ان دنوں ملک میں الیکشن کی دھوم مچی ہوئی ہے۔ کاغذات نامزدگی جمع کروانے میں صرف دو دن باقی ہیں۔ تھوک کے حساب سے مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے امیدواروں کے ساتھ ساتھ بہت سے آزاد امیدوار بھی انتخابات میں حصہ لینے کے لیے اپنے کاغذات جمع کروا رہے ہیں۔ دوسری طرف ملک کی تمام سیاسی پارٹیوں کی کمیٹیاں اپنے اپنے امیدواروں کے نام کنفرم کر رہی ہیں جنہیں وہ ٹکٹیں جاری کریں گی تاکہ وہ امیدوار پارٹی کے نشان پر انتخابات میں حصہ لے سکیں۔ پاکستان تحریک انصاف نے سب سے پہلے ملک بھر سے اپنے امیدواروں کا اعلان کر دیا ہے۔ اے این پی بھی اپنے امیدواروں کا اعلان کر چکی۔ دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ ایک ہی پارٹی کے امیدوار نے بہت سے حلقوں سے اپنے کاغذات نامزدگی الیکشن کمیشن میں جمع کروا رکھے ہیں۔
ٹکٹوں کے اعلان اور امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کے بعد سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث شروع ہوگئی ہے۔ جس میں ایک سے زیادہ حلقوں سے الیکشن میں حصہ لینے والے امیدواروں پر تنقید کی جارہی ہے۔ ساتھ ہی لوگ اس معاملے میں مختلف تجاویز بھی دے رہے ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ایک سے زیادہ حلقوں سے الیکشن لڑنا امیدواروں کا آئینی اور جمہوری حق ہے۔
الیکشن پر اچھا خاصا خرچہ ہوتا ہے۔ اور ظاہر ی سی بات ہے کہ وہ تمام اخراجات عوام کے ٹیکسوں کے پیسوں سے ہی پورے کیے جاتے ہیں۔ مختلف اداروں کے ملازمین الیکشن کا کامیاب بنانے کے لیے ڈیوٹی سرانجام دیتے ہیں۔ایک امیدوار جب ایک سے زیادہ حلقوں سے الیکشن لڑتا ہے تو بعض اوقات وہ ایک سے زیادہ حلقوں سے جیت بھی جاتا ہے۔ آئینی طور پر کوئی بھی امیدوار ایک سے زیادہ حلقوں سے جیتنے کی صورت میں کسی ایک حلقے کی سیٹ اپنے پاس رکھ سکتا ہے۔ اس صورت میں جب وہ دوسری سیٹیں چھوڑتا ہے تو ان سیٹوں پر دوباررہ ضمنی الیکشن ہوتے ہیں۔ وہی الیکشن والا مکمل عمل دوبارہ اس حلقہ میں دھرایا جاتا ہے۔ اور ایک بار دوبارہ سے عوام کے ٹیکسوں کے پیسوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔
ایسا دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک سے زیادہ سیٹوں سے الیکشن لڑنے والے عموماََ کسی بھی پارٹی کے رہنما، ان کے رشتے دار اور پارٹی کے سینئر رہنما ہوتے ہیں۔ ایک ہی وقت میں قومی اسمبلی کے متعدد حلقوں سے بھی الیکشن لڑ رہے ہوتے ہیں اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے بھی۔ حالیہ الیکشن میں بھی دیکھ لیں عمران خان نے پانچ حلقوں سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسی طرح شہباز شریف بھی ایک سے زیادہ حلقوں سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ اسی طرح امیدواروں کی ایک لمبی لسٹ ہے۔ ایک سے زیادہ حلقوں سے الیکشن لڑنے کے پیچھے جو سوچ نظر آتی ہے وہ ہار کی صورت میں اسمبلی سے باہر بیٹھنے کی ہوسکتی ہے۔ ہار جانے کا ڈر ہی ہے جو پارٹیوں کی اعلیٰ قیادت کو ایک سے زیادہ حلقوں سے الیکشن لڑنے پر مجبور کرتی ہے۔
سوشل میڈیا پر جاری بحث میں ایک سے زیادہ حلقوں سے الیکشن لڑنے پر تنقید کی جارہی ہے۔ اور ساتھ ہی ایک سے زیادہ سیٹوں سے الیکشن لڑنے کی صورت میں مختلف تجاویز بھی دی جارہی ہیں۔ میری نظر میں الیکشن کمیشن کو ایک امیدوار کے ایک سے زیادہ حلقوں سے الیکشن لڑنے پر پابندی لگانی چاہیے۔ تاکہ ملک میں ایک ہی بار الیکشن ہوں اور کسی امیدوار کے سیٹ چھوڑنے کی وجہ سے دوبارہ ضمنی الیکشن پر اخراجات نہ ہوں۔ قومی اسمبلی کو چاہیے کہ اسمبلی میں بل پاس کر کے ایک سے زیادہ سیٹوں پر الیکشن لڑنے کاراستہ روکے (اس امر کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے کہ اراکین اسمبلی ایسا کوئی بل پاس کریں)۔ اگر الیکشن کمیشن امیدواروں کے اس "آئینی و جمہوری” حق پر پابندی نہیں لگانا چاہتا تو پھر اس کے علاوہ متعدد تجاویز ہیں جو اس بارے میں عمل میں لائی جاسکتی ہیں۔
ایک تجویز تو یہ ہے کہ ایک سے زیادہ سیٹوں سے الیکشن لڑنے کی صورت میں اگر امیدوار کوئی سیٹ چھوڑے تو اس سیٹ پر ضمنی انتخابات پر جتنے بھی اخراجات ہوں وہ اس امیدوار سے وصول کیے جائیں۔ اس کے علاوہ ایک تجویز یہ بھی ہے کہ اگر کوئی امیدوار ایک سے زیادہ سیٹوں پر الیکشن جیت کر کوئی سیٹ چھوڑے تو وہاں دوبارہ ضمنی انتخابات نہ کروائے جائیں بلکہ جو امیدوار دوسرے نمبر پر آئے اسے کامیاب قرار دے دیا جائے ۔ یہ ایک ایسی تجویز ہے جس کی صورت میں کوئی بھی امیدوار ایک سے زیادہ اورر خصوصاََ چار پانچ حلقوں سے الیکشن لڑنے سے قبل ہزار بار سوچے گا۔ کیوں کہ ایسی صورت میں لازماََ ان کی مخالف پارٹی کے امیدوار اسمبلی میں آئیں گے اور اسمبلی میں ان کی پارٹی کی اکثریت پر فرق پڑ سکتا ہے۔ اس خدشے کے تحت امیدوار زیادہ حلقوں سے الیکشن لڑنے سے باز رہ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک حلقے کے ووٹرز کا حق ہے کہ ان کا نمائندہ ان کے حلقے سے ہی ہو۔ امیدواروں کو پابند کیا جاسکتا ہے کہ وہ اسی حلقے سے الیکشن لڑیں جس حلقے میں وہ رہتے ہیں۔ تاکہ کامیابی کی صورت میں اپنے حلقے کے عوام کےلیے کام کر سکیں۔ اگر ایسا ہوجائے تو آج کل مشہور ہو رہے’ نعرے ووٹ کو عزت دو’ اور’ ووٹر کو عزت دو’ کا پاس بھی رہ جائے گا۔ جب جیتنے والے امیدوار کسی حلقے کے عوام کے ووٹوں کی بے عزتی کرتے ہوئےاس حلقے سے اپنی جیتی ہوئی نشست سے دستبردار نہیں ہوں گے۔
پیشے کے لحاظ سے اکاؤنٹنٹ ہیں۔ لکھنے کا شوق ہے ۔ دوستی کرنا ان کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ سوشل ویب سائٹس سے کافی اچھے دوست بنائے جنہیں اپنی زندگی کا سرمایہ کہتے ہیں۔ قلم کار ان کا خواب ہے اور اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے انہوں نےبہت محنت کی ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn