملک کی اندرونی خودمختاری پر اثر انداز ہونا۔
راشدہ طلیب کی جانب سے فوجی امداد کو کسی فردِ واحد سے مشروط کرنا نہ صرف ناقابل قبول ہے بلکہ یہ بین الاقوامی اصولوں، سفارتی آداب اور ریاستی خودمختاری کی صریح خلاف ورزی ہے۔ واضح رہے کہ امداد کو شخصیات کی بنیاد پر مشروط کرنے کا رجحان امریکی پالیسی کو سیاسی انجینئرنگ کے آلے میں بدل دیتا ہے۔ یہ نہ تو انسانی حقوق کے تحفظ کا راستہ ہے اور نہ ہی کسی جمہوری اصول کی نمائندگی کرتا ہے۔ امریکہ کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ کسی مخصوص گروہ یا سیاسی جماعت کے دباؤ میں آ کر پالیسیاں بنانا نہ صرف خطے میں اس کے اثر و رسوخ کو نقصان پہنچائے گا بلکہ اس کی ساکھ بھی داو پر لگ جائے گی۔
اس تمام صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے سفارتی اور سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ راشدہ طلیب کی تنظیم PAKPAC کے ساتھ وابستگی، اگرچہ بظاہر پاکستانی کمیونٹی تک رسائی کا ذریعہ ہے، لیکن اسے پی ٹی آئی کے بیانیے کو فروغ دینے کے لیے استعمال کرنا ان کی سیاسی غیرجانبداری پر سوالات اٹھاتا ہے۔ کوئی بھی امریکی قانون ساز کسی سیاسی گروہ کا پراکسی نہیں بن سکتا، خاص طور پر جب اس گروہ کا مقصد پاکستان کے آئینی اداروں کو کمزور کرنا ہو۔
اسی تناظر میں ذولفی بخاری کی حالیہ گواہی بھی غیرمتوازن اور خود ساختہ بیانیے پر مبنی تھی۔ انہوں نے حسبِ روایت خود کو اور اپنی جماعت کو مظلوم ظاہر کیا لیکن کوئی قابلِ اعتبار شواہد فراہم نہیں کیے۔ یاد رہے کہ یہ وہی ذولفی بخاری ہیں جن پر ماضی میں کرپشن اور 50 فیصد کمیشن کے الزامات لگ چکے ہیں۔ ایسے شخص کے دعوے نہ صرف ناقابلِ اعتبار ہیں بلکہ ان کا مقصد امریکی رائے عامہ کو گمراہ کرنا ہے۔واضح ہو کہ انہوں نے 2024 کے عام انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیا، حالانکہ 60 ملین سے زائد ووٹروں نے ان انتخابات میں حصہ لیا، جن میں مردوں کا ٹرن آؤٹ 52.2 فیصد جبکہ خواتین کا 43.2فیصد رہا – جو کہ ایک تاریخی اضافہ ہے۔علاوہ ازیں، ان انتخابات کو مجموعی طور پر دولتِ مشترکہ سمیت بین الاقوامی مبصرین نے شفاف اور منظم قرار دیا تھا۔
اس ضمن میں یہ امر توجہ کا حامل ہے کہ ذولفی بخاری نے میڈیا کی آزادی پر قدغن کا شکوہ کیا، حالانکہ انتخابی دورانئے میں میڈیا مکمل طور پر آزاد اور متحرک رہا۔ انہوں نے سویلینز کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات کو ہدفِ تنقید بنایا، مگر یہ بات نظر انداز کر گئے کہ یہ مقدمات اُن افراد کے خلاف تھے جنہوں نے 9 مئی 2023 کو عسکری تنصیبات پر حملے کیے، قومی یادگاروں کی بے حرمتی کی، اور ریاست پر منظم حملے کیے۔ لہٰذا فوجی عدالتوں کا قیام آئینی و قانونی عمل کے تحت ہوا اور ان عدالتوں کی کارروائیاں بین الاقوامی قوانین، جیسا کہ ICCPR، کے اصولوں کے مطابق چلائی گئیں، جن میں وکیل کے انتخاب، جرح، اپیل اور رحم کی درخواست جیسے تمام حقوق شامل تھے۔ اسی ضمن میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے ان عدالتوں کی آئینی حیثیت کو تسلیم کیا، اور کئی افراد کو بری بھی کیا گیا، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مقدمات پہلے سے طے شدہ نہیں تھے۔
لیکن پی ٹی آئی نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ عام شہریوں کو صرف سوشل میڈیا سرگرمیوں پر سزا دی گئی، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ 104 افراد کو پرتشدد کارروائیوں میں ملوث ہونے پر سزا دی گئی جنہوں نے جی ایچ کیو، کور کمانڈر ہاؤسز اور دیگر حساس مقامات پر حملے کیے تھے، اور یہ احتجاج نہیں بلکہ بغاوت کی منصوبہ بندی تھی۔ تحریک انصاف نے خود اپنے اعمال سے آئینی حدود کو پامال کیا اور ریاستی اداروں کو چیلنج کیا۔ اب جب ریاست اپنا آئینی اختیار استعمال کرتی ہے، تو وہی افراد انسانی حقوق کے عَلَم بردار بننے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں – یہ نہ تو اخلاقی طور پر درست ہے اور نہ ہی منطقی۔
آخر میں، یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ راشدہ طلیب اور ذولفی بخاری جیسے افراد درحقیقت وہ بیانیہ فروغ دے رہے ہیں جو پاکستان کے داخلی استحکام کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔ ان بیانیوں کو غیرجانبدار اور آئین کے محافظ حلقوں کی جانب سے سنجیدگی سے رد کرنا ناگزیر ہے تاکہ پاکستان کی خودمختاری، آئینی ادارے اور جمہوری عمل محفوظ رہ سکیں۔


دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn