ابھی سوا سال پہلے کی بات ہے کہ اچانک مجھ پر کچھ نہ کچھ لکھنے کا بھوت سوار ہوا۔ وہ بھی یوں کہ کچھ دوست بلاوجہ ہی مجھے شہہ دیتے رہتے تھے کہ تم لکھا کرو اچھا لکھ سکتے ہو۔ میں ان کی بات ہنسی میں ٹال دیا کرتا تھا لیکن نجانے ایک دن کیسے ان کی باتوں میں آگیا۔ تحریر لکھی اور ایک روزنامے کو بھیج دی۔ ساتھ ہی محترم علی سجاد شاہ کو بھی بھیجی کہ اپنی ویب سائٹ چٹکی ڈاٹ پی کے پر لگا دیں۔علی بھائی شائد اس وقت فارغ تھے کہ انہوں نے فوراََ ہی چھاپ ڈالی۔ اگلے روز اخبار میں بھی نظر آ گئی۔ مجھے تھوڑا حوصلہ ہوا۔ اور پھر وقتاََ فوقتاََ لکھنے لگ گیا۔ میرے کولیگ کاشف نے ایک دن مجھے مشورہ دیا کہ قمر ایسا کرو تحریر تو جہاں چھپ رہی ہے ٹھیک ہے لیکن اپنا ایک ذاتی بلاگ بھی بنا ڈالو۔ اپنی تحریریں وہاں بھی لگایا کرو۔ میں نے تب بھی ٹال مٹول سے کام لیا۔ 3 4 ماہ میں ہی مجھے اندازہ ہوا کہ یہاں ہر لکھنے والے کو سو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیفٹ اور رائٹ کا بھی چکر ہے۔ پسند و ناپسند کے ساتھ ساتھ آپ کی جنس بھی آپ کی تحریر چھپنے یا نہ چھپنے کے تعین کرنے کا حصہ ہو جاتی ہے۔ تنقید اگر کر دیں تو اس کے چھپنے کے امکانات بھی انتہائی کم ہو جاتے ہیں۔ میں نے سوچا کہ میری طرح اور بھی لکھنے والے یقیناََ ان مسائل کا شکار ہوتے ہوں گے۔ کم اردو بلاگز کی وجہ سے بہت سارے اپنی بات کسی ویب سائٹ پر چھپوانے میں دقت محسوس کرتے ہوں گے۔ تب مجھے کاشف کی بات یاد آئی کہ اپنا بلاگ بناؤ۔ میں نے اس مشورے میں تھوڑی سی ترمیم کر ڈالی۔ اور بجائے اپنا ذاتی بلاگ بنانے کے اپنے جیسے طالب علموں کو ایک پلیٹ فارم دینے کے لئے ایک ویب سائٹ بنانے کا ارادہ کیا۔ اپنا یہ خیال میں نے نوجوان قلم کار رضوان ظفر گورمانی کو بتایا۔ رضوان گورمانی نے بھی ساتھ دینے کی حامی بھر لی۔ کیونکہ ویب سائٹ چلانا اکیلے بندے کے بس کی تو بات نہیں۔ رضوان گورمانی سے صدیف گیلانی تک بات پہنچی اور ادھر میں نے عامر راہداری کو ساتھ جوڑا۔ ہم چار لوگوں نے پلاننگ اور ورکنگ شروع کر دی۔ کچھ مزید دوستوں سے مشورے کئے۔ سوائے ایک دو کے سب نے نہ صرف حوصلہ افزائی کی بلکہ بھرپور تعاون اور ساتھ دینے کی یقین دہانی بھی کروائی۔
ذیشان نقوی، ام رباب ،ڈاکٹر زری اشرف، علی سجاد شاہ، آمنہ احسن، ثناء بتول، مزاح نگار تنویر احمد، مزاح نگار زاہد شجاع بٹ، توقیر ساجد،شاہد کاظمی سمیت درجنوں احباب نے بہت حوصلہ افزائی کی۔ علی سجاد شاہ سے کچھ مفید مشورے بھی ملے۔ دو بار ہمیں بہترین قسم کے لوگو بنا کر دینے کے لئے شاہد اسد اعوان کا بھی خصوصی شکریہ۔ اس کے علاوہ ہمارے ویب ڈویلپر اورنگزیب اعوان بھی خصوصی شکریہ کے مستحق ہیں جنہوں نے تین بار ویب سائٹ کا "لے آؤٹ” تبدیل کر کے اسے مزید جاذبِ نظر اور خوبصورت بنا دیا۔
انتہائی محترم بڑے بھائی ، استاد مرشدی حیدر جاوید سید کے کردار کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ انتہائی مصروفیات کے باوجود انہوں نے نہ صرف قلم کار کو بطور ایڈیٹر وقت دیا بلکہ ہر معاملے میں ایک شفیق استاد اور ایک بڑے بھائی کے طور پر راہنمائی بھی کی اور جہاں جہاں ضرورت پڑی مدد بھی۔ ان سے جب بھی کسی موضوع پر لکھنے کو درخواست کی انہوں نے چھوٹا بھائی سمجھتے ہوئے کبھی انکار نہ کیا۔ حتیٰ کہ ہمارے ہی پرزور اصرار پر اپنی آب بیتی "زندان کی چیخ” صرف قلم کار کے لئے لکھنا شروع کی۔ "زندان کی چیخ ” آپ لوگ بہت جلد قلم کار کے ہی پلیٹ فارم سے کتابی شکل میں دیکھ سکیں گے۔ عامر حسینی بھائی جیسے صاحبِ مطالعہ شخص کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ انہوں نے قلم کار کو خصوصی وقت دیا۔ گو کہ انہوں نے شروع میں ہمیں بطور ایڈیٹر مرشد حیدر جاوید سید کو راضی کر کے کام کرنے کا مشورہ دے کر اپنا دامن بچانا چاہا لیکن اس کے باوجود ہم نے نہ تو ان کا دامن چھوڑا نہ انہیں قلم کار کا دامن چھوڑنے دیا۔ عامر حسینی نے اپنے قلم سے ان حساس موضوعات پر بھی کھل کر لکھا جن پر لکھتے ہوئے بڑے بڑے دانشوروں کو دانتوں تلے پسینہ آ جاتا ہے۔ چاہے وہ بلوچوں کی جبری گمشدگی ہو یا سلمان حیدر ، وقاص گورائیہ وغیرہ کی ریاستی اداروں کے ہاتھوں اغواء جیسی واردات ہو۔
صدیف گیلانی اور رضوان گورمانی ہماری ابتدائی ٹیم کا حصہ تھے۔ لیکن کچھ عرصہ بعد اپنی نجی مصروفیات کی بنا پر دونوں ہمارے پلیٹ فارم کو وقت نہ دے سکے۔ اور ہمیں ان کی جدائی برداشت کرنا پڑی۔ اسی عرصے میں میری طبیعت اچانک کافی زیادہ خراب ہوئی اور قلم کار کا کام تقریباََ رک گیا۔ اور ایسا رکا کہ "کچھ لوگ” تو یہ سمجھ بیٹھے کہ قلم کار والے بھاگ گئے ہیں میدان سے۔ لیکن ہمارا حوصلہ جوان تھا اور ہم معاملات ٹھیک ہوتے ہی دوبارہ پورے قد سے میدان میں آ کھڑے ہوئے۔ صحت کی بحالی کے بعد دوبارہ قلم کار کو ایکٹیو کرنے کے لئے ٹیم کی کمی شدت سے محسوس ہو رہی تھی۔ اس موقع پر ہماری ادارتی ٹیم کی رکن محترمہ حمیرا جبیں نے بہت ساتھ دیا۔ اپنی نجی مصروفیات کے باوجود انہوں نے قلم کار کے لئے بہت محنت کی۔ اسی عرصہ میں میں نے ذاتی طور پر محترمہ ام رباب اور بہت شفیق بہن فرح رضوی سے درخواست کی کہ وہ ہماری ادارتی ٹیم کا حصہ بنیں۔ انہوں نے میری درخواست کو قبول کرتے ہوئے ہماری ادارتی ٹیم کا حصہ بن کر قلم کار کے لئے آنے والے تمام مضامین کی نہ صرف ایڈیٹنگ کی بلکہ اپنے مفید مشوروں سے قلم کار کی بہتری میں اہم کردار ادا کیا۔ اس موقع پر مدیحہ حسن کا تذکرہ بھی ضروری ہے جو ہماری ٹیم کا ایک اہم حصہ ہیں۔ اور قلم کار ویب سائٹ کی ایڈمن ٹیم میں ہیں۔ بلاشبہ ان کی موجودگی کی وجہ سے مجھے اپنے کندھوں کا بوجھ بہت ہلکا محسوس ہوتا ہے۔ محترم برادر نور درویش ہماری ٹیم کا حصہ ہیں۔ جب بھی ان کی ضرورت پڑی انہوں نے حسبِ استطاعت قلم کار کو بھرپور وقت دیا۔ نور درویش بھائی سے بنا ملے اتنا خلوص اتنی چاہت ملی کہ میں ان کی اس چاہت کا مقروض ہوں ۔ وقاص اعوان اور شہسوار حسین بھی ہماری ٹیم کا حصہ اس وقت بنے جب ہم نے فیس بک پر اپنا پبلک گروپ بنایا۔ ان دوستوں کی وجہ سے ہمیں بہت سے معاملات میں آسانیاں ہوئیں۔
قلم کار شروع کرتے ہوئے ہم نے جس کامیابی کا خواب دیکھا تھا ہمیں اس سے بہت زیادہ کامیابی حاصل ہوئی۔ ہماری ویب سائٹ کسی سے لڑائی یا فکری اختلاف کے نتیجے میں وجود میں نہیں آئی تھی اس لئے ہمارا کسی کے ساتھ مقابلہ بھی نہیں تھا ۔ کچھ دوست اکثر کہتے ہیں کہ آپ کی ویب سائٹ پرانی ہے لیکن درجہ بندی میں کافی بعد میں آنے والی ویب سائٹس آپ سے کافی آگے ہیں۔ ان کو ہمیشہ ایک ہی جواب دیا کہ ہم کسی سے مقابلے بازی کر ہی نہیں رہے۔ ہم اپنا کام کر رہے ہیں۔ اور اللہ کا شکرہے کہ ہمارے کام کو پسند کرنے والے بہت سے لوگ ہیں جو ریگولر ہماری ویب سائٹ پر چھپنے والے مضامین کو پڑھتے ہیں۔ اگرہمارا مقصد بھی "الیکسا” کی رینکنگ میں روز بروز ترقی کرنا ہو تو ہم بھی روزانہ ایک دو چٹ پٹے مضمون چھاپ کر چند ہی دنوں میں یہ "گول” حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن ایسا کام نہ ہمارے مزاج کے مطابق ہے نہ ہماری خواہش اور نہ ہی ضرورت۔ کچھ دوستوں کا یہ گلہ ہوتا ہے کہ ہمارا مضمون نہیں شائع کیا۔یا مضمون دیر سے لگایا گیا۔ان سب دوستوں سے عرض ہے کہ ہماری ویب سائٹ پر مضامین ادارتی ٹیم کی اپروول کے بعد لگتے ہیں۔ جس سے کسی کو استثناء نہیں ہے۔ حتیٰ کہ ادارتی ٹیم کی لکھی گئی تحریر بھی اسی عمل سے گزر کر ویب سائٹ تک پہنچتی ہے۔
اپنے اپنے سالگرہ کے مضامین میں گوکہ میری ساری ٹیم نے قلم کار کی کامیابی میں اہم حصہ میرے ذمے ڈالنے کی بھرپور کوشش کی ہے لیکن مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ قلم کار کی اس کامیابی میں مجھ سے زیادہ قلم کار کے باقی ٹیم ممبران کی انتھک محنت، خلوص اور لگن شامل ہے۔ جس کامیابی کا سہرا میرے سر باندھنے کی کوشش کر رہے ہیں حقیقت یہ ہے کہ وہ ساری کی ساری کامیابی انہیں لوگوں کی مرہونِ منت ہے۔ ان سب کی محنت، لگن اور خلوص شامل نہ ہوتا تو یقیناََ قلم کار کو اس مقام تک نہ لے جا سکتا۔ آج قلم کار جس مقام پر ہے یہ ساری محنت کروانے میں حیدر بھائی سے لے کر مدیحہ سید تک سب کا بھرپور ہاتھ ہے۔ اکثر میری کسی کوتاہی پر میری ٹیم ہی مجھے سپورٹ کرتی ہے اور حوصلہ بڑھاتی ہے۔ جس پر میں سب کا انتہائی شکر گزار ہوں۔
ایک بات جس کا ذکر حیدر بھائی نے اپنے مضمون میں کیا کہ قلم کار پر شیعہ ازم کی سپورٹ کرنے اور قلم کار پر شیعہ رنگ کے غالب ہونے کی بات کی جاتی ہے۔ اس بات کی وضاحت بھی گو کہ انہوں نے کی ہے لیکن میں یہاں بتاتا چلوں کہ ہماری ٹیم میں شامل اکثریت صوفی سنی خاندانوں کا پسِ منظر رکھتی ہے۔ حیدر بھائی کا خاندان صوفی سنی ہے۔ عامر حسینی بھی صوفی سنی خاندان کے چشم و چراغ ہیں۔ ہم نے ہمیشہ ظالم کے خلاف مظلوم کی حمایت کو مدنظر رکھنے کی کوشش کی ہے۔حیدر بھائی اور عامر بھائی دونوں کو لوگ سوشل میڈیا پر شیعہ نمائندگان تصور کرتے ہیں۔ لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ صوفی سنی پسِ منظر رکھنے کی وجہ سے گو کہ ان کا فطری جھکاؤ مکتبِ امامیہ کی طرف ہوتا ہے لیکن انہوں نے کبھی بھی میرٹ سے ہٹ کر حمایت نہیں کی۔
حرفِ آخر کے طور پر عرض کرتا چلوں کہ ہمیں پرواہ نہیں کہ باقی دنیا کیا چھاپ رہی ہے اور کس بنیاد پر مشہور ہونا چاہ رہی ہے۔ ہم اپنا کام اپنے مطابق کئے جا رہے ہیں۔ ہمارے لکھنے والے ہمارا اثاثہ ہیں۔ لیکن ان پر ہماری طرف سے کوئی پابندی نہیں کہ آپ قلم کار کے علاوہ کہیں نہیں لکھ سکتے ۔ قلم کار کے پلیٹ فارم سے بہت سے ایسے لکھنے والے بھی سامنے آئے جو آج بہت ساری جگہوں پر بہت اچھا لکھ رہے ہیں۔ ہمارا قلم کار آزاد ہے جہاں لکھنا چاہے لکھ سکتا ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ یہ پیغام ان حاسدین کے لئے بھی کہ ہم آپ کے دل میں کانٹے کی طرح جتنے مرضی کھٹکتے ہوں آپ کی آہ و زاریاں جتنی بھی ہوں ہم اپنا کام کرتے رہیں گے۔ آپ کے منہ سے ہمیں اپنے لئے تعریف کی چنداں ضرورت نہیں۔ ہمارا اثاثہ ہمارے وہ قارئین اور قلم کار ہیں جو ہمارے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور ہم پر اعتماد کر رہے ہیں۔
آخر میں قلم کار کی سالگرہ کی مبارکباد قلم کار کی پوری ٹیم کو اور بالخصوص ہمارے قارئین اور قلم کاروں کو مبارک ہو کیونکہ قلم کارصرف ہم سب کا نہیں آپ سب کا پلیٹ فارم ہے۔
پیشے کے لحاظ سے اکاؤنٹنٹ ہیں۔ لکھنے کا شوق ہے ۔ دوستی کرنا ان کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ سوشل ویب سائٹس سے کافی اچھے دوست بنائے جنہیں اپنی زندگی کا سرمایہ کہتے ہیں۔ قلم کار ان کا خواب ہے اور اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے انہوں نےبہت محنت کی ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn