کل رات کے وقت چھت پر بیٹھا ٹھنڈی ہوا سے لطف اندوز ہو رہا تھا اور ساتھ میں سوشل میڈیا پر مختلف پوسٹس پڑھ رہا تھا۔ منظر خاموش اور فضا پرسکون تھی۔ چوتھی منزل کی چھت پر ویسے بھی سکون ہی سکون ہوتا ہے ۔ اسی دوران اذانِ عشاء کا وقت ہو گیا ۔ اردگرد نظر دوڑائی تو ہر طرف مساجد کے مینار نظر آرہے تھے۔ اب بیک وقت تین تین چار چار مساجد سے چند لمحوں کے وقفے سے موذن اذان دینا شروع ہوگئے۔ اور صورتحال یہ بن گئی کہ ایک موذن کے ایک جملے کے درمیان وقفہ آتا تو دوسرے کا کوئی جملہ سمجھ آتا ورنہ اتنی آوازیں تھیں کہ بہت زیادہ غور کرنے پر ہی پتہ چلتا کہ کون سا موذن اذان کے کس مقام پر پہنچ گیا ہے۔
فرقوں میں بٹ جانے کی وجہ سے، یا شوقِ ثواب نے ہمیں ہر گلی میں یا ہر محلے میں الگ مسجد بنانے پر مجبور کر رکھا ہے۔ ہر تیسری چوتھی گلی میں ایک مسجد ملتی ہے۔ ایک فرقہ کے پیروکار دوسرے فرقہ کے پیچھے نماز پڑھنا گناہ سمجھتے ہیں۔ ہم نے تو وہ صورتحال بھی دیکھ رکھی ہے کہ اگر مجبوراََ کسی محفل میں اتحاد بین المسلمین دکھانا پڑ جائے تو گھر جا کر دوبارہ فرادا نماز پڑھی کہ وہاں باجماعت نماز پڑھ تو لی لیکن نماز ہوئی نہیں کیونکہ فلاں مسلک کا مولوی پیش نماز تھا اور اس کے پیچھے نماز قبول نہیں ہوتی۔
تقریباََ دس منٹ تک یہ منظر نامہ جاری رہا اور قریب قریب کی مساجد میں اذانیں گونجتی رہیں۔ اس کے بعد سلسلہ تھوڑا دور ہو گیا اور اذان دور کی مساجد میں ہوتی رہیں۔ اذانوں کا سلسلہ کم و بیش پندرہ بیس منٹ چلا۔
یہ صورتحال دیکھ کر میں سوچتا رہا کہ اذان کا مقصد تو نماز کے لیے بلاوا ہے کہ نماز کا وقت ہو چکا ہے اللہ کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہونے کے لیے مسجد آجاؤ۔ یہ اعلان اگر ایک مسجد سے بھی ہو جائے تو کیا کافی نہیں؟ یا ہر مسجد سے الگ الگ موذن وہی اعلان کر کے سب کو بتائے کہ بھئی نماز کا وقت ہو گیا ہے مسجد پہنچو یا جس نے گھر میں نماز پڑھنی ہے پڑھ لے۔ ہم نے اپنی سہولت، اپنی انا، اپنی فرقہ پرستی کی تسکین کے لیے الگ الگ مسجد تو بنا لی لیکن کیا ہم لاؤڈ اسپیکر کے بے جا استعمال کو کم نہیں کر سکتے؟
کیا ہم خود یا حکومت کوئی ایسا لائحہ عمل نہیں بنا سکتی کہ ایک علاقے میں ایک مسجد میں اذان لاؤڈ اسپیکر پر ہو اور باقی مساجد اذان بنا لاؤڈ اسپیکر کے دے لیں۔ تاکہ ایک تو اذان کا مقصد پورا ہو جائے۔ دوسرا اذان کے الفاظ تو سننے والے کو واضح طور پر سن سکیں کہ مؤذن کہہ کیا رہا ہے؟ ایک بندہ جو دو مساجد کے درمیان میں رہ رہا ہو اسے تو دونوں مساجد سے بیک وقت آنے والی اذان کی آوازوں میں پتہ ہی نہیں چلتا کہ موذن کہہ کیا رہا ہے۔
پیشے کے لحاظ سے اکاؤنٹنٹ ہیں۔ لکھنے کا شوق ہے ۔ دوستی کرنا ان کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ سوشل ویب سائٹس سے کافی اچھے دوست بنائے جنہیں اپنی زندگی کا سرمایہ کہتے ہیں۔ قلم کار ان کا خواب ہے اور اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے انہوں نےبہت محنت کی ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn