گھر سے آفس کے لئے نکلا۔ گزشتہ شب لاہور مال روڈ پر چیئرنگ کراس پر ہونے والے اندوہناک واقعہ کی وجہ سے دل بہت اداس تھا۔ گھر سے کوئی دو کلومیٹر کے فاصلے سے پنجاب یونیورسٹی کی حدود کا آغاز ہو جاتا ہے۔ ٹریفک کے اشارے پر رکا تو دفعتاََ پنجاب یونیورسٹی کی دیوار کی طرف نگاہ گئی۔ وہاں اسلامی جمعیت طلبہ کی طرف سے حیاء ڈے کا کیمپ لگا نظر آیا جس میں کوئی 6 7 لڑکے بیٹھے ہوئے تھے۔کیمپ کے باہر اور روڈ پر بھی بینرز لگا کر گزرنے والوں کو حیا کا درس دیا جا رہا تھا۔
اتنے میں ٹریفک کا اشارہ کھل گیا اور میں آگے چل دیا۔ حیرت ہو رہی تھی جمیعت والوں کی اس سرگرمی پر۔ تھوڑی ہی دیر میں بھیکے وال موڑ پر پہنچا تو وہاں نہ صرف جمیعت والوں کا کیمپ موجود تھا بلکہ یہاں باقاعدہ بڑے بڑے سپیکرز لگا کر ترانے بھی بجائے جا رہے تھے جو کہ ایمپلی فائر ایکٹ کے منہ پر ایک زور دار تماچہ تھے( اسی چوک میں ایک ٹریفک وارڈن بھی ڈیوٹی پر موجود تھا اور تھانہ بھی کچھ زیادہ دوری پر نہیں ہے۔ لیکن جمعیت کے متوالے سرِ عام قانون کی دھجیاں اڑا رہے تھے) اور قوم کو حیا کا درس دیتے بینرز بھی سڑک پر چاروں طرف آویزاں تھے۔
میرا ذہن فوراََ ہی رات والے سانحے کی طرف چلا گیا جس پر ہر درد دل رکھنے والا انسان دکھی تھا۔ پھر اس کے بعد اگلی ہی صبح جمیعت کے طلبہ کی اس سرگرمی پر حیرت میں گم ہو گیا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ جمیعت والے کیمپ لگاتے اور حیا کے درس دیتے بینرز کے ساتھ ساتھ رات کے واقعہ میں ملوث جماعت احرار کی مذمت بھی کرتے جس نے اس واقعہ کو کسی بیرونی ہاتھ کی سازش ثابت ہونے سے قبل ہی بہت ڈھڑلے سے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر اس واقعہ کی ذمہ داری قبول کر لی۔ ل
یکن پھر مجھے اپنے خیالات پر خود ہی شرمندہ ہونا پڑا۔ جماعت اسلامی کی پرورش کردہ جمیعت سے اس امر کی امید رکھنا میری بیوقوفی کے سوا کیا ہو سکتا ہے کہ وہ ان دہشت گردوں کی ان کارروائیوں کی مذمت کریں جس نے پاکستان میں بسنے والے 80،000 بے گناہ پاکستانیوں کو تکفیریت کی بھینٹ چڑھا دیا۔ وہی جماعت اسلامی جس کے نزدیک 80,000 پاکستانیوں کے قاتل شہید ٹھہریں اور ان کے مقابل لڑنے والے فوجی جہنمی تو کیونکر اس کے طلبہ رہنماؤں سے اس بات کی امید کی جا سکتی ہے کہ وہ ان دہشت گردوں کی مذمت کریں۔
نہ صرف جمیعت اس کے علاوہ بھی سوشل میڈیا کے مجاہدین کی ایک بڑی کھیپ بڑے زور و شور سے ویلنٹائن ڈے کے مقابل حیا ڈے کی ترویج میں مصروف رہی۔جبکہ حقیقت یہ بھی ہے کہ ان کی اکثریت کو ویلنٹائن ڈے کی تاریخ کی سچائی کا بھی نہیں پتہ ہو گا۔ لاریب کہ ویلنٹائن ڈے ہماری ثقافت اور ہمارے خطے کا تہوار نہیں ہے لیکن کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کسی کو اظہارِ محبت سے روک دیں؟
فروری کا آغاز ہوتے ہی ویلنٹائن ڈے کو بے حیائی ، بے راہ روی ، اسلامی اقدار کے منافی ایک انگریز کا تہوار ثابت کرنے پر بے تحاشہ قوت صرف کی جاتی ہے۔ ان کی اکثریت وہی لوگ ہیں جنہیں کسے کو محبت دینے سے تو تکلیف ہے، کسی کو سرخ گلاب دینے پر تو ان کا قلب جل اٹھتا ہے لیکن کسی جیتے جاگتے انسان کو سرخ لہو میں نہلا دینے پر ان کی غیرت حیا اور اسلامی اقدار گھاس چرنے نکل جاتی ہیں۔ ان کو ویلنٹائن ڈے کے سرخ گلاب سے تو نفرت ہے لیکن اسی ویلنٹائن ڈے سے ایک رات قبل 13 انسانوں کے سرخ خون پر کوئی اعتراض نہیں۔ اہمیت کا حامل ایک گلاب کا پھول ہے لیکن انسانی سرخ خون ان کے نزدیک بالکل بے وقعت ہے
پیشے کے لحاظ سے اکاؤنٹنٹ ہیں۔ لکھنے کا شوق ہے ۔ دوستی کرنا ان کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ سوشل ویب سائٹس سے کافی اچھے دوست بنائے جنہیں اپنی زندگی کا سرمایہ کہتے ہیں۔ قلم کار ان کا خواب ہے اور اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے انہوں نےبہت محنت کی ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn