مارک ایک برطانوی سفیر تھا۔ پاکستان میں سفارتکاری کے فرائض سرانجام دیتے اسکا چوتھا سال تھا۔اپنی اڑتالیس سالہ زندگی میں اسے کئ ممالک کی خاک چھاننی پڑی لیکن پاکستان میں آ کر اسے اپنی ملازمت کا حقیقی لطف ملا یہی وجہ تھی کہ وہ دو بار اپنا تبادلہ رکوا چکا تھا۔
کرپشن،دہشتگردی،معاشرتی بے راہ روی،بوسیدہ و مفاد پسندانہ غیر جمہوری سیاسی نظام،لاقانونیت جیسے مسائل کے بے بحر قراں کے باوجود مارک کے لیے یہ ملک مثال جنت ہے۔
اسد مارک کا پرسنل سیکرٹری ہے۔مارک کا اکثر اسد کے گھر آنا جانا ہے وہ اسد اور اس کی بیوی کی مہمان نوازی سے بے حد متاثر تھا۔ اسد کو رہائش یہاں تک کہ گھر کا راشن دال، سبزی ،گوشت،چاول سب کچھ سفارتخانے کی طرف سے مہیا تھا۔
اسد راشن کی مد میں جو بھی خریداری کرتا اس کا بل دفتر کے اکا ؤنٹس ڈپارٹمنٹ میں جمع کرتا تو بل کے مساوی رقم اسے مل جاتی۔ لیکن مارک نے گذشتہ چار سالوں میں یہ بات نوٹ کی کہ اسد نے مسلمانوں کے بابرکت اسلامی مہینہ ماہ رمضان المبارک میں کبھی راشن کا کوئی بل داخل دفتر نہیں کروایا۔
اس سے مارک نے اپنے طور یہی اندازہ قائم کیا کہ چونکہ یہ مسلمانوں کا مقدس مہینہ ہے اس لیے یقینی طور پر حکومت پاکستان اپنے شہریوں کے لیے مفت راشن کا پیکج وغیرہ دیتی ہو گی ۔ لیکن مارک نے یہ بات بھی نوٹ کی کہ رمضان میں جب بھی اسد کے ہاں جانا ہوا دونوں میاں بیوی کو پریشان ہی پایا۔
آج مارک اور اسد کی بیوی آمنہ، آمنے سامنے بیٹھے تھے۔ اسد کچھ دیر پہلے سحری اور کل کی افطار کی خریداری کا کہ کر گھر سے نکلا تھا۔ جانے سے پہلے اسد اور آمنہ کی کچن میں ہونے والی جھڑپ مارک سن چکا تھا۔ اسد کے جانے کے بعد مارک کو کمپنی دینے کے لیے آمنہ بھی لاؤنج میں آ بیٹھی۔
مضوع گفتگو کے طور پر مارک نے آمنہ سے پوچھا!
حکومت آپ کو کتنا رمضان پیکج دیتی ہے؟
رابعہ : کیسا پیکج، يه آپ کا برطانیہ نہیں ہے۔ جہاں کرسمس پیکج،ایسٹر پیکج الاں فلاں الاؤنس دیا جاتا ہے۔ یہاں نظام الٹ ہے ۔ یہاں رمضان میں ہر چیز کی قیمت تین گنا ہو جاتی ہے۔ ہم پر پھر اللّٰہ کاکرم ہے اس ملک ایسے لوگ بھی بستے ہیں جن کو دو وقت کا کھانا میسر نہیں۔
مارک: تو اسد رمضان میں راشن کا بل دفتر سے کیوں کلیر کرواتا؟
آمنہ:ان پر خواہ مخواہ کا حب الوطنی کا بھوت سوار ہے۔ وہ کہتے تین گنا قیمتیں دیکھ کر میرے ملک کے بارے دفتر والے کیا سوچیں گے۔
آمنہ کی کسی بات کا کوئ جواب دیے بغیر مارک وہاں سے اٹھ گیا۔ ساتھ ہی اس کا دل بھی اٹھ گیا اس ملک سے جہاں وہ بیسیوں سمجھوتوں کے باوجود بھی خوشی خوشی رہ رہا تھا۔
اور پھر مارک واقعی چلا گیا، لوگوں کو ٹریفک سگنل توڑتا دیکھ کر ، انھی سگنلز پر بھکاریوں کو ہاتھ پھیلا کر مانگتا دیکھ کر،آۓ روز بم دھماکوں ،قتل وغارت کی خبریں پڑھ پڑھ کر بھی ایک موہوم سی امیداس غیر ملکی اور غیر مذہب شخص کو بھی تھی کہ بہتری کا امکان ابھی باقی ہے۔
اور دو روز بعد مارک چلا گیا ۔ ۔ہمارے لیے ایک سوال چھوڑ گیا کہ ماہ مقدس میں گراں فروشی ایک غیر مذہب وغیر ملکی کو برداشت نہیں تو ہم پاکستانی کیوں سب کچھ رمضان کے ساتھ ساتھ چپ کا روزہ بھی رکھ کر برداش کیے جا رہے ہیں۔ ہم تو مارک کی طرح ملک چھوڑ کر کہیں جا بھی نہیں سکتے، ہم نے تو یہیں رہنا ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn