پاکستان میں لیفٹ کا ایک بڑا حصّہ عام طور پہ اور پنجابی لیفٹ کا غالب عنصر خاص طور پہ معشیت کی بدحالی میں حکمران جماعت مسلم لیگ نواز کے کردار کو بے نقاب کرتا نظر نہیں آیا۔بلکہ اس نے لاہور جیسے مرکز میں پانچ سالوں میں نہ کوئی بڑا سٹینڈ لیا اور نہ ہی کسی تحریک کو کھڑا کرتا نظر نہیں آیا۔
پنجاب کے شہری علاقوں خاص طور پہ بڑے میٹروپولٹن شہروں لاہور، فیصل آباد، گوجرانوالہ، راولپنڈی میں اس نے مسلم لیگ نواز کی مناپلی کو چیلنج کرنے، اس کی دائیں سمت کی معشیت اور سروس سیکٹرز کے اندر اختیار کی جانے والی پالیسیوں پہ کھل کر کوئی سٹینڈ لینے کی کوشش نہیں کی۔
اگر اس نے پنجاب کے بڑے شہروں میں ورکنگ کلاس کی سیاست کے گرد اپنی جدوجہد کو استوار کیا ہوتا اور پنجاب حکومت کی تعلیم و صحت سمیت درجنوں شعبوں میں ورکنگ کلاس دشمن پالیسیوں اور اقدامات کے خلاف اپوزیشن کی ہوتی تو آج پنجاب میں دائیں بازو کی سیاست بہت حد تک کمزور ہوجاتی۔
لیکن پنجاب میں عام طور پہ اور لاہور میں خاص طور پہ لیفٹ کے بڑے بڑے ناموں نے خود کو لبرل اشراف کا مقتدی بنایا اور الٹا مسلم لیگ نواز کو اینٹی اسٹبلشمنٹ ، لبرل اور لبرل ڈیموکریسی کا علمبردار ثابت کرنے کی ٹھان لی۔ایسے موقعہ پہ لیفٹ کے جس ساتھی نے ان کی غلطی کی نشاندہی کرنے کی کوشش کی الٹا اس کے خلاف بھی لبرل بورژوازی کے ساتھ مل کر محاذ قائم کرلیا۔
دیکھا جائے تو لاہور مرکز پہ سب سے زیادہ لبرل بورژوازی کے موقعہ پرست پوزیشنوں کو عوامی ورکرز پارٹی کی قیادت نے سپورٹ فراہم کی اور لیفٹ سے عوامی پرتوں کو بے گانہ کیے جانے کے پروسس کو تیز کرنے میں مدد فراہم کی
پنجاب حکومت نے نجکاری کرنے اور ملازمتوں میں بھٹو دور سے آنے والی اصلاحات کے خلاف خودمختار کمپنیاں قائم کرنے کا ڈھونگ رچایا۔تعلیم اور صحت کے اداروں کی عملی نجکاری خودمختاری کے نام پہ کرڈالی اور اس دوران اربوں روپے کی کرپشن کی گئی۔لیکن لیفٹ گروپوں نے اس دوران سرکاری و غیر سرکاری شعبوں میں ورکنگ کلاس کی مشکلات بڑھ جانے سے پیدا شدہ مسائل پہ کوئی تحریک کھڑی کرنے کے پاکستان میں سرمایہ داری اور آزاد منڈی کی معشیت اور عمل میں نواز شریف کے ساتھ کھڑے ہونے والے ‘لبرل اشراف’ کے ساتھ کھڑا ہونا پسند کیا۔
یہ ساری لڑائی ‘ملائیت بمقابلہ روشن خیالی’ یا زیادہ کیا تو ‘اسٹبلشمنٹ بمقابلہ سیاست دان’ جیسی تقسیم کے گرد ہی لڑتے رہے ہیں۔
یہ لاہور کے موچی دروازے پہ نواز-شہباز حکومت کی مزدور-کسان دشمن پالیسیوں کے خلاف کوئی جلسہ نہیں کرسکے اور پانچ سالوں میں لاہور میں مختلف شعبوں کے مظلازمین اور اساتذہ نے جتنے احتجاج کیے ان میں ان کی شرکت زیادہ سے زیادہ علامتی رہی ہے۔
لیکن لبرل بورژوازی/سرمایہ دار اور لبرل پیٹی بورژوازی /درمیانہ طبقہ کی سرمایہ دار پرتیں جو نواز شریف کو لبرل اور جمہوری بالادستی کا استعارہ بناکر پیش کرتی رہیں نے جب بھی کوئی پروجیکٹ چلایا یہ اس کے لیے اپنی طاقت سے بڑھ کر مستعد رہی ہیں۔
رجعت پسندی اور مذہبی جنونیت کے خلاف لبرل بورژوازی جو نام نہاد سول سوسائٹی کہلاتی کے منافقانہ اور Selective rags کے ساتھ یہ کھڑی رہی۔ جیسے لیفٹ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن پہ نواز-شہباز کی حامی لبرل بورژوازی کا ساتھ دیا۔ اور ایسے ہی شیعہ نسل کشی کے ذمہ داروں کو بے نقاب کرنے کی بجائے اسے ہمیشہ شیعہ-سنّی مسئلہ بناکر پیش کرتے ہوئے پاکستانی لبرل بورژوازی کی کمرشل مافیائی پرتوں کے موقف کو مضبوط بنایا۔
جی این مغل کا کالم جو مسلم لیگ نواز کے سب سے بڑے حامی میڈیا گروپ کے اردو اخبار میں شایع ہوا ہے۔ اس کالم میں انہوں نے بتایا ہے کہ
حاصل بزنجو جن کے پاس شپنگ اینڈ پورٹ کی وزرات ہے کو علم ہے کہ گوادر پورٹ چین کو پٹے پہ دے دی گئی ہے۔ کن شرائط پہ؟
چین گوادر پورٹ پہ جو خرچہ کررہا ہے وہ قرضہ ہے یا امداد؟
کتنی عمارتیں اور ہوائی اڈے گروی رکھے گئے ہیں؟
پی آئی اے میں خدمات سرانجام دینے کے لیے ویت نام سے عملہ منگوایا گیا۔یہ حشر پی آئی اے کا کیوں ہوا؟
معشیت اگر بہتر ہے تو 98 ارب ڈالر کا قرضہ کیسے چڑھ گیا؟
پنجابی لیفٹ کے غالب حصّے نے معشیت کی بدحالی اور اچکزئی و بزنجو وغیرہ کی موقعہ پرستی کا حال دیکھنے کے باوجود ان کو جمہوریت پسند اور بااصول سیاست دانوں کے طور پہ پروجیکٹ کیا اور ان کی اپوزیشن کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ اور یہی وجہ ہے کہ لاہور جیسے مرکز میں لیفٹ کی سیاست کا منہ مہاندرا زیادہ سے زیادہ لبرل بورژوازی ڈیموکریسی کا ہے یا پھر اخبارات اور میڈیا کے رپورٹرز کی زبان میں یہ ‘ سوشل ورک اور لبرل ورک ‘ ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn