Qalamkar Website Header Image

پاکستان تحریک انصاف کی ایک تکلیف دہ سچائی

31 اکتوبر 2011 کو تحریک انصاف کا انقلابی نظریہ پاکستان کی گلیوں میں ابھر کر سامنے آیا۔ لیکن پھر کچھ ناقابل بیان واقعات ہوئے۔ اپنے پیغام کے ذریعے عوام کی ڈھیروں حمایت کے بعد پی ٹی آئی نے اپنے سیاسی نظریات سے ہٹ کر چلنا شروع کر دیا۔ اب جب ووٹ دینے والے لوگوں کو مطمئن کر لیا گیا تھا کہ ہم باقی جماعتوں سے مختلف ہیں۔ ہم اس لوئر مڈل کلاس اور مڈل کلاس کی نمائندگی کرتے ہیں جن کو ووٹ دینے سے محروم رکھا جاتا ہے۔ تب ہم نے دوسری سیاسی جماعتوں سے مفادپرستوں کو شامل کرنا شروع کر دیا۔ لیڈرشپ نے محسوس کیا کہ یہ نمائندے 2013 کا الیکشن جیتنے کے لیے ضروری ہیں۔وہ الیکشن جو سپورٹ کے باوجود ہم اندرونی اختلافات کی وجہ سے ہار گئے۔

تا ہم پارٹی کے وفادار لوگ عمران خان کو سپورٹ کرتے رہے کیونکہ اس نے مسلسل یقین دلایا تھا کہ ہم شوکت خانم میموریل کینسر ہاسپٹل کی طرح پی ٹی آئی کو بھی ایک ایسا ادارہ بنائیں گے کہ آنے والی نسلوں تک چاہے کوئی بھی آئے اس کی بنیادی اقدار کو تبدیل نہ کر سکے۔

آج پی ٹی آئی مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی سے کہیں زیادہ اپنے وجود کو لے کر خطرے میں ہے۔ اس کا مستقبل صرف ایک انسان کے مقدر کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ قبل الذکر دونوں پارٹیاں چل سکتی ہیں کیونکہ ان کو چلانے والے موروثی لوگ ہیں۔ جبکہ یہ سب، خاص کر جمہوری تو نہیں ہے، کسی سسٹم کا نہ ہونا ہی پی ٹی آئی کی جلد از جلد تباہی کا سبب ہو گا۔ ایوب خاں کی کنوینشنل مسلم لیگ اور مشرف کی بادشاہ پارٹی کی موجودہ حالت کی طرح پی ٹی آئی بھی انہی کے رستے پر چلی جائے گی۔

اس ادارہ کو بنانے کی نااہلی نے پورے پاکستان میں پارٹی ورکروں کو بری طرح مایوس کیا ہے۔ پنجاب میں پیپلز پارٹی اور سندھ میں ایم کیو ایم کے زوال سے پیدا ہونے والے خلا کو پُر کرنے میں مسلسل ناکامیوں نے معاملات کو مزید بگاڑا ہے۔ بہت سارے موقعوں پر جو خدا کی عنائیت، لوگوں اور اسٹیبلشمنٹ نے مہیا کیے ہیں، پی ٹی آئی اپنی وہ طاقت کھو چکی ہے۔ جو اسے متحرک کیے ہوئے تھی۔ تاریخ،  سیاست اور لوگ شاز ہی اس قدر وسیع مواقعے کسی کو مہیا کرتے ہیں۔ میں یہ سب دیکھ کر بہت مایوس ہوں کہ کس طرح ہم اپنے مواقع ضائع کر رہے ہیں۔

یہ بہت مضحکہ خیز ہے کہ قیادت، جس نے اپنی حالیہ سیاسی حکمت عملی سپریم کورٹ کے تقدس پر بنائی ہے۔ بہت حد تک اپنے پارٹی آئین کو ہی نظر انداز کر دیا ہے۔ آفاقیت کا نظریہ کہیں کھو گیا ہے۔ انہوں نے نہ صرف ایک بلکہ دو چیف الیکشن کمشنرز کو آزاد اور شفاف انٹرا پارٹی الیکشنز کے نفاذ کو بنیاد بنا کر نکالا ہے۔ پارٹی میں قانون اور جمہوریت کے نفاذ میں مسلسل ناکامی نے پارٹی کے اتحاد اور نظم وضبط کو تباہ کر دیا ہے، جو کہ کسی بھی ایسی تنظیم جو قوم کو جمہوری بنانے کے بارے میں پر امید ہو کے لیے لازمی ہے۔

یہ بھی پڑھئے:  خودکشی کریں یا بغاوت؟

قانون کی اس افسوسناک غیر موجودگی میں پی ٹی آئی کے "اپنے "جھولی چکوں” نے پارٹی کی قیادت اپنے ہاتھ میں لے کر اسے کروڈ پتی لوگوں کی پارٹی بنا دیا ہے۔ ٹکٹ کی فراہمی سے لے کر پارٹی عہدوں تک سب فیصلے، ان بنیادی جمہوری اصولوں کو پس پشت ڈال کر، جس کی بنیاد پر پارٹی بنی تھی، پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کو ربر سٹیمپ کی طرح استعمال کرتے ہوئے بس ایک گروپ سے ہی طے کرتا ہے۔ یہ کہنا غیر ضروری ہے کہ عمران خان جن پر بھروسہ کر رہے ہیں یا جن بنی گالا کے چوکیداروں کی طرف رغبت ظاہر کر رہے ہیں وہ پارٹی کے اندر وفاداریوں کے لیے بہتر نہیں ہو گا۔

عمران خان کو یہ محسوس کرنا چاہیے کہ کروڑ پتی پتیوں نے ہماری تحریک جو کہ انصاف کے لیے تھی ،اس کو پٹری سے اتار دیا ہے۔ ہم اب کسی نظریے پر عمل نہیں کر رہے۔ اب اصل طاقت پیسے اور اقتدار کی طاقت ہے۔ ہم میں سے زیادہ تر جنہوں نے پارٹی کی بنیاد رکھی نکال دیے گئے، ایک طرف کر دیے گئے یا پھر مر گئے جبکہ دوسروں نے قیادت سنبھال لی۔ بچ جانے والے وہ دولت مند مفاد پرست اور کیمپ فالور یا فوج پرست لوگ ہیں۔ یہ سب ان کے لیے تکلیف دہ ہے جنہوں نے پارٹی کے اصولوں کے لیے خون پسینہ اور آنسو بہائے ہیں ۔ یہ سمجھنے کے لیے ذہین ہونا ضروری نہیں کہ جب نئی سیاست پرانی سیاست کی جگہ لے لے تو پرانی سیاست ختم ہو جاتی ہے۔

اگر کوئی یہ کہے کہ الیکٹبلز پارلیمنٹ میں زیادہ سیٹیں جیتنے کے لیے ناگزیر برائی ہیں تو بھی ان کو پارٹی کا چہرہ بنانے کی کوئی عقلی دلیل نہیں ہے۔ بنی گالا میں بیٹھ کر خالی پلان بنانے کی بجائے ان مفاد پرستوں کو اپنے حلقے میں جا کر ڈلیور کرنا چاہیے۔ پارٹی کے تحفظ اور پارٹی اقدار کو بیان کرنے کے لیے ان لوگوں کو ہونا چاہیے جو پارٹی کے لیے محنت کرتے رہے ہیں۔

آخر کار ووٹروں کو یہ یقین دلانا مشکل ہے کہ ہم کسانوں کے حقوق کا تحفظ کریں گے۔ جب ہماری اپنی پارٹی شوگر مافیاکی جانب سے چلائی جا رہی ہو۔ یا یہ کہنا کہ ہم کرپشن نوے دن میں ختم کر دیں گے ناممکن ہے جب حالیہ سینٹ الیکشن میں ہمارے پارٹی ایم پی ایز دوسری پارٹیوں کے لوگوں سے زیادہ بک جائیں۔ یا ہم کہیں کہ ہم موروثی سیاست کا خلاف ہیں جب کہ ہم عدالت سے بدنام ہوئے لوگوں کی آل اولاد کو پارٹی کے نمایاں وارث کے طور پر حلقے میں بھیجیں۔

یہ بھی پڑھئے:  محمد مرتضی، ہزارہ شیعہ کی مظلومیت کا عکاس

خاص طور پر ہم کون ہوتے ہیں لوگوں کو یہ یقین دلانے والے کہ ہمارے پاس مستقبل کے لیے اہم ایجنڈا ہے۔ جب ہم اپنے نوجوانوں کو ہمت دے رہے ہیں کہ وہ ہجوم بن کر کسی بھی وقت اس شخص کی تضحیک کریں جو سپریم لیڈر اور اس کی مقدس گائے کے خلاف آواز اٹھائیں یا رائے رکھیں۔ جناح کے پاکستانی ویژن کو نارتھ کوریا کی تبدیلی میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔ یا کیا گیا تھا؟

ہمیں ایک ادارہ بنانا چاہیے تھا لیکن افسوس اب ہمارے پاس شخصیت پرستی ہے۔ یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ لاکھوں پاکستانیوں کے خواب چکنا چور ہوئے ہیں۔ اگر کسی معجزے کے ذریعے ہم جیت بھی جائیں تو کس حیثیت سے ہم ان اخلاقی بنیادوں کا دعویٰ کریں گے جو 2011 میں ہمارے اچانک بلند ہونے کی بنیاد بنے تھے۔

اصل میں اب پی ٹی آئی کی تخت نشینی کے لیے جو بچا ہے وہ پردے کے پیچھے بیٹھے لوگوں کا دھوکا ہے۔ ہماری موجودہ ساکھ کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ ہی توقع کی جاتی ہے کہ وہ مرکزی حیثیت خود رکھیں گے۔

عمران خان اکثر آئن سٹائن کا حوالہ دیتے ہوئے جنون کی تعریف یوں کرتے ہیں کہ "بار بار ایک ہی کام کر کے مختلف نتائج کی توقع رکھنا”۔ افسوس آئن سٹائن اب یہاں موجود نہیں جو اسے بتائے کہ اس سے پہلے کہ وہ اپنے اس ویژن کے ساتھ منسلک ہو جس نے لاکھوں لوگوں کو متحرک کیا تھا، پی ٹی آئی کو مزید کتنے انتخابات میں ہار برداشت کرنا ہو گی۔

اب آئن سٹائن اپنی قبر میں کروٹیں لے رہا ہے، ہمارے مخالف خوشیاں منا رہے ہیں اور پی ٹی آئی کی قیادت بنجاروں کی دھنوں پر بھنگڑے ڈال رہی ہے۔ یا غالباً وہ اندھیرے میں لڑکھڑا رہے ہیں۔

محترمہ فوزیہ قصوری کا یہ آرٹیکل ایکسپریس ٹریبیون میں 27 مارچ کو شائع ہوا جسے قلم کار ٹیم ممبر بلال حسن بھٹی نے قلم کار کے قارئین کے لئے اردو میں ترجمہ کیا ہے۔

 

حالیہ بلاگ پوسٹس