Qalamkar Website Header Image
قمر عباس اعوان کی فوٹو: قلم کار کے ادارتی ٹیم انچارج ہیں۔

بلیک میلر لاشوں کے ہاتھوں شکستِ فاش

کوئٹہ میں رہنے والی ہزارہ برادری ہر کچھ عرصہ بعد دہشت گردوں کا نشانہ بنتی رہتی ہے۔ سینکڑوں حملوں میں ہزاروں کی تعداد میں ہزارہ شہادت پا چکے ہیں۔ یہ لفظ شہادت بھی عجیب تقدس لیے ہوئے ہے۔ نااہلی کو شہادت کا مقدس لبادہ پہنا کر لواحقین کو بہلایا جاتا ہے۔ 2013 کی 10 جنوری کو ہونے والا واقعہ کس کو بھول سکتا ہے جس میں 113 ہزارہ افراد کو خود کش حملہ میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ اس بڑے حادثے پر ہزارہ قوم سراپا احتجاج ہوئی اور منفی درجہ حرارت میں مقتولین کی لاشیں سامنے رکھیں اور دھرنے کا اعلان کر دیا۔ ان کے ساتھ یکجہتی کے طور پر پورے ملک میں پرامن دھرنوں کا سلسلہ شروع ہو گیا اور بالآخر مظاہرین کا مطالبہ پورا کرتے ہوئے اس وقت کے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کوئٹہ گئے اور لواحقین کے سامنے بیٹھ کر مذاکرات ہوئے۔ نتیجتاً بلوچستان کی صوبائی حکومت کو برطرف کر دیا گیا۔

متعدد حکومتی یقین دہانیوں کے باوجود ہزارہ نسل کشی کا سلسلہ نہ رک سکا۔ اگر غیر جانبداری سے سوچ بچار کریں تو صاف نظر آتا ہے کہ ان کی نسل کشی روکنے میں ریاست کو خود ہی دلچسپی نہیں۔ پرامن ہزارہ قوم ہر لاش پر احتجاج ہی کرتی رہ گئی۔ حالیہ دنوں میں مچھ میں گشیتری کول مائنز کا واقعہ ہوا تو ایک بار پھر ہزارہ برادری کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ انہوں نے گیارہ لاشیں  لے کر دھرنے کا اعلان کر دیا۔ ان کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے لیے پھر سے ملک کے مختلف حصوں میں احتجاج اور دھرنوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اب کی بار ہزارہ قوم نے بات چیت کے لیے وزیراعظم عمران خان کے کوئٹہ آنے کی شرط رکھ دی۔ وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید، وفاقی وزیر علی زیدی اور وزیراعظم کے مشیر زلفی بخاری بھی مذاکرات کے لیے کوئٹہ گئے۔ ان ہی مذاکرات میں زلفی بخاری کی اشتعال انگیز گفتگو کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔ جس پر سوشل میڈیا صارفین کی ایک بڑی تعداد نے غم و غصے کا اظہار کیا۔

یہ بھی پڑھئے:  سعودی قطری تنازعہ - چولی کے پیچھے کیا ہے؟ | حیدر جاوید سید

جوں جوں دھرنا بڑھتا جا رہا تھا حکومتی نمائندگان کی جانب سے غیر مناسب بیانات کا سلسلہ طویل ہوتا جارہا تھا۔ بغیر کسی مسلکی تفریق کے سوشل میڈیا صارفین تحریک انصاف کی حکومت اور بالخصوص وزیراعظم عمران خان پر تنقید کر رہے تھے۔ ابتدائی دنوں کی خاموشی کے بعد تحریک انصاف کے سوشل میڈیا "ہمدردوں” نے دھرنا دینے والوں کی منظم مخالفت اور حکومت کی حمایت میں لکھنا شروع کیا۔ رفتہ رفتہ یہ مہم حکومتی بیانات کی طرح نامناسب انداز اختیار کرتی گئی۔ "انصافی پرست” سوشل میڈیا صارفین نے مقتولین اور لواحقین پر طرح طرح کے الزامات بھی لگانا شروع کر دیے جن میں سے ایک الزام گیارہ مقتولین میں سے سات کے افغانستان کا رہائشی ہونے کا دعویٰ بھی تھا۔ انصافی بریگیڈ کی جانب سے بڑے زور و شور سے "غیر قانونی رہائش پذیر افغانی ہزارہ مقتولوں کے لیے دھرنا کیسا اور مطالبات کیسے” کا بیانیہ سوشل میڈیا پر پیشہ ورانہ انداز میں پھیلایا جا رہا تھا۔

سب سے پہلی بات تو یہ کہ افغانستان کے قونصل خانے نے تین میتوں کی حوالگی کا مطالبہ کیا۔ یہ تینوں مقتول واقعی افغانستان کے شہری تھے جو کہ قانونی طور پر پاکستان میں خاندان کے ہمراہ روزگار کے سلسلے میں رہائش پذیر تھے۔  انصافی بریگیڈ اگر عقل سے کام لے تو اسے اندازہ ہو کہ وہ تین مقتول قانونی طور پر یہاں مقیم تھے تو ہی حکومت افغانستان نے میتوں کی حوالگی کا مطالبہ کیا ورنہ غیر قانونی رہائش پذیر شہریوں کے لیے کون آفیشل لیٹر لکھتا ہے؟

اس کے بعد جناب وزیراعظم کا وہ بیان جو انہوں نے لاشوں کی تدفین سے ایک روز قبل ایک تقریر میں دیا کہ یوں کسی وزیراعظم کو بلیک میل نہیں کیا جا سکتا۔ اس نے سوشل میڈیا پر حکومت مخالف اور خصوصاََ عمران خان مخالف بات چیت میں جلتی پر تیل کا کام کیا، تقریباََ ہر طبقہ ان کے اس غیر ذمہ دارانہ بیان پر شدید غم و غصے میں مبتلا تھا۔ یہ بیان اسی عمران خان کا تھا جو اس سے قبل ہزارہ برادری کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے وہاں جا کر کہہ رہا تھا کہ کہاں ہے آصف علی زرداری؟ وہ اس سانحے کا ذمہ دار ہے اسے فوراََ کوئٹہ آنا چاہیے لیکن خود وزارتِ عظمیٰ کی کرسی پر بیٹھے ہوئے انہیں لگ رہا تھا کہ اگر مقتولین کے لواحقین ان کو بلا رہے ہیں تو یہ ان کو بلیک میل کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھئے:  پیرانِ پیر مخدوم شاہ محمود قریشی

اسی شام "کسی عام پاکستانی” کی جانب سے ہمسایہ ملک ایران کے ایک مجتہد آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی سے لاشوں کی تدفین کی بابت رہنمائی کی درخواست کی گئی۔ آیت اللہ کا جواب دیکھ کر لواحقین نے میتوں کی تدفین پر آمادگی ظاہر کر دی۔ اس پورے واقعے میں آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی سے یہ درخواست یا فتویٰ لینے میں "کس کا” ہاتھ تھا اس پر جو دو تین آراء اس وقت مختلف حلقوں میں زیرِ بحث ہیں ان کا ذکر برادرم حیدر جاوید سید نے اپنے کالم  "ختم دھرنا ہوا اور تماشے شروع” میں کیا ہے۔

گردش کرتی آراء کے مطابق چاہے درپردہ وزارتِ خارجہ کی ایماء پر یا ایک مذہبی جماعت کی درخواست پر آیت اللہ ناصر مکارم سے "رہنمائی” لی گئی، پاکستانی معاشرے پر اس کے کوئی بہتر اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔ ٹی وی پر متذکرہ خبر نشر ہوتے ہی نہ صرف شدت و شر پسند عناصر کی جانب سے بلکہ اچھے خاصے سمجھدار سمجھے جانے والے اور بہت سے "انصاف پسند” حضرات (جو ابھی تک کے معاملات میں تقریباََ چپ تھے انہوں) نے بھی پروپیگنڈہ شروع کر دیا کہ ایران کی مداخلت پر تو میتوں کی تدفین کی جا رہی ہے  جبکہ پوری حکومتی مشینری کی درخواست پر یہ لوگ ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ یہ زہریلا پروپیگنڈہ مخصوص ذہنیت کی حامل تنظیموں کی جانب سے عام حالات میں بھی ایک فقہ کے ماننے والوں کے خلاف کیا جاتا ہے۔ ایسے حالات میں اس نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔

میتوں کی تدفین کے اگلے روز وزیراعظم کا کوئٹہ جانا اور پھر اپنی ضد پر اڑے رہ  کر لواحقین کو یونیورسٹی میں بلوانا بھی سوشل میڈیا پر زیرِ بحث بنا رہا۔ 11 مقتولین میں سے فقط دو کے خاندان اور دھرنا کمیٹی کے چودہ میں سے تین ارکان نے عمران خان سے ملاقات کی۔ باقی تمام لواحقین کا اصرار تھا کہ اگر وزیراعظم تعزیت کے لیے آئے ہیں تو وہ ہمارے پاس آ کر تعزیت کریں نہ کہ ہمیں اپنے پاس بلوا کر لیکن وزیراعظم ان کے پاس گئے نہ وہ لواحقین وزیراعظم سے ملنے یونیورسٹی تشریف لائے۔

یہ بھی پڑھئے:  عمران خان۔۔۔ دی گریٹ

سچ تو یہ ہے کہ وزیراعظم اخلاقی طور پر یہاں بھی مات کھا گئے۔ گو کہ  تحریک انصاف کے سوشل میڈیا مجاہدین اس کو بڑی فتح گردانتے ہوئے عجیب و غریب تاویلیں دیتے ہوئے عمران خان کی تعریفوں کے پل باندھتے رہے لیکن سوشل میڈیا کی اکثریت نے اس رعونت بھرے لہجے  اور رویے پر عمران خان کو آڑھے ہاتھوں لیا۔ عمران خان اپنی ہٹ دھرمی اور ضد کے مطابق عمل کر کے سانحہ مچھ کے لواحقین میں سے صرف دو خاندانوں سے ملاقات کے بعد شائد اپنے چاہنے والوں کی نظر میں سرخرو ہو چکے ہوں لیکن تاریخ لازماََ یہ لکھے گی کہ وزیراعظم عمران خان گیارہ بلیک میلر لاشوں کے ہاتھوں شکستِ فاش کھا گئے تھے۔

Views All Time
Views All Time
2833
Views Today
Views Today
1

حالیہ پوسٹس