Qalamkar Website Header Image

فروٹ بائیکاٹ مہم اور پھل فروشوں کے لئے پریشان دوست | قمر عباس اعوان

کل واٹس ایپ پر ایک دوست کا میسج ملا۔ اور آج سوشل میڈیا پر بھی یہی مہم ہر طرف نظر آئی۔ ایک اکثریت جہاں اس بائیکاٹ مہم کی حامی نظر آئی وہاں اس کے مخالفین بھی نظر آئے۔ کچھ لوگ شائد زمینی حقائق سے پوری طرح واقف ہوئے بنا ہی جذبات کی لاٹھی سے سب کو ہانکنا شروع کر دیتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اکثر ریڑھی فروش یہاں فیس بک پر موجود بہت سے دانشوروں سے بھی زیادہ کماتے ہیں۔ جس کو یقین نہ ہو میرے ساتھ رابطہ کر لے میں ٹھیلے والوں ، چھوٹے چھوٹے سٹال والوں سے ملوا سکتا ہوں۔ اور یہ بھی ڈرامہ ہے کہ وہ صرف تھوڑا سا منافع کما رہے ہوتے ہیں۔ ابھی قریب ڈیڑھ ماہ قبل کی بات ہے۔ شاہ جی اور میں ایک جگہ جا رہے تھے۔ راستے میں ایک فروٹ والے سے پھل لینے کا پروگرام بنا۔ بہت بڑا سیٹ اپ نہیں تھا اس دکاندار کا ۔ ایک ریڑھی جس پر چار پانچ قسم کے پھل رکھے تھے۔ ریٹ پوچھے تو حیرت ہوئی کہ مہنگائی اتنی زیادہ ہو گئی ہے؟ خیر ہم نے پھل لیے۔ اچانک اس کی ریڑھی پر پڑی ریٹ لسٹ جو اس نے تہہ کر کے ایک خربوزے کے نیچے رکھی ہوئی تھی، میں نے اٹھائی۔ اب جو میں نے اس کے مانگے گئے ریٹس کا موازنہ اس لسٹ سے کیا تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔ جو ریٹس اس نے ہم سے لئے وہ اس لسٹ سے کم از کم تین گنا تھے۔ میں نے اس سے کہا بھی کہ یار ریٹ لسٹ کچھ اور کہہ رہی ہے اور تم اتنا مہنگا پھل دے رہے ہو۔ اس نے جواب دیا سر جی اب کیا کیا خرچے بتائیں آپ کو۔ غالباََ اس کا اشارہ ان سرکاری اداروں کے ملازمین کی طرف تھا جو اس سے بھتہ وصول کرتے ہوں گے (اس بات میں حقیقت بھی ہے کہ ایسا ہوتا ہے۔ اور پچھلے ہی رمضان کی بات ہے کہ ایک دوست نے مجھے باقاعدہ پھل خریدنے کے بعد کال کر کے لاہور کے ایک علاقے میں پھل فروشوں کی یہ بات بتائی۔ جن پھل فروشوں نے میرے دوست کو ان ملازمین کی طرف سے ملنے والی پرچیاں تک دکھائیں)۔ لیکن آپ اندازہ کریں کہ پھر بھی تین گنا قیمت پر پھل بیچنے والا کس قدر کماتا ہو گا۔ اگر مزید تسلی کرنا ہو تو کسی بھی چوک میں جائیں اور کسی ریڑھی والے سے پھل کا ریٹ پوچھ لیں۔ پھر تھوڑا ہٹ کر کسی ایسی جگہ پر کھڑی ریڑھی والے سے ریٹ پوچھ لیں جو رش والے علاقے میں نہیں کھڑا۔ آپ کو خود اندازہ ہو جائے گا کہ ریٹ میں کس قدر منافع کمایا جا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھئے:  پاکستانی فوج کا نکتہ نظر: بنگالی دانشوروں کا قتل

رہی بات اس مہم کی تو جناب عالی گزارش ہے کہ اس بائیکاٹ کے نتیجے میں جس ریڑھی فروش کی دیہاڑی کی فکر آپ کر رہے ہیں وہ مسکین تو تھوڑا سا پھل لے کر جس علاقے میں گھوم پھر کر بیچ رہا ہوتا ہے اس علاقے والے فیس بک جیسی عیاشی سے کوسوں دوررہتے ہیں۔ اس لئے ان تک تو آپ کی بائیکاٹ مہم کا اثر بھی نہیں پہنچنے والا۔ اگر ان تک یہ مہم پہنچ بھی گئی تو دانشوروں کے اس چونچلے کو وہ اہمیت دینے والے نہیں۔ لہذا اے سی والے کمرے میں بیٹھ کر بیس تیس ہزار کی نوکری کرتے ہوئے اس ریڑھی والے اکثریتی طبقے کے لئے پریشان نہ ہوں جو آپ کی اس سیلری سے دوگنا ایک مہینے میں کما بھی رہا ہے اور اچھے سے گزارہ بھی کر رہا ہے۔

حالیہ بلاگ پوسٹس