پیاری زینب!
آج تمہارا خط پڑھا جو تم نے ساتویں آسمان سے اپنے شاہ جی انکل کو لکھا (ساتویں آسمان سے قصور کی 9 سالہ زینب کا خط) اور اس میں ڈھیروں سوال کیے۔ معصومانہ سوالات جن کے جوابات بہت آسان ہیں لیکن ان کے جوابات مجھ سمیت کسی کے بھی پاس نہیں ہیں۔ صرف سوالات کے جوابات ہی نہیں مجھے تو الفاظ بھی نہیں مل رہے کہ تم سے تعزیت کروں۔ سوچ رہا ہوں کہاں سے ایسے الفاظ لاؤں جو تمہاری زخمی روح کے لئے مرہم کا کام کر سکیں۔ کیونکہ جانتا ہوں کہ ایسا کوئی لفظ نہیں جو تمہاری زخمی روح کو آرام دے سکے۔
جانتی ہو آج صبح فیس بک پر تمہاری تصویر پہلی بار دیکھی۔ پیاری سی تصویر جس میں تم مسکرا رہی ہو۔ چمکدار چہرہ اور روشن خوبصورت آنکھیں۔ آنکھوں میں چمکتے خواب محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ چہرے سے پرعزم مستقبل کے خواب جھلکتے ہیں۔ تصویر کے ساتھ ہی جب اس تحریر پر نظر پڑی جو ساتھ لکھی تھی تو روح تک چیخ اٹھی۔ اتنی معصوم سی بچی کے ساتھ اتنا بڑا ظلم۔ ایک ہی خیال فوراََ آیا کہ تمہارے قاتل کو سرِ عام چوک میں لٹکا دیا جائے۔ اسے ایسی عبرت ناک سزا دی جائے، سسکا سسکا کر مارا جائے کہ پھر کسی انسانی روپ میں چھپے درندے کو کسی زینب کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرات نہ ہو۔
لیکن اس کے ساتھ ہی خیال آیا کہ زینب ہمیں معاف کرنا ہم تمہیں انصاف نہیں دے سکتے۔ تم تو ایک متوسط درجے کے استاد کی بیٹی ہو۔ تمہارے والد تو ایک عام معلم ہیں۔ ان کا تعلق اس ملک کی افسر شاہی سے نہیں اور نہ ہی وہ اس ملک کی اشرافیہ میں شامل ہیں کہ ان کی بیٹی کے ایسے بہیمانہ قتل پر مجرموں کو فوراََ سے بیشتر گرفتار کر لیا جائے۔
ہمیں معاف کرنا ہم لوگ مجرموں کو نہیں پکڑ سکتے۔ ہاں اگر عوامی دباؤ کے تحت پکڑ بھی لیا تو پھر بھی سزا نہیں دیں گے۔ ہم یہاں شاہ زیب کے قاتلوں کو معافی دلواتے ہیں۔ اور وہی قاتل مکروہ مسکراہٹ لئے انتہائی غرور سے فتح کا نشان بناتا ہوا جیل سے رہا ہوتا ہے۔ ہم مشعال خان کے والد کو انصاف نہیں دیتے۔ بااثر مخالفین اس کا جینا حرام کر دیتے ہیں لیکن ہمارے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ ہم مشعال خان کے قاتلوں کو کچھ نہیں کہہ سکتے کیوں کہ وہ بااثر ہیں۔ اسمبلیوں میں بیٹھے بہت سے افراد، سیاسی پارٹیاں اور حتیٰ کہ مذہبی ٹولہ بھی اس کے قاتلوں کی پشت پناہی میں مصروف ہے۔
ہم تو ڈیرہ اسماعیل خان کی اس بچی کو بھی انصاف نہ دلا سکے جس کو گاؤں کے سامنے درندوں نے برہنہ پھرایا ۔ اور نہ ہی ہم ان درندوں کا کچھ بگاڑ سکے جنہوں نے قصور میں ہی بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی اور ان کی ویڈیوز بنا کر والدین کو بلیک میل کرتے رہے۔ ہمیں انہیں سزا نہیں دے سکتے کیوں کہ وہ بااثر اور حکومتی پشت پناہی رکھتے ہیں۔
زینب ہم تمہیں اس معاشرے میں کیسے انصاف دیں جہاں تمہارے ساتھ ہوئی اس بربریت کے بعد تمہاری لاش کو تمہارے بھائی کے حوالے کرنے والا ایس ایچ او اور او ایس ڈی تمہارے بھائی سے یہ کہہ رہا تھا کہ اس سپاہی نے تمہاری لاش ڈھونڈی ہے لہذا اسے دس ہزار روپے انعام دو۔ ہمیں بتاؤ کیا ہم تمہیں انصاف دے سکیں گے جب کہ تمہارے ضلع کا معطل ڈی پی او لاہور کے صحافیوں کے استفسار پر یہ کہہ رہا تھا کہ معمول کا واقعہ ہے بس سوشل میڈیا نے زیادہ اچھال دیا ہے۔ بتاؤ جب ایسے بے حس اور بے غیرت ہمارے افسران ہوں گے تو ہم تمہیں انصاف دے پائیں گے؟ یہ بھی چھوڑو اور یہ دیکھو کہ ہمارے صوبے کا وزیرقانون جو ماڈل ٹاؤن میں چودہ بے گناہ انسانوں کے قتل کا ڈائریکٹ ذمہ دار ہے وہ کہہ رہا ہے کہ تمہارے قتل کی بات کر کے میڈیا عوام کو مشتعل کر رہا ہے اتنی بات ہے نہیں تو بتاؤ ہم تمہیں اس معاشرے میں کیسے انصاف دے سکیں گے؟ بتاؤ ہم تمہیں کیسے انصاف لے کر دیں کہ تمہارے حق میں احتجاج کرنے والے نہتے شہریوں پر بھی گولیاں برسائی جائیں اور انہیں بھی قتل کر دیا جائے؟
زینب بیٹا معاف کرنا ہم تمہیں انصاف نہیں دلا سکتے۔ ہم صرف چار دن سوشل میڈیا پر شور کریں گے۔ جسٹس فار زینب کے ہیش ٹیگ استعمال کریں گے اور پھر تمہیں بھول جائیں گے۔ کیونکہ ہمارے لئے مریم نواز کا ٹویٹ، نواز شریف کا عدلیہ مخالف بیان، عمران خان کی مبینہ شادی، سیاستدانوں کے آپسی اتحاد زیادہ دلچسپ موضوع ہیں۔ ایسے میں ہم تمہیں کیسے انصاف دلائیں۔ اس لئے ہمیں معاف کر دو۔
پیشے کے لحاظ سے اکاؤنٹنٹ ہیں۔ لکھنے کا شوق ہے ۔ دوستی کرنا ان کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ سوشل ویب سائٹس سے کافی اچھے دوست بنائے جنہیں اپنی زندگی کا سرمایہ کہتے ہیں۔ قلم کار ان کا خواب ہے اور اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے انہوں نےبہت محنت کی ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn