سانحہ قصور ایک المناک قومی سانحہ تھا۔ اس سانحہ کے کئی سماجی اور قانونی پہلو قابلِ بحث ہیں اور ہر وہ فکری یا عملی کاوش جو اس جیسے سانحات کے تکرار سے بچا سکے مستحسن اور مطلوب ہے۔ اس سانحہ کے مختلف مفروضوں پر اسلامی قانون "فقہ” کی پوزیشن کیا ہے؟ یہ وہ بنیادی سوال ہے جو ہمارے اکثر دوستوں کے اذہان کو الجھائے ہوئے ہے۔ اس موضوع پر ہمارے کچھ فاضل دوستوں نے فقہ احناف کا نکتہ نظر بیان کیا ہے۔ اس اہم موضوع پر فقہ امامیہ کا نکتہ نظر بیان کیا جانا بھی فائدے سے خالی نہیں لہذا ہم اپنی آج کی اس تحریر میں زنا بالجبر کے موضوع پر فقہ امامیہ کی پوزیشن کو بیان کرنے کی کوشش کریں گے۔ قرآن و سنت سماوی قانون کے دو بنیادی ماخذ ہیں۔ ایک مخصوص ضابطے کے تحت قرآن و سنت سے استخراج شدہ احکام کے مجموعے کو فقہ کا نام دیا جاتا ہے. جدید معاشروں کا نظم و نسق چلانے کے لیے ضروری ہے کہ اسلامی معاشرے اسی الہی فقہ کی بنیاد پر ایک قانون وضع کریں۔ ایسے میں فقہ کی حیثیت ایک ایسے source of law کی ہو گی جو جہاں ایک اسلامی وضعی قانون کی فاؤنڈیشن فراہم کرے گا وہیں بعد میں پیش آنے والی قانونی پیچیدگیوں کا حل پیش کرنا اور بشری عقلی مفروضوں کا جواب دینا بھی اسی علم کی ذمہ داری ہو گی مگر یہ کہ کوئی ثابت کر لے کہ شریعت باعنوان سماوی قانون معاشرہ چلانے کے لیےتنہا کافی اور کسی وضعی قانون کی ضرورت نہیں ہے۔ ایسے میں فقہی منابع ہی قانونی کتابیں اور فقہی قواعد و ضوابط ہی قوانین کا درجہ رکھتے ہوں گے جو ایک ناممکن امر ہے۔ ممکن ہے کسی قانون و فقہ کے طالب علم کے ذہن میں یہ سوال جائے کہ قضات کی چند متصور صورتوں (مجتہد یا مقلد) میں سے قاضی مجتہد ہو تو ایسے میں تو کسی وضعی قانون کی ضرورت نہیں رہے گی بلکہ قاضی خود اسلام کے بنیادی ماخذ سے احکام کو استنباط کر کے حکم لگا سکتا ہے تو ہمارے نزدیک اس حالت میں بھی ایک وضعی قانون ناگزیر ہے تاکہ قانون کی یکسانیت جیسا اہم اور شرع کے مورد تاکید و تائید اصول نافذ رہ سکے۔ اس مسئلے کی مزید صورتیں متصور ہیں کہ جس پر علیحدہ سے ایک مستقل بحث کی ضرورت ہے۔ ہم یہاں صرف اسی مقدمے پر ہی اکتفا کریں گے۔ لہذا اگر فقہ مذکورہ بالا ذمہ داری ادا نہیں کر پاتی تو وہ موجودہ معاشرے کے لیے ناکارآمد کہلائے گی۔ جب کہ ایسا نہیں ہے۔ فقہ ایک مکمل کارآمد اور جامع ضابطہ ہے کہ جس میں ایک اسلامی وضعی قانون کی فاؤنڈیشن فراہم کرنے سے لے کر تمام بشری عقلی مفروضوں کا جواب کلی یا جزوی طور پر دینے کی صلاحیت موجود ہے۔ مذکورہ موضوع پر بحث میں مشغول فاضل دوستوں میں سے ایک فریق کے ساتھ ہمارا بالواسطہ مکالمہ بھی رہا اور ہم نے فقہ امامیہ کا اس حوالے سے نکتہ نظر ان کے ساتھ شئیر کیا لیکن جب ان فاضل دوستوں نے اپنی بحث کی جمع بندی میں ایک مضمون دیا تو اس میں اسلام کے پانچویں مذہب یعنی امامیہ مذہب کے نکتہ نظر کو یکسر نظرانداز کیا جب کہ ہم نے فاضل دوست کو عرض کیا تھا کہ امامیہ فقہا نے زنا بالجبر کے مسئلے کو بہت عمدہ طریقے سے حل کر رکھا ہے۔ فاضل دوست نے اپنے مفروضات کو اسلامی فقہ کے تضادات اور ابہامات سے تشبیہ دی اور ان ابہامات کو تمام اسلامی مذاہب پر لاگو کر دیا۔ کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ فاضل دوست اسلام کے مذاہب اربعہ کی اصطلاح یا کسی بھی دوسری اصطلاح کے ساتھ اپنے مضمون میں کلی حکم نہ لگاتے اور فقہ امامیہ کو ان ابہامات سے مستثنی قرار دیتے۔ پس یہ امر اس موضوع پر اظہار نظر کی ضرورت کو دوچندان کر دیتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں فقہ چاہے اسلام کے پانچوں مذاہب میں سے کسی بھی مذہب کی ہو اگر وہ کسی مسئلے کا واضح حل پیش کرتی ہے تو اسے اسلامی وضعی قوانین میں اپنانے میں کوئی قباحت نہیں ہونی چاہیے۔ اس عنوان سے ہمارے ایک فاضل دوست کے نزدیک وضعی قانون میں ایک ہی مذہب کی فقہ سے مستفید ہونا چاہیے۔ کیونکہ اس کے اصول اور قواعد ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ ہوتے ہیں۔ ہمارا خیال ہے حیف ہے اگر مذاہب پنجگانہ میں سے کسی ایک مذہب کی فقہ کسی قانونی پیچیدگی میں کوئی مناسب اور واضح راہ حل دیتی ہو اور ہم اسے صرف اس دلیل پر قبول نہ کریں کہ چونکہ بقیہ امور میں اس مذہب کی فقہ قبول نہیں کی گئی لہذا ہم اس مسئلے میں بھی قبول نہیں کرتے۔ چاہے جتنی پیچیدگیاں بڑھتی جائیں اور انصاف ایون عدل کی دیواروں اور کتبوں پر لکھے اسلاف کے اقوال اور کتابوں کے اوراق تک ہی محدود کیوں نہ رہ جائیں۔ اس مقدمے کے بعد اصل موضوع یعنی زنا بالجبر اور فقہ امامیہ کا موقف کی طرف واپس آتے ہیں۔ امامیہ فقہا نے اس مسئلے کو بہت مدلل انداز سے حل کیا ہے۔ امامیہ فقہا کے نزدیک زنا میں چند صورتیں متصور ہیں۔ ایک دفعہ ممکن ہے کہ زنا کے جرم میں شریک ہر دو طرف باہمی رضامندی سے زنا جیسے قبیح اور شنیع فعل کو انجام دیں۔ ایسے میں یہ زنا بالرضا ہے اور اس کی سزا کے مختلف مدارج ہیں۔ زنا کے جرم میں دوسری صورت یہ ہے کہ زنا میں شریک دونوں فریقوں میں سے ایک کی رضامندی ہو اور دوسرے کی رضا مندی نہ ہو اور یہ قبیح و شنیع فعل اس کے ساتھ زور زبردستی کے ساتھ انجام دیا جائے ایسے میں یہ زنا بالجبر ہے۔ ایک تیسری صورت بھی متصور ہے اور وہ یہ کہ ممکن ہے اس فریق کی رضا مندی بھی ہو لیکن وہ رضا مندی اکراہ، اجبار یا فریب کے ذریعے حاصل کی گئی ہو تو ایسے میں بھی یہ زنا بالجبر کے زمرے میں آئے گا۔ امامیہ فقہا کے نزدیک اس دوسری اور تیسری صورت یعنی زنا بالجبر میں حتی مرد بھی نشانہ بن سکتا اور خاتون کی طرف سے زنا بالجبر کے ارتکاب کے تصور کا بھی انکار نہیں کیا گیا ہے۔ مذکورہ بیان کردہ صورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے دوسری صورت کے لیے فقہا نے اپنی فقہی کتب میں غصب الفرج کی اصطلاح استعمال کی ہے اور تیسری صورت کے لیے اکراہ یا اجبار کی اصطلاحات استعمال کی گئی ہیں۔ جہاں تک بات ہے اس قبیح اور شنیع فعل کی سزا کی تو طول تاریخ کے تمام امامیہ فقہا اس قبیح اور شنیع فعل کے مرتکب کے قتل یعنی سزائے موت کے قائل ہیں چاہے وہ شادی شدہ ہو یا نہ ہو، چاہے بالغ کے ساتھ زنا کرے یا نابالغہ کے ساتھ، فرق صرف مجرم کے قتل کے طریقے میں ہے کہ اسے تلوار سے قتل کیا جائے یا ہر دوسرے متعارف طریقے سے قتل کیا جا سکتا ہے۔ سند کے طور پر ہم چند مشہور امامیہ فقہا کی آراء کو بطور مثال ذکر کرتے ہیں۔ بارہویں صدی ہجری کے مشہور امامیہ فقیہ حضرت آیت اللہ العظمی محمد حسن نجفی علیہ الرحمہ اپنی مشہور فقہی کتاب جواہر الکلام میں جبری زنا اور اس کی حد بارے یوں فرماتے ہیں "یقتل من زنی بامرأۃ مکرھا لھا”۔ (جواھر الکلام، ج 41 ص 315)۔
عصر حاضر کے ایک مشہور امامیہ فقیہ حضرت آیت اللہ العظمی ابولقاسم خوئی علیہ الرحمہ مبانی تکملۃ المنہاج میں جبری زنا اور اس کی حد بارے یوں فرماتے ہیں۔ "إذا أکرہ شخص إمراۃ علی الزنا فزنی بھا قتل من دون الفرق فی ذلک بین المحصن و غیرہ” (مبانی تکملۃ المنھاج، ص194، مسئلہ 153)۔ عصر حاضر کے ایک اور مشہور امامیہ فقیہ حضرت آیت اللہ العظمی امام خمینی علیہ الرحمہ تحریر الوسیلہ میں جبری زنا کی سزا کے بارے فرماتے ہیں کہ
"و کذا یقتل من زنی بامرأۃ مکرھاً لھا۔ لا یعتبر فی المواضع المتقدمہ الاحصان، بل یقتل محصناً أو غیر محصن و یشتاوی الشیخ ولشاب والمسلم والکافر والحر والعبد”۔ (ج4، ص 178، مسئلہ نمبر 1)۔
امامیہ فقہا نے اس مسئلے کے ایک اور اہم پہلو کو بھی مورد توجہ قرار دیا اور اس احتمال یعنی زنا بالجبر کی کوشش کے دوران اپنی نجات کے لیے اگر وہ شخص کے جس پر تجاوز کیا جارہا ہے کوئی اقدام کرتا ہے کہ جس سے متجاوز کی موت واقع ہو جاتی ہے تو اس زانی کا خون معاف اور طرف مقابل پر دیت یا قصاص نہیں ہے۔ (استفتائات جدید، آیت اللہ لعظمی ناصر مکارم شیرازی حفظہ اللہ تعالی، ج3 ص 349)۔ ممکن ہے کسی محترم قاری کے ذہن میں یہ سوال جنم لے کہ امامیہ فقہا نے یہ حکم کہاں سے لیا ہے؟ اس کی قرآن یا سنت میں کوئی دلیل ملتی ہے یا یہ حکم ان فقہا نے اپنے اجماع اور رائے سے لگایا ہے؟ عرض ہے کہ امامیہ فقہا نے زنا بالجبر میں قتل کی سزا کا حکم بالکل اسی طرح سنت سے کشف کیا ہے جیسے زنا بالرضا میں رجم کا حکم سنت سے اخذ کیا گیا ہے۔ لازم بہ ذکر ہے کہ امامیہ فقہ میں اجتہاد سے مراد عقل اور دوسرے قرائن کی مدد سے شریعت کے بنیادی ماخذ قرآن و سنت سے حکم استنباط کرنا ہے کہ جس میں مجتہد کی ذاتی رائے یا صرف عقل کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ضروری ہے کہ حکم مستند بہ قرآن و سنت ہو۔ امامیہ فقہ میں سنت سے مراد نبی مکرم اسلام حضرت محمد مصطفی صل اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ان کے جانشین معصوم اماموں کا قول، فعل اور تقریر ہے کہ جو بذات خود ایک مستقل موضوع ہے جس پر کسی دوسری فرصت میں قارئین کی دلچسی کے نکات قلم بند کریں گے انشااللہ۔ زنا بالجبر کی حد یعنی زانی یا زانیہ کے قتل کی سزا کے ماخذ کے طور پر حدیث کی شیعہ کتب میں نقل صحیح احادیث میں سے ایک حدیث ترجمے اور چند دوسری بغیر ترجمے کے قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔ 1۔ منجمد بن يعقوب، عن محمد بن يحيى، عن أحمد بن محمد، وعن علي بن إبراهيم، عن أبيه جميعا، عن ابن محبوب، عن أبي أيوب، عن بريد العجلي قال: سئل أبوجعفر عليه السلام عن رجل اغتصب امرأة فرجها؟ قال: يقتل محصنا كان أو غير محصن۔ ترجمہ: روای کہتا ہے "میں نے امام محمد باقر علیہ السلام سے ایسے شخص کے بارے سوال کیا کہ جس نے عورت کے ساتھ زبردستی زنا کیا تو آپ نے فرمایا اسے قتل کر دیا جائے چاہے شادی شدہ ہے یا نہیں”۔
2۔ وعنه، عن أحمد، عن ابن أبي نجران، عن جميل بندراج، ومحمد بن حمران جميعا، عن زرارة، قال: قلت لإبي جعفر عليهالسلام: الرجل يغصب المرأة نفسها ، قال: يقتل۔
3۔ وعن أبي علي الأشعري ، عن محمد بن عبد الجبار، عن علي بن حديد، عن جميل، عن زرارة، عن أبي جعفر عليهالسلام في رجل غصب امرأة فرجها ،قال: يضرب ضربة بالسيف بالغة منه ما بلغت۔ 4۔ وعن علي بن إبراهيم، عن أبيه، عن ابن أبي عمير، عن جميل، عن زرارة، عن أحدهما عليهماالسلام في رجل غصب امرأة نفسها، قال: يقتل۔ 5۔ ورواه الصدوق بإسناده عن جميل مثله، إلا أنه قال: يقتل محصنا كان أو غير محصن۔ 6 وعنه، عن محمد بن عيسى، عن يونس، عن أبي بصير، عن أبي عبدالله عليهالسلام، قال: إذا كابر الرجل المرأة على نفسها ضرب ضربة بالسيف مات منها أو عاش.
(احادیث کا حوالہ: علامہ شیخ حر عاملی، وسائل الشیعہِ، ج ۲۸، باب نمبر ۱۷ پہلی چھ احادیث) پس یہ کہنا کہ زنا بالجبر کا تصور نیا یا مغربی قوانین سے لیا گیا ہے درست نہ ہو گا کیونکہ یہ مسئلہ اوائل اسلام میں پیش رہا اور آئمہ ہدیٰ علیہم الصلوۃ والسلام نے اس مسئلے کی نوعیت اور سزا کا تعین فرما رکھا ہے اور امامیہ فقہا نے طول تاریخ میں انہی اقوال مبارکہ سے استنباط کرتے ہوئے اس مسئلے کی تمام فروعات کو بیان کیا ہے۔ رضایت کے ساتھ انجام پانے والے جنسی جرائم سے متعلق امور میں افراد و خاندان کی عزت و آبرو کی حفاظت، مرتکبین کو ندامت، پشیمانی اور توبہ کی طرف رہنمائی کرنا، معاشرے میں فحاشی اور ناموس پر تجاوز کے موضوعات کے زبان زد عام ہونے کا سدباب وغیرہ اسلام کے مدنظر ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان جرائم کے ثابت کرنے کے لیے سخت شرائط معین کی گئی ہیں لیکن زنا بالجبر کہ جس میں پورے معاشرے کے احساسات متاثر ہوتے اور انسان کی باعنوان انسان حیثیت پر سوال اٹھتا ہے بعید ہے کہ ان امور میں شارع کہ جو ہمارے عقیدے کے مطابق حکیم و دانا ہے وہی عام جنسی جرائم والی سزا اور جرم کو ثابت کرنے کے لیے وہی سخت شرائط مدنظر رکھے۔ لہذا شارع نے اس قبیح اور شنیع جرم کے ثابت کرنے کے لیے ایک مختلف حکمت عملی اپنائی ہے۔ اگر اسلامی فقہ اور خصوصا فقہ امامیہ کو مدنظر رکھا جائے تو جرائم کے اثبات میں دو طرح کی روش اپنائی گئی ہے۔ پہلی روش مخصوص جرائم میں جیسا کہ عام زنا وغیرہ میں چار گواہوں کی مخصوص شرائط کے ساتھ گواہی یا اقرار اور دوسری روش جرم کے اثبات کی عام روش ہے۔ جو عام جرائم میں اپنائی گئی ہے۔ امامیہ فقہ کے مطابق اقرار، بینہ یعنی گواہوں کی گواہی، قسم اور قاضی کا سچائی کے بارے یقینی علم جرم کے اثبات کی عام روش میں سے ہے۔ امامیہ فقہ میں دوسری روش کے آخرالذکر مورد کو علم قاضی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لازم بہ ذکر ہے علم قاضی سے یہاں ہمارا مقصود جرم کے اثبات کے مرحلے میں قاضی کا سچائی کے بارے یقین ہے۔ جرم کے اثبات کے مرحلے میں علمِ قاضی یعنی یہ کہ اگر قاضی ہر متعارف طریقے کہ جسے عقل و عرف قبول کرے جیسے طبی معائنہ، جدید ٹیکنالوجی، محل وقوع کا دورہ، اطراف سے ملنے والی معلومات، کیس کے دیگر قرائن وغیرہ سے کسی جرم کی سچائی تک پہنچ جاتا ہے اور اس جرم کی دوسری مخصوص شرائط جیسے اقرار یا چار افراد کی گواہی نہیں بھی ملتی تو وہ قاضی (جج) متعارف ذریعہ سے حاصل ہونے والے سچائی کے یقینی علم کی بنا پر حد جاری کرنے کا مجاز ہے۔ بلکہ قضاوت کے واجب ہونے کے تناظر میں پابند ہے۔ حضرت آیت اللہ العظمی امام خمینی علیہ الرحمہ تحریر الوسیلہ میں اس بارے فرماتے ہیں کہ "یجوز للقاضی ان یحكم بعلمه من دون بینه او حلف فی حقوق الناس و كذا فی حقوقالله”۔ (تحریر الوسیلہ، ج 4 قاضی کے وظایف مسئلہ نمبر8)۔ حضرت آیت اللہ العظمی امام خمینی علیہ الرحمہ قاضی (جج) کے سچائی کے بارے یقینی علم حاصل ہونے کی صورت میں حد کے جاری کرنے کے بارے فرماتے ہیں کہ "للحاکم أن یحکم بعلمہ فی حقوق اللہ و حقوق الناس فیجب علیہ إقامۃ الحدود اللہ تعالی لو علم بالسبب فیعد الزانی کما یجب علیہ مع قیام البینۃ والاقرار”۔ یعنی حاکم حق رکھتا ہے کہ حقوق اللہ اور حقوق الناس میں اپنے علم پرعمل کرے پس اگر وہ سبب کو جانتا ہے تو اس پر واجب ہے کہ اللہ کی حدود کو جاری کرے پس زانی پر اسی طرح حد جاری کی جائے گی جیسے گواہوں اور اقرار سے ثابت ہونے پر جاری کی جاتی ہے۔ (تحریر الوسیلہ، ج 4 ص 197)۔ فقہ امامیہ میں جرم کے اثبات کی عمومی روش تمام جرائم پر اور خصوصا ان جرائم پر کہ جہاں شریعت کی حکمت عملی ان جرائم پر پردہ پوشی یا ان جرائم میں رعایت برتنے کی نہیں ہے لاگو ہے۔ اور زنا بالجبر کا جرم انہی جرائم میں سے ایک جرم ہے کہ شارع کے نزدیک جس پر پردہ پوشی مقصود نہیں ہے بلکہ مرتکب کی سزا مقصود ہے۔ لہذا زنا بالجبر کا جرم اگر مخصوص روش یعنی اقرار، مخصوص شرائط کی حامل گواہی وغیرہ سے ثابت نہیں ہوتا یا ثابت ہونے کا امکان نہیں تو قاضی (جج) جرم کے اثبات کی عام روش اپنا سکتا اور اس میں سے بھی اگر کسی بھی متعارف طریقے سے موضوع کی حقیقت تک پہنچ جاتا ہے تو معین سزا (زنا بالجبر میں سزائے موت) دینے کا مجاز ہے بلکہ اگر قضاوت کے واجب ہونے کے تناظر میں دیکھا جائے تو پابند ہے۔ لہذا یہ کہنا کہ زنا بالجبر کا تصور فقہ میں نہیں ہے یا اس کی سزا کا تصور نہیں ہے یا اس کے اثبات کی روش پر فقہ ساکت ہے درست نہیں ہے اور اس موضوع کو فقہ امامیہ نے اوائل اسلام سے حل و فصل کر رکھا اور امامیہ فقہا نے اس موضوع کے مختلف فروض پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ جیسے جیسے انسانی معاشرے ترقی کرتے اور علم و ٹیکنالوجی میں پیش رفت کرتے جا رہے ہیں ایسے ہی انسانی معاشروں میں موجود فاسد افراد نے جرائم کے بھی نت نئے طریقے تلاش کر لیے ہیں۔ متعدد ایسے جرائم وجود رکھتے ہیں کہ جو عام روایتی طریقوں سے ثابت نہیں ہو پاتے لہذا خطر ناک مجرم کیفر کردار کو نہیں پہنچتے. خصوصا ایسے جرائم میں کہ جہاں مجرم پہلے ثبوت خنثی کرتا بعد میں جرم انجام دیتا ہے جیسے جبری زنا وغیرہ کا جرم۔ ایسی صورت حال میں اگر کسی معاشرے کے عقلا حتی وہ غیر دینی معاشرہ ہی کیوں نہ ہو کسی انسانی مشکل کے حل پر ہم سے پہلے اتفاق کر لیتے ہیں تو اس حل کو اپنانے سے نہ تو عقل روکتی نہ شرع روکتی ہے مگر یہ کہ وہ راہ حل شرعی نصوص کی صراحت کے ساتھ خلاف ورزی کرتا ہو۔ فقہ کو دور حاضر میں جواب دہ اور کارآمد بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اجتہاد کے موضوع پر نظر ثانی کی جائے اور اجتہاد کا ایک نیا دور شروع کیا جائے جو عصر حاضر کی ضروریات کے عین مطابق ہو۔ لازم بہ ذکر ہے کہ اسی ضرورت کے پیش نظر فقہ امامیہ میں اجتہاد عصر پیغمبر اور آئمہ معصومین علیہم السلام کے بعد سے لے کر آج تک تقریبا آٹھ مختلف ادوار گزار چکا اور خود کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرکے شریعت جو کہ ابدی اور ہمیشگی ہے سے بنی نوع انسان کی مشکلات کے حل کے لیے احکام کشف کر رہا ہے۔ لیکن اجتہاد کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے یا شریعت کی تفریح کے اس اہم اور بنیادی ابزار کو ازسر نو فعال کیے جانے سے یہ قطعا مراد نہیں لی جا سکتی کہ علم فقہ کو ایک ناکارہ اور بوسیدہ علم قرار اور طول تاریخ کے جلیل القدر سنی و شیعہ فقہا کی زحمات و دینی معاشروں کی خدمات کو نظرانداز کر دیا جائے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn