Qalamkar Website Header Image

تو کیا ہوا بچی ہے

یہ سننا کتنا عام سا ہو گیا ہے کہ کسی بچی کی ساتھ زیادتی ہوئی ہے اور پھر بعد میں اسے مار دیا گیا ہے۔ رینالہ خورد کے نواحی چک میں 6 سالہ بچی کو اغواء کرنے کے بعد زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور پھر قتل کردیا گیا۔ کئی دن پہلے سید پور لاہور میں کزنز لڑکوں نے یتیم چچا زاد 8 سالہ بچی کو زیادتی کا نشانہ بنایا ان کی ہوس تو پوری ہوگئی مگر اپنے بچوں کو بچانے کے لئے سگے چچا نے اپنے مرحوم بھائی کی معصوم بیٹی کو زخمی حالت میں پایا تو گلا کاٹ کر قتل کردیا اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے گھر سے دور پھینک دیا کہ کہیں کوئی بھی ثبوت اس ظالم باپ کی بے غیرت اولاد کو جیل نہ پہنچا دے۔ ایسے باپ اپنی اولاد کو شاید جیل جانے سے روک بھی لیں لیکن جب معصوم بچی اللہ سے اپنی تکلیف کا انصاف مانگے گی تو کیسے سماج کے ان درندوں کو ان کا باپ جہنم میں جانے سے روکے گا۔ اس ذات سے کوئی ثبوت مخفی نہیں وہ انصاف کرنے والا ہے۔ آج کل کے ماں باپ اپنے بھتیجے بھانجوں پر کچھ زیادہ ہی اعتبار کرتے ہیں۔

خدارا بیٹیوں کے معاملے میں اپنی آنکھوں سے بھروسے اورمحبت کی پٹی اتار دیں۔ یہاں قدم قدم پر انسانوں کے روپ میں بھیڑیے ہیں۔ جن کے بھوکے نفس کو بس گوشت درکار ہوتا ہے پھر چاہے وہ کسی معصوم پاکیزہ بچی کا ہو، یا کسی مجبور بے بس لڑکی کا اور یہ بھی میسر نہ ہو تو آدم کے معصوم بیٹوں کو اپنی درندگی کا نشانہ بناتے ہیں۔ روز بروز معصوم بچیوں سے زیادتی کے کیس سامنے آرہے ہیں صرف بچیاں ہی نہیں بچے بھی درندوں اور وحشیوں کی ہوس پرستی سے محفوظ نہیں ہیں۔ جس دور میں مردوں کو قبروں سے نکال کر اپنی ہوس پوری کرنے کی نوبت آجائے اس دور کی ماؤں کو جتنا ہوسکے اپنے بچوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھئے:  میٹرولوجی کا عالمی دن 2024: قومی ترقی میں پیمائش کی اہمیت

تربیت ایک ایسی ذمہ داری ہے جس کو بخوبی نبھانے والی کبھی اتنی فارغ نہیں ہوگی کہ بیٹھ کر ٹی وی پر مارننگ شوز دیکھے یا ڈرامے انجوائے کرے۔ آج کل چھوٹی بچیاں زیادہ غیر محفوظ ہیں۔ کئی مائیں بہت آرام سے اپنی بچیوں کو سواد سلف لینے باہر بھیج دیتی ہیں۔اپنی بچیوں کو کسی بھی غیر مرد کسی نامحرم لڑکے کے ساتھ کہیں مت بھیجیں۔ خاص کر بھائیوں کو چاہئیے اگر ان کی چھوٹی بہنیں ہیں تو ان کا خیال رکھیں کہیں آنا جانا ہو اکیلے نہ جانے دیں۔

بیٹیوں کے ساتھ بیٹوں پر بھی توجہ دیں، انٹرنیٹ کے بے جا اور غلط استعمال نے ہماری نسلوں کو برباد کردیا ہے۔ اکثر مائیں سمجھتی ہیں کہ بیٹے آزاد ہوں مسئلہ نہیں جو مائیں ساری پابندیاں بیٹیوں پر لگا کر بیٹوں کو اپنے تربیت کے آنچل سے مستثنیٰ قرار دے دیتی ہیں انہی ماؤں کے بیٹے دوسروں کی بیٹیوں کا آنچل اتار پھینکتے ہیں۔ اگر آپ ماں ہیں، بہن ہیں یا ٹیچر ہیں تو اپنا کردار ادا کریں ہماری بچیوں کو ہماری رہنمائی کی ضرورت ہے۔ انہیں سمجھائیں کہ باہر دوپٹے میں جائیں، اکیلی ہرگز مت جائیں۔ انہیں سمجھائیں کہ فیملی میں موجود چچا زاد ،ماموں زاد، خالہ زاد تمام کزنز کے ساتھ کس طرح رہنا ہے، کیسے بات کرنی ہے بے باکی اور حد سے زیادہ فرینک نیس مسائل کا سبب بن رہی ہے۔ جسم کو جتنا زیادہ چھپا کر باہر نکلا جائے اچھا ہے۔ جس معاشرے میں گوشت خور درندے پائے جاتے ہوں وہاں بچیوں کے لباس پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ کچھ نہیں ہوتا کرتے کرتے بہت کچھ ہوجاتا ہے۔آج کل کی مائیں کسی بھی بات پر کہہ دیتی ہیں کہ” تو کیا ہوا بچی ہے “ بچی آدھی آستینیں پہن کر باہر گھوم رہی ہے۔۔۔۔تو کیا ہوا بچی ہے، دوپٹہ کیوں نہیں لیا ہوا۔۔۔ تو کیا ہوا؟ سر پر کیوں نہیں۔۔۔تو کیا ہوا بچی ہے۔ کزن کے ساتھ بائیک پر بٹھا دیا یا اکیلے کہیں بھیج دیا تو کیا ہوا بچی ہے شادی میں ڈانس کرلیا تو کیا ہوا بچی ہے۔ ایک بات ذہن میں بٹھا لیں کہ مرد لڑکی کی عمر نکاح کرنے کے لئے دیکھتا ہے زنا اور زیادتی کرنے کے لئے نہیں۔ اس لئے اس جملے کو کہیں دفن کردیں کہ” تو کیا ہوا بچی ہے “ کیونکہ تربیت بچی کی ہی کرنی ہے۔ اور تربیت کے لئے اس سوچ کو ختم کرنا لازمی ہے کہ تو کیا ہوا بچی ہے۔

یہ بھی پڑھئے:  الفاظ اب بارود بن کر برستے ہیں - شاہسوار حسین

بچیوں کی اچھی تربیت اور دیکھ بھال کرنے کے ساتھ ساتھ ماؤں کا فرض ہے کہ اپنے بیٹوں کی تربیت پر اس سے بھی زیادہ خصوصی توجہ دیں۔ انہیں اس بات کا احساس دلائیں کہ ماں ، بہن اور بیٹی کی عزت کیسی کرنے ہے۔ اور ماں ، بہن ، بیٹی صرف اپنی ہی نہیں کسی دوسرے کی بھی ہوتی ہے۔ اور ان کا تقدس بھی اتنا ہی ہے جتنا کہ خود ان کی اپنی ماں بہن اور بیٹی کا۔ جہاں "تو کیا ہوا بچی ہے” کہہ دینا کافی نہیں ہے وہاں یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ لڑکوں کی حرکتوں پر بھی "ابھی تو بچہ ہے بڑا ہو کر سمجھ جائے گا” کہہ کر انہیں چھوٹ دینا بھی  اتنا ہی غلط ہے۔

حالیہ بلاگ پوسٹس