Qalamkar Website Header Image

سپریم کورٹ کا فیصلہ اور وزیراعظم کا دوٹوک مؤقف

توہین رسالت ﷺ کے مشہور کیس میں سزائے موت پانے والی آسیہ بی بی کی سپریم کورٹ میں ماتحت عدلیہ کے فیصلے کے خلاف درخواست پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب ثاقب نثار کی سربراہی میں بنے بنچ نے 31اکتوبر 2018 کو تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے آسیہ بی بی کو توہین رسالت ﷺ کے الزامات سے بری کر دیا۔ ملکی تاریخ میں یہ فیصلہ ایک انوکھے فیصلے کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ بلاشبہ بنچ کے ججز کے لیے یہ ایک انتہائی مشکل فیصلہ تھا۔ خصوصاََ جس طرح کے شدت پسندانہ رویے معاشرے میں موجود ہیں ان کی موجودگی میں یہ فیصلہ کرنا واقعی ایک بہادرانہ فعل ہے۔ اسی کیس میں آسیہ بی بی کی حمایت میں توہین رسالت ﷺ کے قانون 295-C کے غلط استعمال پر آواز اٹھانے کی وجہ سے اس وقت کے گورنر پنجاب سلمان تاثیر شہید کو اپنی جان دینا پڑی۔ ان کے خلاف بھی ایک مذہبی شدت پسند طبقے نے بے تحاشا پروپیگنڈا کیا۔ ان کو شاتم رسول تک کہا گیا۔ ان کو قتل کرنے کے فتوے دیے گئے ۔ انہیں کی باتوں میں آکر گورنر کے محافظوں میں سے ایک ممتاز قادری نے اسلام آباد میں ان پر فائرنگ کر کے انہیں قتل کر دیا۔ بعدازاں عدالت سے ممتاز قادری کو پھانسی دی گئی۔ پھانسی کے بعد ممتاز قادری کے جنازے ، اور بعد ازاں اس کے قبل از وقت چہلم پر ایک جماعت کی طرف سے اسلام آباد دھرنے نے حالات کو کچھ اور ہی رخ دے دیا۔

اسلام آباد دھرنے کے دوران سٹیج سے جس طرح کی سطحی انداز کی گفتگو اور گالم گلوچ ہوئی وہ ساری دنیا کے سامنے ہے۔ ن لیگ کی حکومت میں توہین رسالت کی شق میں مبینہ ترمیم کے خلاف اسی جماعت نے دوبارہ سے دھرنا دیا۔ دھرنے کے فنانسرز کون تھے ، ابتدائی جیب خرچ کس نے دیا، ان کو کیا اہداف دے کر لاہور سے اسلام آباد تک محفوظ راستہ دے کر فیض آباد تک پہنچایا وہ ایک الگ کہانی ہے۔ راولپنڈی میں فیض آباد دھرنے کے دوران جو تماشا ہوا وہ بھی سب کے ذہنوں میں محفوظ ہے۔ اسی دھرنے کے دوران چیف جسٹس اور عدلیہ کو گالیاں دی گئیں۔

ان سب حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے آسیہ بی بی کی بریت کا فیصلہ واقعی ایک ہمت کا کام ہے۔ اور بلاشبہ چیف جسٹس ثاقب نثار اس پر تعریف کے قابل ہیں کہ انہوں نے کیس کو صحیح انداز میں سنا اور قانون کے مطابق اپنا فیصلہ سنایا۔ سپریم کورٹ کی جانب سے فیصلے کے بعد اسی دن تفصیلی فیصلہ جاری کر دینا بھی یقیناََ ان حالات میں عقلمندانہ فعل ہے۔ سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے کی کاپی سوشل میڈیا پر سارا دن گردش میں رہی۔ اس کے چیدہ چیدہ نکات بھی مختلف لکھاریوں نے شائع کیے۔

یہ بھی پڑھئے:  10 فیصد بالادستوں کی غلامی سے نجات حاصل کیجئے – حیدر جاوید سید

ان کے فیصلے کے فوراََ بعد حسبِ توقع تحریک لبیک والوں کی طرف سے ماضی کی روش کو جاری رکھتے ہوئے اہم جگہوں پر احتجاج اور دھرنوں کا سلسلہ شروع ہو گیا جس کی وجہ سے عوام ایک بار پھر مشکلات کا شکار ہوگئی۔ شدت پسندانہ رجحان رکھنے والے طبقے کی جانب سے چیف جسٹس کو قتل کرنے کی دھمکیوں کے ساتھ ساتھ آرمی جنرلز کو چیف آف آرمی سٹاف کے خلاف بغاوت کرنے کی دعوت بھی موضوع بنی رہی۔

ان حالات میں پیمرا کی جانب سے تمام چینلز کو دھرنوں ، احتجاجی جلوسوں کو کوریج نہ دینے کا فیصلہ بھی حالات کے مطابق بالکل ٹھیک لگا۔ ملک کے اہم شہروں میں جہاں احتجاجی جلوس اور دھرنے جاری ہیں وہاں موبائل سروس کو بند کر دیا گیا۔ حالات کو کنٹرول میں نہ کرنے کا خمیازہ پچھلی حکومت فیض آباد دھرنے کے ایک طویل ڈرامے کی صورت میں بھگت چکی ہے۔ موجودہ حالات میں نومنتخب حکومت کے وزیراعظم عمران خان نے قوم سے خطاب کرنے کا فیصلہ کیا۔

عمران خان کا بطور وزیراعظم خطاب ماضی کے حکمرانوں کے کیے گئے خطابات سے کافی مختلف تھا۔ خصوصاََ عمران خان کی باڈی لینگوئج سے ہی اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ بہت پراعتماد انداز میں خطاب کررہے ہیں۔ شروع میں انہوں نے ختم نبوت اور ناموس رسالت ﷺ پر بات کی۔ بعد ازاں انہوں نے واضح کیا کہ فیصلہ سپریم کورٹ سے سنائے جانے کے بعد ایک قلیل سے طبقے کی جانب سے ردعمل دیا جارہاہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اس ایک شدت پسند طبقے کی جانب سے چیف جسٹس آف پاکستان کو دی جانے والی قتل کی دھمکیوں اور فوج کے جنرلز کو چیف آف آرمی سٹاف کو کافر قرار دے کر اس کے خلاف بغاوت کر دینے کے لیے اکسانے پر برہمی کا اظہار کیا۔ اس سے قبل انہوں نے آزادی اظہار کے نام پر مقدسات کی توہین کی روک تھام کے لیے اقوام متحدہ میں کی جانے والی اپنی حکومت کی کوششوں کا ذکر بھی کیا۔ اور مظاہرین کی ایک قلیل تعداد پر واضح کیا کہ وہ ملک میں بدامنی پھیلا کر پاکستان یا اسلام کی نہیں بلکہ بیرونی قوتوں کی مدد کر رہے ہیں جو پاکستان کو ترقی کی راہ سے ہٹانا چاہتے ہیں۔

ساتھ ہی انہوں نے عوام سے بھی اپیل کی کہ وہ اس طبقے کی جانب سے مذہبی حوالے سے جذبات ابھارنے کی کوششوں کو ناکام بنائیں اور عدالت کے فیصلے کا احترام کریں۔ انہوں نے اس شدت پسند طبقے پر واضح کیا کہ ایسا ممکن نہیں کہ اگر انہیں عدالت کا فیصلہ پسند نہیں تو وہ اس کے خلاف املاک کو نقصان پہنچانا شروع کر دیں اور عوام کی زندگی اجیرن کر دیں۔ انہوں نے بڑے دھیمے لیکن ٹھوس لہجے میں مظاہرین کو دھمکی دے دی کہ اگر وہ یہ روش چھوڑ کر گھروں کو واپس نہ گئے تو ان کے خلاف سخت سے سخت کارروائی سے بھی گریز نہیں کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھئے:  محبت فلرٹ اور عزتوں کی بربادی - افضال احمد

وزیراعظم کا یہ خطاب بلاشبہ ملک میں رہنے والی اکثریت کے دل کی آواز ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی پالیسیز سے بہتیرے اختلافات ہوسکتے ہیں لیکن موجودہ حالات میں انہوں نے قوم سے خطاب میں جو مؤقف اختیار کیا ہے بلاشبہ وہ قابل تحسین ہے۔ اور اسے سراہا جانا چاہیے۔

دوسری طرف ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ کیا ایسا قانون نہیں بننا چاہیے کہ جو توہین مقدسات کے جھوٹے مقدمے کروائیں مقدمہ ثابت نہ ہونے پر انہیں انہی الزامات کے تحت سزا دی جائے؟ سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آسیہ بی بی کیس میں دونوں مرکزی گواہان اور اس کے علاوہ باقی گواہان کے بیانات میں تضاد ہے۔ کسی کا بھی بیان دوسرے سے نہیں مل رہا۔ یعنی مقدمہ حقائق سے زیادہ جذبات کو مدنظر رکھ کر بنایا گیا۔ کیا ایسی صورت میں ایک خاندان کی زندگی کو خطرے میں ڈالنے والے ان تمام گواہان اور مدعیان کو ایسے ہی چھوڑ دینا چاہیے؟ اگر ایک ایسا ٹیسٹ کیس بن جائے جس میں غلط الزام لگانے والے کو انہی دفعات کے تحت سزا دی جائے تو مستقبل میں مذہب کو ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہوئے ہر شخص ہزار بار سوچے گا۔

حالیہ بلاگ پوسٹس