اس ورلڈ کپ سے پہلے چھ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ ہو چکے ہیں۔ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے دلچسپ حقائق اس ٹورنامنٹ کو مزید دلچسپ بناتے ہیں۔ تیسرے ورلڈ کپ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ کوئی بھی ایشین ٹیم فائنل میں نہ پہنچ سکی۔ پہلے دونوں ورلڈ کپ میں فائنلسٹ ٹیمیں ایشین تھیں۔ پہلی بار پاکستان انڈیا مدمقابل تھے اور انڈیا جیت گیا۔ دوسری بار پاکستان نے سری لنکا کو شکست دی اور ورلڈ چیمپئن بن گیا۔ دونوں بار دو دو نان ایشین ٹیموں نے سیمی فائنل تک کوالی فائی کیا لیکن وہیں ہمت ہار گئیں۔ تیسرے ورلڈ کپ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ دوسرے ورلڈ کپ کی دونوں فائنلسٹ ٹیمز کو انگلینڈ اور آسٹریلیا نے سیمی فائنل میں ہرایا اور ایشین ٹیمز کو فائنل میں پہنچنے سے روکا۔ چوتھے ورلڈ کپ میں سری لنکا پھر فائنل میں تھی۔ کوشش تو کی کہ دوسری بار فائنل میں پہنچنے پر ٹائٹل اپنے نام کرے لیکن ویسٹ انڈیز ان کے راستے میں رکاوٹ بن گیا۔ یوں پہلے دو مسلسل ایشین ٹیموں کے چیمپئن رہنے کے بعد اگلے دو ورلڈ کپ نان ایشین ٹیموں کے ہاتھ لگے۔ پہلے تینوں ورلڈ کپ کے سیمی فائنلز کی ایک اور حیران کن مماثلت یہ تھی کہ دونوں سیمی فائنلز میں ایک ٹیم ایشین اور ایک نان ایشین ہوتی تھی۔ لیکن چوتھے ورلڈ کپ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ ایشین ٹیم کا مقابلہ ایشن ٹیم سے اور نان ایشین ٹیم کا مقابلہ نان ایشین ٹیم سے تھا۔ پاکستان کو ہرا کر سری لنکا فائنل میں پہنچی تھی اور ویسٹ انڈیز نے آسٹریلیا کو پچھاڑ کر فائنل میں جھنڈے گاڑے تھے۔۔ لیکن چار ورلڈ کپ تک یہ بات حیران کن تھی کہ پاکستان وہ واحد ٹیم تھی جس نے چاروں ورلڈ کپ میں سیمی فائنل کھیلے تھے ۔ جس میں سے پہلے دو میں وہ فائنل کھیلی تھی اور دوسرا ورلڈ کپ تو جیتا بھی۔ اور چوتھا ورلڈ کپ وہ پہلا ورلڈ کپ تھا جس میں میزبان ملک سیمی فائنل تک پہنچا ہو۔ورنہ اس سے قبل میزبان ٹیم سیمی فائنل تک پہنچنے میں ناکام رہتی تھی۔
پانچویں بار ورلڈ کپ بنگلہ دیش کی میزبانی میں ہوا۔ اس بار بھی دونوں ٹیمیں فائنل میں ایشین ہی تھیں۔ انڈیا اور سری لنکا فائنل میں ایک دوسرے کے مدمقابل تھیں جو دونوں سیمی فائنلز میں نان ایشین ٹیمز کو ہرا کر فائنل میں آئی تھیں۔ اس فائنل مقابلے میں سری لنکا وہ پہلی ٹیم بنی جس تیسری بار فائنل تک رسائی حاصل کی۔ اس سے پہلے دو دو فائنلز کھیلنے میں یہ پاکستان کے برابر تھی۔ تیسری موقع ملنے پر سری لنکا نے فائنل ہارنا مناسب نہ سمجھا اورانڈیا کو چھ وکٹوں سے ہرا کر ورلڈ کپ اپنے نام کیا۔ یوں پانچ ورلڈ کپ مقابلوں کے بعد ایشیا فائنل جیتنے میں نان ایشین کے سامنے تین کے مقابلے دو سکور سے آگے تھا۔ حسبِ روایت پانچویں ورلڈ کپ میں پھر میزبان ٹیم سیمی فائنلز تک بھی نہ پہنچ پائی۔ اور ایسا ہوتا تو ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے دلچسپ حقائق کوئی اور رخ اختیار کرلیتے۔
2016 کے ورلڈ کپ میں میزبان ملک بھارت تھا۔ اور میزبان کے سیمی فائنل میں نہ پہنچنے والی روایت اس بار پھر ٹوٹ گئی اور انڈیا سیمی فائنل میں پہنچ گیا۔ پہلی بار ایسا ہوا کہ سیمی فائنل کھیلنے والی ٹیموں میں فقط ایک ٹیم ایشیا کی تھی اور باقی تینوں نان ایشینز۔ اور چھ ورلڈ کپ مقابلے میں دوسری بار ایسا ہوا کہ فائنل میں کوئی ایشین ٹیم موجود نہ تھی۔ اس مرتبہ مقابلے میں چوتھے ورلڈ کپ کی چیمپین ویسٹ انڈیز نے تیسرے ورلڈ کپ کی چیمپین انگلینڈ کو ہرا کر پہلی ٹیم ہونے کا اعزار حاصل کیا جس نے دو مرتبہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ جیتا ہو۔
اس کے بعد اب حالیہ ورلڈ کپ 2021 انڈیا کی میزبانی میں متحدہ عرب امارات میں کھیلا جا رہا ہے۔ گوکہ ابھی سیمی فائنلسٹ ٹیموں کا باضابطہ فیصلہ نہیں ہوا لیکن جو صورتحال پوائنٹس ٹیبل پر ہے اس کے حساب سے میزبان ملک کا پھر سیمی فائنل میں پہنچنے کا چانس نہ ہونے کے برابر ہے۔ یوں سات میں سے پانچویں مرتبہ میزبان ملک سیمی فائنل کھیلنے سے محروم رہے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ یوں بھی محسوس ہو رہا ہے کہ دوسری بار ایسا ہو گا کہ سیمی فائنل میں چار میں سے فقط ایک ایشین ٹیم پاکستان ہی ہوگی۔ باقی تین ٹیمیں نان ایشین ہوں گی۔
گروپ 1 سے انگلینڈ کے ساتھ زیادہ چانس آسٹریلیا کا سیمی فائنل میں پہنچنے کا ہے۔ ایشین ٹیموں میں سے بنگلہ دیش تو باہر ہو چکی کیوں کہ اپنے پانچ میں سے تین میچ وہ ہار چکی ہے۔ دوسری ایشین ٹیم سری لنکا ہے جس نے تین میں سے ایک میچ جیتا ہوا ہے۔ لیکن اسے سیمی فائنل میں پہنچنے کے لیے نہ صرف گروپ کے ٹاپ پر موجود انگلینڈ کو ہرانا ہو گا آج بلکہ ویسٹ انڈیز کو بھی ہرانا ہوگا۔ ویسٹ انڈیز کو وہ شائد ہرا بھی لے لیکن مضبوط ٹیم انگلینڈ کے خلاف جیت نظر نہیں آتی۔ ساتھ ساتھ رن ریٹ کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا ۔ کیونکہ اس کا مقابلہ رن ریٹ پر پھر آسٹریلیا اور ساؤتھ افریقہ سے ہوگا۔ اس لیے غالب امکان یہی ہے کہ اگر آسٹریلیا سیمی فائنل میں نہ پہنچا تو ساؤتھ افریقہ جائے گا۔ لیکن آسٹریلیا کا مقابلہ گروپ کی آخری دو ٹیموں بنگلہ دیش اور ویسٹ انڈیز کے ساتھ ہے جبکہ دوسری طرف ساؤتھ افریقہ کا گوکہ ایک مقابلہ آخری پوزیشن پر براجمان بنگلہ دیش کے ساتھ ہے لیکن دوسرا انتہائی اہم مقابلہ بالکل پہلی پوزیشن پر براجمان انگلینڈ کے ساتھ ہے۔ ساؤتھ افریقہ کو سیمی فائنل کی ٹکٹ پکی کرنے کے لیے نہ صرف دونوں میچوں میں کامیابی حاصل کرنا ہوگی اس کے ساتھ ساتھ رن ریٹ پر بھی نظر رکھنی ہو گی۔ اگر دونوں مقابلے جیت لیے تو فیصلہ نیٹ رن ریٹ پر جا سکتا ہے جوکہ اس کا آسٹریلیا کی نسبت فی الحال بہتر ہے۔
دوسری جانب اگر انڈیا کو سیمی فائنل کی دوڑ میں رہنا ہے تو اسے اگر مگر کے بہت لمبے سلسلے درکار ہیں۔ اس کے مقابلے میں افغانستان اپ سیٹ کر کے زیادہ بہتر پوزیشن پر ہے۔ افغانستان کے دو میچ جو باقی ہیں وہ میزبان ملک انڈیا اور نیوزی لینڈ کے ساتھ ہیں۔ اگر افغانستان ان میں سے کسی ایک ملک کو بھی اپ سیٹ کرتے ہوئے ہرا دیتا ہے تو سیمی فائنل کا مضبوط امیدوار ہو سکتا ہے۔ لیکن سیمی فائنل کے لیے پھر بھی اس کا مقابلہ نیوزی لینڈ سے ہو گا جس نے اگلے تین میں سے دو میچز ان ٹیموں کے خلاف کھیلنے ہیں جن سے افغانستان ایک بڑے مارجن کے ساتھ جیت کر بہترین رن ریٹ کے ساتھ گروپ میں دوسری پوزیشن پر موجود ہے۔ اس لیے نیوزی لینڈ کو اپ سیٹ شکست دینا افغانستان کے لیے زیادہ سود مند ثابت ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ سب مفروضے ہی ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس لیے غالب امکان یہی ہے کہ گروپ 2 سے دوسری سیمی فائنل کے لیے کوالی فائی کرنے والی ٹیم نیوزی لینڈ ہو گی۔
اس سب کے ساتھ ساتھ پاکستان وہ واحد ٹیم ہو گی جو سات میں سے پانچویں بار ورلڈ کپ کے سیمی فائنل کا حصہ ہو گی۔ فی الحال وہ چار چار بار سیمی فائنل کھیلنے کے اعزاز میں سری لنکا اور ویسٹ انڈیز کے برابر کھڑی ہے۔ آخری تین ورلڈ کپ کی سیمی فائنل کا حصہ ٹیم ویسٹ انڈیز اس مرتبہ شدید مشکلات کا شکار ہو کر سیمی فائنل کی دوڑ سے تقریباََ باہر ہے۔ یوں وہ پاکستان اور سری لنکا کے مسلسل چار مربتہ سیمی فائنل کھیلنے کے اعزاز میں بھی شریک ہونے سے محروم ہو گئی ہے۔ اور سری لنکا بھی پانچویں بار سیمی فائنل میں پہنچنے سے محروم رہے گی۔ یوں پاکستان کو یہ اعزاز حاصل ہو جائے گا کہ سات میں سے پانچویں بار وہ سیمی فائنل کھیلے گی۔ اگر سیمی فائنل میں پاکستان جیت گیا تو تین فائنل کھیلنے والی سری لنکا کے برابر آ جائے گا۔
گزشتہ ورلڈ کپ مقابلوں پر نظر ڈالی جائے تو چھ مقابلوں میں ایشین ٹیمز کو پانچ کے مقابلے سات دفعہ فائنل کھیلنے کا اعزا ہے۔ اب دیکھتے ہیں ساتویں ورلڈ کپ میں دونوں نان ایشین ٹیمیں فائنل کھیل کر یہ مقابلہ برابر کرتی ہیں یا مقابلہ پانچ سات سے بڑھ کر چھ آٹھ کا ہو جائے گا۔ اس کے لیے ہمیں چند دن مزید انتظار کرنا پڑے گا۔
ساتھ ہی ساتھ چھ میں سے چار بار ایشین ٹیم نے فائنل کھیلا ہے اور فقط دو بار ایسا ہوا کہ ایشین ٹیم فائنل نہیں کھیلی۔ دیکھتے ہیں ساتویں بار نان ایشین ٹیمیں سیمی فائنل کی اب تک کی اکلوتی امیدوار ٹیم پاکستان کو فائنل میں پہنچنے سے روک پاتے ہیں یا نہیں۔ اور ایشین اور نان ایشین ٹیمز میں ورلڈ کپ چیمپین کا مقابلہ تین تین سے برابر ہے ۔
میزبانی کے حوالے سے بات کی جائے تو پہلے تین ورلڈکپ کے میزبان نان ایشین ممالک تھے۔ اس سے اگلے چار ورلڈ کپ ایشین ٹیمز کی میزبانی میں ہوئے۔ جبکہ اگلا ورلڈ کپ آسٹریلیا کی میزبانی میں کھیلا جائے گا۔ یوں فی الحال میزبانی میں بھی ایشیا کو تین کے مقابلے چار سے برتری حاصل ہے۔ دیکھنا یہ ہو گا کہ مستقبل میں اس ایونٹ کے ہونے سے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے دلچسپ حقائق نیا موڑ لیتے ہیں یا یہی روش برقرار رکھتے ہیں۔


پیشے کے لحاظ سے اکاؤنٹنٹ ہیں۔ لکھنے کا شوق ہے ۔ دوستی کرنا ان کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ سوشل ویب سائٹس سے کافی اچھے دوست بنائے جنہیں اپنی زندگی کا سرمایہ کہتے ہیں۔ قلم کار ان کا خواب ہے اور اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے انہوں نےبہت محنت کی ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn