فرح رضوی سے اپنی شناسائی ڈھونڈنے بیٹھی تو مجھے کوئی مشکل نہ ہوئی کہ خوبصورت دوستی کا یہ تعلق سوشل میڈیا کا مرہون منت ہے اور میں شکر گزار ہوں کہ سوشل میڈیا نے بہت خوبصورت دوست دیئے ۔ میں فرح کی طرف متوجہ ،انکے خوبصورت کمنٹ کی بدولت ہوئی جو انھوں نے مشہور کالم نگار اور سکالر ،رانا محبوب اختر صاحب کے اسپین کے سیاحتی دورے کی پوسٹ پر کئے تھے۔یہ پوسٹ وہاں کے تاریخی مقامات کے حوالے سے تھی۔ وہ کمنٹ میں ڈھونڈ نہیں سکی ورنہ اسکی خوبصورتی لطف دوبالا کر دیتی ۔پہلے پہل میں مسحور اور پھر مشتاق ہو گئ کہ جہاں فرح رضوی کا نام ہے وہ سطریں ضرور پڑھنی ہیں بلکہ میں فرح کے نام کی جستجو میں رہتی تاکہ خوبصورت الفاظ اور نپے تلے انداز میں انکے اظہار خیال سے لطف اندوز ہو سکوں اور یہیں سے ہماری دوستی کا تعلق بھی چل نکلا ۔ فرح نہ صرف ہمارے ذوق کی تسکین کرواتی تھیں بلکہ مجھ جیسی کم علم کے کمنٹس پر بھی بہت حوصلہ افزاء تعریف کیا کرتیں۔ اچانک ایک دن میرے علم میں آیا کہ اتنے حَسین لفظوں کو موتیوں کی طرح پروتی فرح ،شاعرہ ہیں۔ میں بالکل حیران نہیں ہوئی کہ یہ خوبصورت لب ولہجہ ایک شاعرہ کا ہی ہو سکتا ہے۔ انکے اسی دوستانہ، حوصلہ افزا اور پیارے تعلق نے مجھے یہ حوصلہ دیا کہ میں فرح کی شاعری کے حوالے سے کچھ لکھ سکوں ۔
فرح کی کتاب کے نام اور سرِورق کے بارے میں کچھ نہ لکھوں تو یہ ممکن نہیں۔ بے حد خوبصورت، منفرد اور خاتون شاعرہ کے حوالے سے انتہائی موزوں کہ ضبط ہر عورت کو گھٹی کے طور پر ضرور پلایا جاتا ہے پھر اگر شاعرہ ہو تو ؛؛ فصیلِ ضبط ؛؛
فرح کی کتاب کا پیش لفظ پڑھتے ہوئے علم میں آیا کہ ماشاءاللہ بڑی محترم شخصیات کے زیر سایہ رہیں اور ان سے جو سیکھا اسکا حق بھی ادا کیا۔
حساس شخصیت رکھنے والی فرح کی شاعری میں یہ حساسیت جذبوں کے اظہار میں جھلکتی نظر آتی ہے۔یہ احساس ہی ہے کہ بڑی دردمندی سے فرح نے ہمارے گردوپیش میں ہونے والے حالات بیان کئے۔ خاص طور پر آج کے پر آشوب دور کے حوالے سے ۔
اک اور نسل ہو گئی دیوالیہ فرح
قیمت روایتوں نے بڑھادی بری طرح
۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ پھول اب خزاں کی پہنچ سے ہوئے پرے
دفنا دیا ہے جن کو بہاروں کی چھاؤں میں
دہلیز پر کھڑی ہے ہر اک ماں کچھ اسطرح
نورِنظر جدا ہوۓ پاروں کی چھاؤں میں
۔۔۔۔۔۔۔۔
مسلک نے بوند بوند نچوڑی لہو سے اور
انسانیت کے نام پہ یہ ابتری لکھی
۔۔۔۔۔۔۔
"فصیلِ ضبط” کی ورق گردانی کرتے ہوئے، احساس ہوتا ہے کہ شاید فرح نے کہیں میرے اندر ہی گھر کیا ہوا تھا کہ وہ کیفیات ، جذبے ، احساس، نرم گرم ،جو ہر خاتون شاید اپنی فصیلِ ضبط میں بھر کر بیٹھی ہوتی ہے اسکو جیسے زباں مل گئی ہو ۔اپنے اندر سینتے ہوئے جذبات جنھیں ہم کبھی بیان نہ کر سکیں انکا اظہار نہ ہوسکے ۔یوں لگا جیسے میری ہی ذات ہے جو ان صفحوں پر بکھری ہوئی ہے ۔گو کہ میں کوئی باقاعدہ لکھاری نہیں اس لئے کچھ اندازہ بھی نہیں کہ شاعری پر اظہار خیال کروں تو کس طرح ؟ بس یہ میرے اندر کا وہ احساس ہے جو فرح کی شاعری پڑھ کر جاگا۔وہی محسوسات جوں کے توں ،صفحے پر اتار رہی ہوں۔
فصیل ضبط سے جھانکا نہ جائے
انا جھکنے سے کتنا ڈر رہی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معرکے سر وہ کئے ہوش میں جو ہو نہ سکیں
اے جنوں تیرے کمالات سے ڈر لگتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے دل سے گداز ٹپکے گا
میری آنکھوں سے رات رووے گی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم بھٹکتے رہے اے درد تری دنیا میں
اپنے قدموں تلے روندی تری جاگیر بہت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم آٹھ پہر کی گردش سمیت تیرے ہوئے
یہاں بھی تیرے لئے اک طواف زیادہ کیا
۔۔۔۔۔۔۔۔
رکھنے دے اے جنوں مجھے اپنا خیال اب
یہ سر بھی، دل بھی، اور جگر تو سنبھال اب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکی تاثیر مسیحائی گماں سے ہے پرے
جس کے کوچے کی ہوا مجھ کو مکمل کر دے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے بے خودی نے بچا لیا
میں کسی دعا کے اثر میں ہوں
میری آگہی تری دین ہے
میں تری عطا کے اثر میں ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنی کم مائیگی کا احساس بھی ہے لیکن فرح کے دیئے حوصلے کے ساتھ ہی یہ بھی لکھ رہی ہوں کہ ایک شعر جو مجھے حاصل کتاب لگا اور جسکی گردان میں اپنے اندر کی گنگنہاہٹ میں کرتی رہتی ہوں
در در لئے پھرتی ہمیں آوارگیء روح
اے جسم تیری قید کا احسان بہت ہے
اللہ پاک فرح کو صحت تندرستی کے ساتھ اور گویائی عطاء کرے تاکہ وہ ہمارے احساسات کی ترجمانی کرتی رہیں اور اپنی خوبصورت شخصیت کے رنگ، اپنے مخصوص لہجے کی خوشبو میں پرو کر اپنے ہونے کا مضبوط اور حَسین احساس ،مستقبل میں بھی دلاتی رہیں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn