بہار میں جہاں پھول مہک رہے تھے اور فضا کو رنگین بنا رہے تھے وہیں بہت سے پھول چہک چہک کر پارک کا حسن دوبالا کر رہے تھے۔ ادھر سے اُدھر لپکتے ماں باپ کا لاڈ سمیٹتے ایسٹر مناتے بچوں کا ہجوم تھا۔ چہرے پر خوشیاں لیے ہر بات سے بے فکر اپنی خوشیوں میں مگن۔روشنیاں اپنے عروج پر پہنچ رہی تھیں۔ بہارمیں یہ خوشیاں دیکھ کر پھولوں کی مہک میں اضافہ ہو گیا تھا۔ اچانک کسی کو یہ خوشیاں ناگوار گزریں۔ اس سے بہار کو رنگ بکھیرتے اور لوگوں کو بہار کی خوشیوں میں شریک ہوتے نا دیکھا جا سکا اور وہ اپنی ازلی بزدلی والے طریقے پر جلتے کڑھتے اپنی ہی جلن کی آگ میں پھٹنے کے لیے نکل پڑا۔ منزل لاہور میں علامہ اقبال ٹاؤن کی گلشنِ اقبال پارک تھی جس کے دامن میں پھول مہک بھی رہے تھے اور چہچہا بھی رہے تھے۔
لاہور میں کوئی بھی تہوار ہو تو متوسط طبقے کی تفریح کے لیے بہترین جگہ لاہور کے پارک ہیں۔ جن میں سے گلشنِ اقبال پارک اس حوالے سے سرِفہرست ہے۔ عید ہو یا کرسمس ایسٹر ہو یا کوئی اور تہوار ان پارکوں اور تفریحی مقام پر بے پناہ رش ہوتا ہے۔ ایسٹر کے موقع پر مسیحی برادری کے متوسط طبقے کی اکثریت علامہ اقبال ٹاؤن میں واقع گلشنِ اقبال پارک کا رخ کر لیتی ہے۔کافی وسیع وعریض پارک ہے جہاں عام دنوں میں بھی لوگوں کا رش آپ کو نظر آئے گا۔ اقبال ٹاؤن کے پارک کے رہائشی شام کی سیر کے لیے اسی پارک کا انتخاب کرتے ہیں ایسا شام میں محسوس ہوتا ہے۔ جھولے لگے ہونے کی وجہ سے بچوں کی ضد کے آگے ہار مان جانے والے والدین کو بھی یہاں کھینچ لاتی ہے۔کھلی آب وہوا میں بیٹھنا مقصود ہو تو یہ ایک بہترین جگہ ہے جہاں آپ بڑے سکون کے ساتھ وقت گزار سکتے ہیں۔
ایسٹر کے موقع پر یہاں رش ہونا ایک یقینی امر ہے ۔ اور اسی یقین کا فائدہ اٹھایا اس حملہ آور نے۔ عین شام کے وقت جب رش اپنے جوبن پر تھا وہ پارک میں داخل ہوا۔ داخل ہونے میں اسے کوئی مشکل نہیں ہوئی ہو گی یقیناََ۔ گلشنِ اقبال پارک کے بڑے دروازوں کے علاوہ اس کے دیوار بھی ایسی ہے کہ کہ بڑی آسانی سے آپ اندر جا سکتے ہیں۔ بلکہ بعض جگہ سے ٹوٹی ہوئی بھی تھی۔ کچھ عرصہ پہلے پارک میں داخلہ بالکل مفت کر دیا گیا تھا ۔ پہلے گیٹ پر کم از کم ٹکٹ چیک کرنے والے ہی موجود ہوتے تھے لیکن اب وہ بھی نہیں۔ پولیس جو میں نے اکثر وہاں سے گزرتے ہوئے دیکھی وہ گیٹ سے ہٹ کر روڈ پر نالے کے پل کے پاس کھڑی ہوئی ہی پائی جہاں سے گیٹ تک فاصلہ ہے ۔ ان ہی چیزوں کا فائدہ اس دہشت گرد نے اٹھایا اور اندر جا پہنچا۔
داخل ہوتے ہی سامنے جھولے لگے ہوئے ہیں جن کے ٹکٹ گھر پر رش تھا۔ ساتھ ہی کھانے پینے کی اشیأ کی دکانیں بھی ہیں۔ یہی مقام ہو سکتا تھا جس پر بے پناہ رش ہو اور اسی رش میں اس نے خود کو پھاڑ لیا۔ اور اپنے ساتھ ساتھ سینکڑوں گھرانوں کو داغ لگا گیا۔کچھ دیر پہلے تک مہکتے پھولوں کے ساتھ جو پھول چہک رہے تھے ان کی چہک سسکیوں چیخوں میں بدل گئی۔کچھ کی چہک سسکیوں چیخوں کی منزل پار کرتے ہوئے موت کی گہری خاموشی کے درجے پر جا پہنچی۔ وہ بچے جوان بزرگ خواتین جو پھولوں کی مہک سے لطف اندوز ہو رہے تھے انہی پھولوں کو اپنے لہو کی خوشبو سے مہکا گئے۔ جہاں پھولوں کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی وہاں بارود کی ناخوشگوار بو نے لے لی۔ یہ منظر دیکھ کر پھول جھولے بھی خون کے آنسو رو پڑے۔ روشنیاں جو جگمگا رہیں تھیں ان کی آب وتاب اب بھی ویسی ہی تھی لیکن اب اس آب وتاب پر اتنے لاشے دیکھ کر دکھ کے بادل صاف محسوس کیے جا سکتے تھے۔ درودیوار کے نوحے اس ظلم پر صاف سنائی دینے لگے۔ درخت بھی ایمبولینس اور پولیس کی گاڑیوں کے سائرن کے ساتھ بین ڈال رہے تھے۔ میرے شوخ و چنچل دوست بھی جو خوشیاں بکھیرتے نظر آتے تھے اسی غم میں ڈوب گئے ۔
زندہ دل حسنین جمال بھی کرب میں ڈوب کر ایسا لکھ گیا کہ رلا گیااس کے حساس دل کی سسکیوں سے ماحول سوگوار ہو گیا۔ ایک اور لکھاری نے بھی لاہور کا جو نوحہ لکھا اس نے دل کو تڑپا دیا ۔ جو مناظر اس لکھاری نے اپنے نوحے میں دکھائے وہ میں بارہا اس پارک میں دیکھ چکا ہوں۔ سوچ رہا ہوں ان ماؤں کے بارے جو اب ساری زندگی انہی جھولوں پر اپنے بچوں کو تلاش کرتی نظر آئیں گی۔ اور ان جھولوں پر ان پھولوں پر اپنے بچوں کا خون دیکھیں گی جس کے نشان ان جھولوں پر سے توکچھ ہی دنوں میں صاف ہو جائیں گے لیکن ماں کی آنکھ کو ساری زندگی نظر آتے رہیں گے۔ان بچوں کا سوچتا ہوں جن کے ماں باپ کا لہو ان خوشیوں کی فضا کو سوگوار کر گیا۔ جن کو ابھی یہ بھی نہیں پتہ کہ ان کو مارا کیوں گیا۔ جن کو دہشت گردی کا بھی نہیں پتہ کہ یہ کس بلا کا نام ہے۔اس ساری صورتحال میں ہر دل سوگوار ہے ہر آنکھ اشکبار ہے ہر دل میں سسکیاں ہیں۔ زندہ دلانِ لاہور کے دل بھی دکھی ہو گئے لیکن ہاں ایک ہے جو اس ساری صورتحال میں خوش ہو رہا ہے’’ماسٹرمائنڈ‘‘
نوٹ: یہ مضمون دو سال قبل لاہور میں واقع گلشنِ اقبال پارک میں ایسٹر کے موقع پر ہونے والے بم بلاسٹ پر لکھا گیا۔ آج اس کی دوسری برسی کے موقع پر اسے شائع کیا جا رہا ہے۔
پیشے کے لحاظ سے اکاؤنٹنٹ ہیں۔ لکھنے کا شوق ہے ۔ دوستی کرنا ان کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ سوشل ویب سائٹس سے کافی اچھے دوست بنائے جنہیں اپنی زندگی کا سرمایہ کہتے ہیں۔ قلم کار ان کا خواب ہے اور اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے انہوں نےبہت محنت کی ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn