Qalamkar Website Header Image

خدا پرست سوشلسٹ

قبیلہ غفار کے ایک رکن جندب کے خمیر میں  خود ساختاؤں کے خلاف بغاوت  اسلام قبول کرنے سے پہلے ہی بھری ہوئی تھی۔ جب قحط سالی کا خطرہ سر پر منڈلا رہا تھا اور  بارشوں کا موسم گزر جانے کے باوجود بارشیں نہ ہوئیں اور بادلوں کا کوئی نام و نشان نہ تھا تو قبیلہ غفار کے تمام افراد اپنے خدا "منات” کے مجسمے سے مناجات کرنے کے لیے تیار ہورہے تھے۔ جندب کے بڑے بھائی  انیس نے جب اپنے اونٹ کو تیار کر لیا تو اسے جندب نظر نہ آیا۔ وہ اسے ڈھونڈتا ہوا گھر میں داخل ہوا جہاں جندب  اپنے بستر پر لیٹا ہوا تھا۔ جب اسے چلنے کے لیے کہا تو جندب بولا "منات کو دیکھ کر کراہت اور بے رغبتی کا احساس مجھے گھیر لیتا ہے۔” وہیں اسی عبادت کے دوران کچھ مزید واقعات سن کر جندب کے دل میں بتوں کی بے رغبتی مزید بڑھ جاتی ہے۔ رات کے اندھیرے میں جب اپنے ہاتھ سے منات کو پتھر مارتا ہے تو کوئی  ردعمل نہ پا کر مزید تسلی ہوجاتی ہے۔ گھر واپس پہنچ کر وہ مناظر فطرت میں سے خدائے یکتا کو تلاشتا ہے۔ اور پھر جب وہ خدا کو کھوج لیتا ہے تو اس کے حضور سجدہ شکر بجا لاتا ہے۔ پہلی نماز پڑھتا ہے۔ حضور ﷺ سے ملاقات سے تین برس قبل کی پہلی نماز۔

یہی جندب مکہ میں رسول حق ﷺ کی آمد کی خبر سن کر مکہ پہنچتا ہے اور تین دن کی کھوج کے بعد علیؑ کے وسیلے سے رسول رحمت ﷺ سے ملتا ہے۔ وہاں اسے اپنی منزل مل جاتی ہے۔ یہی جندب  اولین اسلام قبول کرنے والوں میں سے ہے۔ جسے رسول رحمت ﷺ سے تعلیمات ملتی ہیں۔ وہ اعلیٰ الاعلان مکہ میں بتوں کو جھٹلاتاہے۔ کفار اسے لہو لہان کرتے ہیں۔ اور اسی جندب کو رسول ﷺ اس کے قبیلہ غفار میں تبلیغ کی ذمہ دار سونپتے ہیں۔ جندب کو تاریخ "ابوذر غفاری  رضی اللہ تعالیٰ عنہ” کے نام سے یاد کرتی ہے۔  وہ ابوذر  غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ جس نے بعد میں ہر کسی کے سامنے کلمہ حق ادا کیا اور یہی اس کا جرم بنا۔

کتاب خدا پرست سوشلسٹ کے اردو ترجمہ غریبِ ربذہ کا سرورق

یہ حالات ڈاکٹر علی شریعتی نے مصر کے ممتاز دانشور اور نامور مورخ عبدالحمید جودۃ السحار کی جناب ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کی تاریخ پر لکھی کتاب کے ترجمے میں ذکر کیے ہیں۔ ڈاکٹر شریعتی نے اس کتاب کا نام "خدا پرست سوشلسٹ” رکھا ہے۔ اردو میں اس کتاب کا ترجمہ "غریب ربذہ” کے نام سے مارکیٹ میں دستیاب ہے جسے پروفیسر فضیلت زہرہ صاحبہ نے ترجمہ کیا  ہے۔ لیکن  نجانے کیوں میرے نزدیک خدا پرست سوشلسٹ والے نام میں ایک عجیب سی کشش ہے۔ ڈاکٹر شریعتی نے جناب ابوذر رضی اللہ عنہ کے بعد از رسول پاک ﷺ خصوصاََ خلیفہ سوئم اور حاکم شام معاویہ بن سفیان کے دور میں حاکمان وقت اور سرمایہ داروں کے خلاف اٹھانے والی آواز کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں "خدا پرست سوشلسٹ” کا بہترین لقب دیا ہے۔ یہی وہ انقلابی بیانیہ تھا جو جناب ابوذر رضی اللہ عنہ نے رسول ﷺ سے سیکھا اور اسے حکمرانوں سے ڈرے بنا  زمانے میں عام کیا۔ اور اسی کی پاداش میں ربذہ کے صحرا میں جلاوطنی کے عالم میں پہلے بیٹی، پھر بیٹے کی اور پھر اپنی قربانی پیش کرنا پڑی۔ ناول کے سے انداز میں لکھی گئی جناب ابوذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر  ڈاکٹر علی شریعتی کی یہ ایک بہترین کتاب ہے جو قاری کا ربط کہیں ٹوٹنے نہیں دیتی۔

نبی پاک ﷺ کے حکم کے مطابق ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے قبیلے والوں کو دعوت اسلام دی اور طویل مناظرے اور بحث کے بعد قبیلے کے سردار خفاف سمیت متعدد لوگوں کو مسلمان کر لیا۔ باقی بہت سے لوگوں نے کہا جب ہم خود رسول ﷺ کو دیکھیں گے تب اسلام قبول کریں گے۔  اس دوران نبی پاک ﷺ قبیلہ غفار تشریف لے گئے اور سارے قبیلے نے اسلام قبول کر لیا۔ غزوہ خندق تک جناب ابوذر رضی اللہ عنہ اپنے قبیلے میں رہے۔ اس کے بعد مدینہ تشریف لے گئے اور پھر باقی زندگی اصحاب صفہ کے ساتھ نبی پاک ﷺ کی رفاقت میں بسر کی۔ غزوہ تبوک میں ان کے پاس زادِ سفر کے لیے اسباب نہ تھے۔ نحیف سا اونٹ تھا۔ راستے میں سے قافلے سے پیچھے رہ گئے۔ لیکن بعد ازاں عشق رسول ﷺ سے سرشار پیدل صحرا میں چل پڑے۔ لشکر اسلام ایک جگہ تھک ہار کر بیٹھا ہوا تھا۔ ابوذر رضی اللہ عنہ کو راستے میں سے ایک جگہ سے ٹھنڈا اور میٹھا پانی ملا۔ انہوں نے مشک میں ڈال لیا لیکن پیا نہیں۔ قافلے والوں کی صحرا میں کسی دور سے آتے شخص پر نظر پڑی۔ نبی پاک ﷺ نے کہا ہوسکتا ہے وہ ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہو۔  کچھ دیر بعد ایک سپاہی بولا کہ اے پیغمبر خدا ﷺ واللہ یہ ابوذر رضی اللہ عنہ ہے۔ رسول ﷺ بولے: ابوذر رضی اللہ عنہ کو اللہ بخشے، تنہا جیتا ہے، تنہا مرتا ہے اور تنہا ہی اپنے آپ کو جذبوں سے سرفراز رکھتا ہے۔ ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ قریب پہنچ کر گرگیا۔ نبی پاک ﷺ نے کہا اسے پانی دو بہت پیاسا ہے۔ ابوذر بولے کہ میرے پاس بھی پانی ہے تو نبی پاکﷺ نے کہا کہ پانی تھا تو پیا کیوں نہیں۔ ابوذر  رضی اللہ عنہ بولے کہ مجھے گوارا نہیں تھا کہ  اس وقت تک یہ ٹھنڈا میٹھا پانی پیوں جب تک میرا دوست محمد ﷺ بھی اس کو پیے۔ محمد ﷺ بولے ابوذر تجھے اللہ بخشے، تو تنہا ہی جیتا ہے ، تنہا ہی مرتا ہی اور تنہا ہی اٹھایا جائے گا۔

یہ بھی پڑھئے:  اسلام علیک یا وارثِ علمِ نبی صلیٰ اللہ علیہ وآلِہ وسلم

 بعد از رسول پاک ﷺ وہ خلافتِ علیؑ کے حامی تھے۔  خلیفہ دوم کے زمانے میں شام میں تھے جب ابولولو فیروز کے خنجر سے خلیفہ دوم کے قتل ہونے کی خبر سنی۔ وہاں سے مدینہ روانہ ہوئے کہ اب خلافت علیؑ کو مل جائے گی کہ وہ ان کا حق ہے اور اب اسلام  دوبارہ سے اپنے بہترین دور میں داخل ہوگا۔ لیکن راستے میں اطلاع ملی کی خلافت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو مل گئی ہے۔ ان کا دل بجھ گیا۔ شام میں گورنر معاویہ بن ابوسفیان تھا۔ ابوذر رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ خلافت سلطنت میں تبدیل ہو رہی ہے۔خلیفہ کے مشیروں نے جائیدادیں اور مال و دولت بنا لیا ہے۔  حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے تمام قلعہ خیبر اور پورے افریقہ کے مالیات کا پانچواں حصہ اپنے چچا مروان بن حکم جسے اس کے باپ حکم سمیت نبی پاک ﷺ نے مدینہ بدر کر دیا تھا، کو بخش دیااور بنو امیہ پر مزید نوازشات کے دروازے کھلتے دیکھے تو ابوذر رضی اللہ عنہ نے بغاوت کر دی۔ وہ بے باکی سے لوگوں کو مساوات  اور تقویٰ کا درس دینے لگے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ  کو جب مروان نے بتایا کہ آپ کے خلاف ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ لوگوں کو بھڑکا رہے ہیں تو وہ سخت ناراض ہوئے اور پوچھا کہ تم لوگوں کو فقط یہی آیت کیوں سناتے ہو ” جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں  اور خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ان کو دردناک عذاب کی وعید سنا دو” تو  ابوذر رضی اللہ عنہ بولے کہ کیا  خلیفہ وقت مجھے کتاب خدا پڑھنے اور جو لوگ احکام کی پابندی چھوڑ چکے ہیں ان سے مبارزہ کرنے سے روک سکتے ہیں؟ دن بدن ابوذر رضی اللہ عنہ اور خلیفہ وقت کے درمیان یہ اختلاف بڑھتا رہا۔ ایک دن کعب الاحبار نے جو خلیفہ دوم کے زمانے تک مسلمان نہیں ہوا تھا اور خلیفہ سوم کا مشیر تھا، نے کسی بات پر شرعی وضاحت کی اور ابوذر رضی اللہ عنہ نے اس سے واضح اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ اے یہودی زادے! اب تو ہمیں ہمارا دین سکھائے گا؟ ابوذر رضی اللہ عنہ اور خلیفہ وقت کے درمیان جھگڑا بڑا اور خلیفہ نے غصے سے کہا کہ تم شام چلے جاؤ۔

شام پہنچے تو ابوذر رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ معاویہ بن سفیان ایک سبز محل تعمیر کروا رہا تھا۔ ابوذر نے سرزنش کی کہ اگر تو لوگوں کے مال سے بنا رہے ہو تو خیانت ہے اور اگر اپنے مال سے بنا رہے ہو تو اسراف ہے۔ معاویہ کا چہرہ شرم سے سرخ ہوگیا۔ ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سیدھے مسجد میں گئے۔ وہاں لوگوں سے ملے ۔ لوگوں نے معاویہ بن سفیان کے رویے کی شکایتیں کیں۔  ابوذر رضی اللہ عنہ نے وہاں کھڑے ہو کر تقریر کی اور کہا کہ جو ہم نے نبی پاک ﷺ کے زمانے میں دیکھا اور اس میں سے اب کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ حق پامال ہوگیا ہے اور باطل زندہ ہوگیا ہے۔ سچے کو جھوٹ کے روپ میں پیش کیا جاتا ہے ، ہر طرف فتنہ و آشوب پھیل گیا ہے، نظام درہم برہم ہوگیا ہے۔ پھر سرمایہ داروں کی مذمت بھرپور انداز میں کی اور انہیں اپنے مال کو غریبوں کے ساتھ بانٹنے کا درس دیا ۔  معاویہ بن سفیان نے ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جان چھڑوانے کے لیے اسے قبرص کے جہاد پر بھیج دیا۔ وہاں سے ابوذر رضی اللہ عنہ فتح کے بعد واپس لوٹ آئے اور پھر اندرونی محاذ پر اپنا مورچہ سرمایہ داروں کے خلاف سنبھال لیا۔ جب  معاویہ بن سفیان زچ ہوگیا تو اس نے ابوذر رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا

یہ بھی پڑھئے:  پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان | عرفان اعوان

معاویہ:خدا و پیغمبر ﷺ کے دشمن! روز ہی ہمارے سر پہ آجاتے ہو اور پرانی اور فرسودہ باتیں دہراتےرہتے ہو۔ جب کبھی بھی میں نے عثمان رضی اللہ عنہ کی اجازت کے بغیر اصحاب پیغمبر ﷺ میں سے ایک فرد کو مار ڈالنا ہوتا تو وہ تو ہوتا لیکن تیرے قتل کے بارے میں تو چاہیے کہ عثمان رضی اللہ عنہ سے اجازت حاصل کروں۔
ابوذر رضی اللہ عنہ: میں خدا اور پیغمبر ﷺ کا دشمن نہیں ہواں، تو اور تیرا باپ خدا اور پیغمبر ﷺ کے دشمن تھے جو کہ ظاہری طور پر مسلمان ہوئے ہو ، باطن تمہارا ویسے ہی کافر ہے۔ (طبقات ابن سعد)

معاویہ نے دھمکی، دھونس اور لالچ ہر طریقے سے ابوذر رضی اللہ عنہ کو چپ کروانے کی کوشش کی لیکن جب شام میں معاویہ بھی ابوذر رضی اللہ عنہ کی انقلابی سوچ اور راست گوئی سے تنگ آگیا تو عثمان رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اسے مدینہ بلوا لے۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے اجازت دے دی۔ معاویہ نےسخت  لکڑی کے پالان والے اونٹ پر  وحشی غلاموں کی زیرنگرانی ابوذر رضی اللہ عنہ کو شام سے مدینہ بھجوا دیا۔

مدینہ میں پہنچ کر حسبِ سابق ابوذر  رضی اللہ عنہ نے اپنی انقلابی و باغی طبیعت کے مطابق  خلیفہ وقت کی غلط باتوں کے خلاف علم بغاوت بلند رکھا۔ جس کا نتیجہ بالآخر یہ نکلا کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے پھر سے جلاوطنی کا حکم سنا دیا۔ لیکن جس شہر کا نام ابوذر رضی اللہ عنہ لیں وہ انکار کر دے کہ وہاں نہیں جانا۔ بالآخر ابوذر رضی اللہ عنہ کی منزل ربذہ کا بے آب و گیاہ صحرا ٹھہر ا۔ وہ بھی اس حالت میں کہ کوئی اس کے ساتھ نہیں جائے گا۔ جب علیؑ کو پتہ چلا تو وہ حکمِ خلیفہ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ابوذر رضی اللہ عنہ کو حسنین کریمین ؑ ، جناب عقیلؑ، عبداللہ ابن جعفر ؑاور عمار یاسر رضی اللہ عنہ کے ساتھ ربذہ تک چھوڑنے گئے۔ ادھر جب معاویہ کو پتہ چلا تو اس نے ابوذر رضی اللہ عنہ کی فیملی کو بھی ربذہ بھیج دیا۔ جہاں پہلے ان کی بیٹی بھوک و پیاس سے جاں بحق ہوئی اور پھر بیٹا موت کے منہ میں تھا تو وہ خلیفہ کے پاس پہنچے کہ جو حق میرا اسلام نے مقرر کیا ہے وہ مجھے دو۔ لیکن نہ ملا۔ واپس پہنچے تو بیٹا بھی خالق حقیقی سے جا ملا تھا۔ پھر اپنی موت بھی آن پہنچی۔  ربذہ کے بے آب و گیاہ صحرا میں ابوذر رضی اللہ عنہ اس حال میں قریب المرگ تھے کہ فقط بیوی پاس تھی جس کے پاس کفن کے لیے کپڑا بھی پورا نہ تھا۔  مرنے سے کچھ دیر پانچ لوگوں کا ایک گروہ وہاں پہنچا جنہوں نے جناب ابوذر رضی اللہ عنہ کی تجہیز وتکفین کی۔گروہ میں سے عبداللہ ابن مسعود نے روتے ہوئے کہا یارسول اللہ ﷺ آپ نے سچ کہا تھا

وہ تنہا جیتا ہے
تنہا مرتا ہے
اور تنہا ہی اٹھایا جائےگا

تاریخ اسلام کے اس فراموش کردہ مجاہد کا تذکرہ خال خال ہی سننے میں آتا ہے۔ کتابیں ابوذر رضی اللہ عنہ کے کارناموں سے خالی نظر آتی ہیں۔ کردارِ بوذری کا جب بھی تذکرہ ہو گا تو تاریخ بہت سے تقدس کے نقاب کھینچ کر بہت کچھ بے نقاب کر دے گی۔ شائد اسی لیے تقدس کے لبادے پہنائے رکھنے کے لیے ابوذر رضی اللہ عنہ کو ہی فراموش کر دیا گیا  ۔  ایک قتل ابوذر رضی اللہ عنہ کو جلا وطن کر کے کیا گیا اور دوسرا قتل ان کے کردار کو فراموش کر کے اب کیا جارہا ہے۔

حالیہ بلاگ پوسٹس