Qalamkar Website Header Image

مساجد، بچے اور ہمارا بچپن | قمرعباس اعوان

ہمارے بچپن کی بات ہے کہ مساجد کی تعداد بہت کم ہوا کرتی تھی۔  ہر علاقے میں ایک یا دو مساجد ہوا کرتی تھیں۔ نماز کے وقت اور خصوصاََ جمعہ کے روز کافی بڑی تعداد مسجد میں موجود ہوا کرتی تھی۔ تب یہ فرقہ وارانہ بنیادوں پر مساجد کا رجحان بھی شائد بہت کم تھا یا ہمیں اپنے بچپن کی وجہ سے اس بات کا ادراک نہیں ہوتا تھا۔ اگر ایسا رجحان تھا بھی تو اتنی شدت پسندی کبھی نہ دیکھی تھی۔ والدہ محترمہ اذانِ فجر کے بعد بستر سے زبردستی اٹھاتیں تاکہ بچے مسجد جائیں۔ نماز کے بعد پیش نماز صاحب مسجد میں آنے والے تمام بچوں کو سپارہ پڑھاتے تھے۔مجھ سمیت اکثر بچوں کا پہلا سکول یہی مسجد ہی ہوتا تھا۔یہ سپارہ پڑھنے والے بچوں کی اکثریت کی عمریں پانچ سال کے قریب قریب ہوتی تھیں۔ یہی سپارہ پڑھنے کی کلاس دوبارہ نمازِ عصر کے بعد ہوتی تھی۔ فجر اور عصر کی نماز کے بعد سپارہ پڑھنے کی کلاس تو تھی ہی مولوی صاحب باقی تین نمازوں میں بھی چیک کرتے تھے کہ کون سا بچہ مسجد آیا ہے اور کون نہیں آیا اور پھر اس پر پوچھ گچھ بھی ہوتی تھی۔اور کبھی تو نامعقول بہانے پر ہلکی پھلکی پٹائی بھی ہو جاتی تھی۔ اکثر تو ایسا بھی ہوتا کہ کوئی بچہ اگر دو وقت مسلسل سپارہ پڑھنے مولوی صاحب کے پاس نہیں پہنچا تو  وہ مسجد سے ذرا سیانی عمر کے دو بچے اس نہ آنے والے بچے کے گھر بھی روانہ کرتے کہ پتہ کر کے آؤ کہ مسجد کیوں نہیں آ رہا۔

یہ ساری یادیں مجھے اس لئے آئیں کہ کچھ دن قبل ایک قریبی دوست کی ایک مختصر سی تحریر واٹس ایپ پر موصول ہوئی۔ جس میں شروع میں تو اس نے اپنے دونوں بیٹوں کے ساتھ نمازِ جمعہ ادا کرنے سے حاصل ہونے والی مسرت کا ذکر کیا اور اس کے بعد مولوی صاحب کی طرف سے کیا گیا ایک اعلان بھی لکھ دیا کہ جو نمازی کم عمر بچوں کو مسجد میں لاتے ہیں  ان کی وجہ سے مسجد کا تقدس پامال ہوتا ہے اوران کی آوازوں  کی وجہ سے نمازیوں کی نماز مکروہ ہوتی ہے اور ساتھ ہی ایسے والدین کے لئے ہدایت کی دعا بھی کر دی کہ اللہ ایسے والدین کو ہدایت دے کہ وہ بچوں کو مساجد میں لانے سے پرہیز کریں۔  یہ پوسٹ مجھے ماضی میں اپنے بچپن کی یادوں میں لے گئی۔ تب کچھ مصروفیات کے سبب اس پر بات نہیں کر پایا۔ آج صبح دوبارہ اسی دوست  کا ایک واٹس ایپ موصول ہوا۔  جس میں ایک طرف تو اس نے کچھ احباب کے اس موضوع پر بات نہ کرنے پر شکوہ کیا اور وہاں ہی اسی مسجد میں دوبارہ  کسی صاحب کا واقعہ درج کیا جس میں وہ اپنے بچوں کے ساتھ مسجد میں تشریف لائے اور مسجد انتظامیہ کی طرف سے ان کے ساتھ جھگڑا کیا گیا۔

یہ بھی پڑھئے:  ہمارا فرسودہ تعلیمی نصاب اور جدید دور کے تقاضے

آج صبح بیگم نے ٹی وی آن کیا تو ایک چینل پر مولانا طارق جمیل کا بیان چل رہا تھا۔ اور بات ہو رہی تھی بچوں کے بارے میں۔ وہ حاضرین کو نبی پاک ﷺ کی بچوں سے محبت بتا رہے تھے۔ اور بتاتے ہوئے انہوں نے ذکر کیا کہ امام حسن ؑ نماز کے دوران نبی پاکﷺ کی ٹانگوں کے درمیان سے گزر جاتے اور کبھی امام حسین ؑ دورانِ سجدہ پشتِ نبوت ﷺ پر چڑھ جاتے۔ نہ کبھی رسول پاکﷺ نے ان کو اس حرکت سے منع کیا نہ ان کو مسجد میں آنے سے روکا۔ دوست کے دونوں واٹس ایپ میسجز پڑھ کر  مجھے  ان مولوی صاحب پر حیرت ہوئی کہ جہاں بچوں کی بات ہوتی ہے نبی پاکﷺ کے قصے سناتے ہیں۔ اور بتاتے ہیں کہ حسینؑ پشتِ رسول ﷺ پر تھے اور نبی پاک ﷺ نے سجدے کو طول دے دیا۔ اور دوسری طرف خود بچوں کو مساجد میں آنےسے منع کرتے ہیں۔ ایسے مولوی صاحبان کی ایسی ہی حرکتیں ہیں جو آنے والی نسل کو نماز سے دور کر رہی ہے۔ اور پھر یہی مولوی صاحبان اور پہلی صف میں نماز پڑھنے والے بزرگ نمازی کہہ رہے ہوتے ہیں کہ آج کی نسل مسجد کا رخ نہیں کرتی۔

یہ بھی پڑھئے:  کیموفلاج تکفیری فاشزم میں اعتدال پسندی کی تلاش - تیسرا حصہ

ضرورت اس امر کی ہے کہ مولوی صاحبان اور مساجد کی انتظامیہ مساجد کو مساجد ہی رہنے دیں انہیں ڈائنگ روم نہ بنائیں جہاں صرف ان کے من پسند لوگ ہی داخل ہوں۔ بچے مساجد میں آئیں گے تو ہی اگلی نسل نمازوں کے لئے مساجد کا رخ کرے گی۔ ورنہ گلی گلی میں بنی مساجد میں چند گنے چنے نمازی کچھ عرصہ بعد بالکل ہی غائب ہو جائیں گے۔

حالیہ بلاگ پوسٹس