دوران سفر میں پانی پینے سے صرف اس لیے پرہیز کرتی ہوں کیوں کہ پھر واش روم کی حاجت ہوتی ہے۔ اور پاکستان میں پبلک ٹوائلٹس نہ ہونے کے برابر ہیں اور جو ہیں ان کی حالت ناگفتہ با ہے۔ اب انسان اپنا ذاتی ٹوائلٹ تو افورڈ نہیں کر سکتا۔ اس لیے جب تک یہ یقین نہ ہو جائے کہ قرب و جوار میں کہیں واش روم ہو گا میں پانی کو ہاتھ نہیں لگاتی۔ آج بھی ایسا ہی کچھ ہوا سردیوں میں ویسے بھی پانی کم پیا جاتا ہے۔ اور مجھے لمبا سفر کرنا تھا۔ اسکول سے پیاسی نکلی اور منزل تک پہنچنے تک میں بن پانی مچھلی کی طرح تڑپ رہی تھی۔ میاں نے جلدی سے راستے میں کھڑے گنے والے کو گنے کے جوس کا آرڈر دیا۔ میاں صاحب نے ابھی ایک گھونٹ بھرا تھا اور میں ایک ہی سانس میں پورا گلاس پی گئی میاں نے زبردستی اپنا گلاس بھی مجھے پکڑا دیا اور نیا آرڈر دینے کا پوچھا میں نے منع کیا اور گھر کی راہ لی گھر پہنچتے ہی میں نے گلاس بھر کر ایک ہی سانس میں پی لیا۔ کیوں کہ اب واش روم میری دسترس میں تھا کچھ ذہنی اور جسمانی سکون ہوا۔ سارا دن پیاسا رہنا اور ایک ساتھ اتنا سارا پانی پینا بھی صحت کے لیے مضر ہے۔ لیکن اس قوم کو یہ باریک نقطہ سمجھ نہیں آتا افسوس ناک بات یہ ہے کہ اتنے بڑے پاکستان میں پبلک ٹوائلٹس نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اب ہمیشہ آپ موٹروے پر سفر نہیں کر سکتے۔ جی ٹی روڈ پر بھی سفر کرنا ہوتا ہے لے دے کر پٹرول پمپ کے ٹوائلٹس بچ جاتے ہیں اور صفائی کی صورت حال موٹروے اور پیٹرول پمپ دونوں پر ایک جیسی ہی ہے۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں موجود سب سے بڑی سرکاری یونیورسٹی قائداعظم کی لائبریری جو 4 منزلہ اور اپنی طرز کی مختلف لائبریری ہے جہاں طالب علم دور دور سے علم کی پیاس بھجانے، ریسرچ کرنے، سی ایس ایس کی تیاری کرنے آتے ہیں اس عظیم لائبریری کے واش رومز کی حالت زار دیکھ کر آپ کو یقین نہیں آئے گا۔ گراؤنڈ فلور پر موجود واش روم کی مہک گراؤنڈ فلور پر ہر وقت فضا میں موجود رہتی ہے۔ غلطی سے ایک دفعہ ہاتھ دھونے چلے گئی الٹے قدموں واپس بھاگی۔ جگہ جگہ پان کی پیک، گندگی، گندی دیواریں، ٹوٹے ہوے سنک اور ٹونٹیاں۔ دوسرے تیسرے فلور پر موجود واش رومز کی ابتری کا بھی یہی حال ہے۔ یہ بات نہیں ہے کہ صفائی نہیں ہوتی ہو گی۔ صفائی ہوتی ہے مگر استعمال کرنے والوں کی تہذیب کا منہ بولتا ثبوت یہ واش رومز ہیں۔ لائبریری کو چھوڑ کر ڈیپارٹمنٹس کے واش رومز کا بھی یہی حال ہے، کبھی کبھی پانی نہ ہونے کی وجہ سے واش رومز سرکاری اسکول کے ٹوائلٹس کا منظر پیش کرتے ہیں۔
لائبریری کمیٹی کا حصہ ہونے کی وجہ سے میں نے کتنی دفعہ واش رومز کی حالت زار کی طرف توجہ دلانے کے لیے آواز اٹھائی مگر ہمیشہ میری آواز دبا دی گئی کیوں کہ یہ کوئی خاص مسئلہ نہیں ہے۔ تفریحی مقامات پر بھی واش رومز کا یہی حال ہے، مری پتریاٹہ میں ایک دفعہ واش روم کی حاجت ہوئی تلاش کرنے پر ایک بڑی عمارت نظر آئی جس کے باہر ایک مرد اور عورت بیٹھے تھے او ر واش روم جانے کے 20، 20 روپے لے رہے تھے ہمارے بچپن میں یہ قیمت 5 روپے تھی۔ خیر پیسے دے کر واش روم کے اندر گئے اور ناک پر ڈوپٹہ باندھ کر آنکھیں بند کر کے جلدی سے باہر آ گئے، مرتے کیا نہ کرتے اب عورتیں مردوں کی طرح سڑک کنار ے بھی تو نہیں بیٹھ سکتیں۔ اگر روزانہ ہزار بندہ بھی یہ واش روم استعمال کرتا ہے تو بیس ہزار روپے بنتے ہیں جس میں سے 5 ہزار بھی اگر واش رومز کی صفائی پر لگا دیے جائیں تو 15 ہزار منافع بچتا ہے۔
پبلک ٹوائلٹس کی صفائی ہو یا نہ ہو مگر ایک قدر مشترک ہو گی۔ دیواروں پر جا بجا فون نمبرز اور نوجوان نسل کی ذہنی پراگندگی کی عظیم مثالیں ملیں گی اور خوب صورت ڈرائنگ آپ کی آنکھوں کو حیرت زدہ کر ے گی۔
فرائیڈ کے مطابق "اگر بچپن میں ٹوائلٹ ٹریننگ صحیح ڈھنگ، پیار محبت سے نہ دی جائے تو اس کا گہرا اثر بچے کی نفسیات اور شخصیت پر پڑتا ہے”۔ مثال کے طور پر اگر آپ نے بچے کو ڈانٹ ڈپٹ کر ٹوائلٹ ٹریننگ شروع کروائی ہے تو اس کی شخصیت غیر لچک دار ہوگی، تشدد کی طرف مائل اور وہ بڑے ہو کر سگریٹ نوشی بھی کر سکتا ہے، اسی طرح اگر آپ نے لاپراوئی برتی ہے تو لاپراوئی اس بچے کی شخصیت کا حصہ بن جاتی ہے۔ اگر آپ نے دوران ٹریننگ بچے کو خوف زدہ کیا ہے تو بچہ بڑا ہو کر شرمیلا، خوف زدہ اور ڈرا سہما رہے گا ۔ہمارے یہاں پر عمومی طور پر مائیں ٹوائلٹ ٹریننگ میں لاپروائی برتتی ہیں۔ غصہ، چڑچڑاپن، غیر ذمہ داری سے بچے کو ٹوائلٹ ٹریننگ دی جاتی ہے یہی مزاج ہم پڑھی لکھی ماؤں کا بھی دیکھتے ہیں۔ اور وہ یہ بھول جاتی ہیں کہ یہی چھوٹی چھوٹی باتیں مل کر ایک قوم کا مجموعی مزاج بناتی ہیں اور آج ہم پبلک ٹوائلٹس، تعلیمی ادراوں، سرکاری اداروں میں موجود ٹوائلٹس کے استعمال سے یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہماری قوم کتنی مہذب ہے۔
میں تو یہی کہوں گی کہ اگر کسی قوم کے بارے میں یہ جاننا ہے کہ وہ کتنی مہذب اور تمیز دار ہے تو جا کر ان کے پبلک ٹوائلٹس دیکھ لیں، اپنا گھر تو ہر کوئی ہی صاف رکھ لیتا ہے مگر گھر سے باہر آپ کیا عمل کرتے ہیں یہ آپ کے گھر کی تربیت کی نمائندگی کرتا ہے۔ ایک ریسرچ کے مطابق پاکستان میں گردوں کی بیماری کی شرح میں اضافہ پبلک ٹوائلٹس نہ ہونے کی وجہ سے ہو رہا ہے اور اس مرض کی شکار زیادہ خواتین بن رہیں ہیں جو ضبط کرنے کی وجہ سے گردوں کا انفیکشن کروا بیٹھتی ہیں۔ مگر شکریہ نواز شریف کا جس نے میٹرو بس بنوائی اور ہر اسٹاپ پر آپ کو صاف ستھرے واش روم ملیں گے لیکن عوام کی بدتمیزی کی وجہ سے یہ واش روم بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اشفاق صاحب کہتے ہیں ” کسی جگہ تبدیلی لانے کے لیے اگر آپ وہاں پل، اور ہیڈز، پکی سڑکیں، اسپتال ، اسکول بنواتے ہیں تو آپ غلطی پر ہیں کیوں کہ ان سب چیزوں کو استعمال وہی ذہنیت کرے گی جو کہ دیر پا نہیں ہوگی کسی جگہ پر تبدیلی لانے کے لیے پہلے ذہنوں کو، سوچ کو تبدیل کرنا پڑتا "۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn