Qalamkar Website Header Image

اسٹاک ایکسچینج کے گرتے انڈیکس اور تبدیلی حکومت

جس طرح کسی فلم کی کامیابی کا واحد سیکرٹ انٹرٹینمنٹ’ انٹرٹینمنٹ اورانٹرٹینمنٹ ہے اسی طرح ملکوں کی ترقی کا انڈیکس   ناپنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ قوموں کی ترقی کا راز بھی صرف مضبوط معیشت،مضبوط معیشت اورمضبوط معیشت میں ہے۔

نئے پاکستان کے قیام سے قبل  جو خواب پاکستان تحریک انصاف کی قیادت  نے پاکستان کے عوام کو دکھائے تھے ان تمام خوابوں کامحور پاکستان کے عام آدمی کی معاشی زندگی میں انقلاب برپا کرنا تھا۔عمران خان  اور ان کی ٹیم میں شامل سبھی قائدین فخریہ اعلانات کرتے تھے کہ ان کے اقتدار میں آتے ہی بجلی اور گیس کے بلوں میں عائد اضافی ٹیکسوں کا خاتمہ ہوگا اور ان کےبلوں میں واضح کمی واقع ہو سکے گی۔اسی طرح پیٹرول اور ڈیزل پر 35 سے 40 روپے فی لیٹر کے جو ٹیکسزعائد ہیں انہیں ختم کر کے عوام کو اجیرن کی زندگی سے نجات دلاکر سکھ کی زندگی فراہم کرنے کی بنیاد ڈالی جائے گی۔

ان اضافی ٹیکسوں کے خاتمے سے لوگوں کو پیٹرول اورڈیزل 60 روپے سے 70روپے فی لیٹر پر میسر ہو گا۔اس طرح عوام 70 سالوں میں پہلی بار ایک شاہانہ طرز زندگی کو انجوائے کر سکیں گےجبکہ کچھ ایسے ہی حالات انہیں تعلیم اور صحت کی سہولتیں ریاست کی چھاؤں چھتری تلے بالکل ایسے ہی میسر ہوں گی جیسے ترقی یافتہ ملکوں میں شہریوں کو ریاست فراہم کرتی ہے ۔بلکہ صورتحال اس قدر آئیڈیل ہو گی کہ یورپ اور دنیا کے ترقی پذیر ملکوں سے لوگ نوکریوں کی تلاش میں پاکستان آئیں گے ۔

قارئین !ملکی معیشت میں اس قدر انقلابی تبدیلیوں کی دعویدار حکومت کیا واقعی یہ سب کچھ کر سکی یا ان دعوؤں کے قریب بھی پھٹک سکی تو یقینا اب اس حوالے سے کچھ بھی معاملہ پردے میں نہیں رہا۔ ایسے الٹے سیدھے اعداد وشمار پیش کرنے والے وزیر خزانہ اسد عمر اب وزارت خزانہ سے فارغ ہو چکے ہیں  مگر اس دوران وہ ملکی معیشت کو جس تباہی سے دوچار کر کے جا چکے ہیں اس کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان آٹھ ماہ میں پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ سے ساڑھے 31 کھرب روپے نکل چکے ہیں  ۔ملکی معیشت کی اسی زبوں حالی اور اس میں بہتری کی امید سے متعلق سوال کے ساتھ پاکستان اسٹاک مارکیٹ کے ایک درینہ اور متحرک رکن اور جاوید اقبال سیکیورٹیز کے سی ای او جاوید اقبال سے سوال کیا تو وہ بھی سخت مایوسی میں ڈوبے نظر آئے۔ان کا کہنا تھا کہ انہیں تو اسٹاک مارکیٹ میں بہتری کی ایک فیصد بھی امید نہیں ۔بلکہ انہوں نے تو اب اس بارے میں سوچنا بھی بند کر دیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ وہ 1970 سے لاہور کی اسٹاک مارکیٹ کے ساتھ منسلک ہیں مگر ایسے درگوں حالات تو کبھی بدترین مارشل لاء کے دور میں نہیں ہوئے بلکہ 2008 میں جب بے نظیر بھٹو کی شہادت پر مارکیٹ میں بریکر لگے تب بھی ایسی صورت نہ تھی۔

یہ بھی پڑھئے:  معاف کر دیا کرو
جاوید اقبال سیکیورٹیز کے سی ای او اور اسٹاک مارکیٹ کے ایک پرانے کارکن جاوید اقبال

مگر آج تو لگتا ہے کہ جیسے مارکیٹ میں کرفیو لگا ہوا ہے۔اب تو مارکیٹ میں سرمایہ لگانے والے ہی کیا بلکہ خود سٹاک مارکیٹ کے لوگ بھی کنگال ہو گئے ہیں سب رل گئے ہیں ۔ان کا کہنا تھا کہ پانامہ سیکنڈل سے قبل پاکستان اسٹاک مارکیٹ 54ہزار انڈیکس  پر کھڑی تھی۔پھر اس سیکنڈل کے آنے اور نواز شریف کی سپریم کورٹ سے سزا ہونے تک مارکیٹ میں 6 ہزار انڈیکس کمی آ چکی تھی جبکہ یہ مارکیٹ عمران خان حکومت کو اقتدار کی منتقلی تک 48ہزار انڈیکس  پوائنٹ پرکھڑی تھی ۔مگر اب یہ مارکیٹ 36 ہزار انڈیکس  کے اردگرد گھوم رہی ہے اس طرح پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں تقریبا 12 ہزار انڈیکس  کی واضح کمی آچکی ہے ۔جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ ایک انڈیکس  24 کروڑروپے کا ہے ۔اس حساب سے اگر مارکیٹ سے سرمایہ کے انخلا کا جائزہ لیا جائے تو یہ تقریبا 31 کھرب روپے سے زائد بنتے ہیں۔اسٹاک مارکیٹ میں بہتری کی امید سے متعلق سوال  انہوں نے سخت مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پہلے نو ماہ کی کارکردگی سے تو یہی لگتا ہے کہ عمران خان کے پاس نہ تو کوئی معاشی وژن ہے اور نہ ہی کوئی اچھی ٹیم ہے ۔یہ بس ہوا میں تلواریں چلا رہے ہیں ۔

اس دور میں ملک معاشی طور پرلولا لنگڑا ہو چکا ہے سرمایہ دار سمیت ہر طبقہ اس حکومت کو بددعائیں دے رہاہے ۔ان کا کہنا تھا کہ آپ محض کرپشن کا شور مچا کر یا اسحاق ڈار کے بارے میں یہ پروپیگنڈا کر کے لوگوں کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونک سکتے۔ لوگ سوال کرتے ہیں اگر اسحاق ڈار جعلی یا مصنوعی طریقے سے روپے کی قمیت میں ڈالر کے مقابلے میں استحکام لا سکتے ہیں تو اس حکومت کو کس نےروک رکھاہے ۔ڈالر کے مہنگا ہونے سے مہنگائی میں بھی اضافہ ہوا ہے جبکہ قرضوں کا بوجھ بھی بڑا ہے ۔انہوں نے اسحاق ڈار کو بہترین وزیر خزانہ قرار دیا ۔سابق حکومتوں منی لانڈرنگ ،قرضوں سے متعلق سول پر ان کا کہنا تھا کہ سب ہوائی سیاسی باتیں ہیں ۔حقیقت سے ان کا کوئی تعلق نہیں ۔

یہ بھی پڑھئے:  معقول یا مقبول سیاست

سب کو پتہ ہے 1992 میں ایف بی آر کی پالیسی کے تحت دنیا بھر سے سرمایہ داروں پاکستان اسٹیٹ بینک کے پاس روپے کے بدلے ڈالر رکھنے کی پالیسی کے باعث دنیا بھر سے سرمایہ داروں نے پاکستان میں پیسہ بجھوایا تھا۔اب اسی پالیسی کے تحت بجھوائی گئی رقوم کو منی لانڈرنگ کا نام دیا جا رہے ۔سب کو پتہ ہے کہ ان کیسوں میں کچھ نہیں ماسوائے میڈیا ٹرائل کے۔ مگر اس میڈیا ٹرائل نے پاکستان کی معیشت کا بھٹہ بٹھا دیا ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ دنیا کے بڑے سے بڑے ملک کی معیشت قرضوں پر چلتی ہے مگر اس کے ساتھ ان ملکوں میں سرمایہ لگانے والوں کااعتماد متزلزل نہیں ہوتا لیکن بد قسمتی سے پاکستان میں سرمایہ دار احکومت پاکستان پراعتماد کرنے کو تیار نہیں جس کا نتیجہ اسٹاک مارکیٹ میں دن بدن مندی ہے۔ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ایمنسٹی اسکیم بھی سرمایہ داروں کے اعتماد کو بحال نہیں سکتی ۔موجودہ دور حکومت میں بہتری کی امید ناممکن نہیں تو مشکل ترین ضرور ہے۔

حالیہ بلاگ پوسٹس