انسان کی شخصیت میں گھر کے ماحول کے ساتھ ساتھ اسکول کے ماحول کا بھی بہت اثر ہوتا ہے- ہمارے یہاں کے زیادہ تر عوام کے بچوں کی اکثریت بشمول راقم جب سرکاری اسکولوں میں داخل ہوتی ہے تو وہاں کے ماحول کی جو مہر ان معصوم ذہنوں کے دلوں پر نقش ہوتی ہے تو اس کے نشان ان کی عملی زندگی میں بھی نمایاں رہتے ہیں- زیادہ تر غریب گھرانوں کے بچوں کے ساتھ ان سرکاری اسکولوں میں سلوک بھی انتہائی غیر منصفانہ ہی ہوتا ہے- جب یہ بچے نسبتا” خوشحال اور اسکول اساتذہ سے ٹیوشن افورڈ کر سکنے والے بچوں کو وی آئی پی "پروٹوکول” ملتا دیکھتے ہیں تو شدید احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں اور ان کے ذہنوں پر اس تفریق کے انتہائی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں-
ایسے ماحول میں غربت کے مارے بچوں نے کیا خاک پڑھنا ہوتا ہے- ان معصوم ذہنوں میں شاید یہی بات دماغ میں بیٹھ جاتی ہے کہ کسی طرح میٹرک/ ایف-اے کر لیں تاکہ چھوٹی, موٹی نوکری ڈھونڈ کر اپنے والدین کا سہارا بن جائیں۔ سرکاری اساتذہ کی طرف سے اس تفریقانہ اور غیر منصفانہ سلوک کو یہ بچے چُپ کرکے دیکھتے رہتے ہیں اور آنکھوں کے ہوتے ہوئے بھی اندھے بن کر وقت گزارتے ہیں- ان سرکاری اسکولوں کے اساتذہ میں سے شاید دو یا تین ہی ایسے ہوتے ہوں گے جو اسٹوڈنٹس کو سزا دینے کے حق میں نہیں ہوں- شاید یہی وہ چند اساتذہ ہیں جو ان بچوں کو پیار اور زبان سے سمجھاتے ہوں گے وگرنہ باقی سارے تو گدھوں کی طرح مار کر اپنی فرسٹریشن ان بچوں پر اتارتے ہیں- راقم کے اسکول اساتذہ میں سے ایک قاری صاحب کے سزا دینے کا طریقہ کچھ اس طرح سے تھا کہ اُنہوں نے جس کو کسی وجہ سے بھی سزا دینی ہوتی تو وہ اُسے اپنے قریب کھڑا کرتے اور کہتے کہ اگر چہرے پر ہاتھ لے کر گئے تو سزا ڈبل ہوجائے گی۔ یا پھر اُن کو جس پر زیادہ غصہ آتا تھا اُس کا چہرہ میز پر ایسے رکھتے کہ ایک گال میز پر ہوتا اور دوسرے گال پر تھپڑ پڑتا- ایک اور بھی اُستاد تھے جو سزا اس انداز سے دیتے تھے کہ یوں لگتا تھا کہ وہ بچوں کو تماشے کے بندر کی طرح تربیت کر رہے ہوں۔ تماشے کے جانوروں کی تربیت کچھ اس طرح سے ہوتی ہے کہ مداری ان جانوروں کو پہلے بہت زیادہ مارتے ہیں, بھوکا رکھتے ہیں اور کئی ہفتے یہ عمل روزانہ کی بنیاد پر جاری رہتا ہے- پھر جیسے جیسے مداری حرکت کرتا ہے یعنی ان کو سکھانے والا حرکت کرتا ہے تو یہ جانور بھی ویسے ہی اُس کی نقل کرتے ہیں۔ خود سے ٹیوشن نہ پڑھنے والے بچوں کو بھی سبق یاد نہ ہونے پر یہ سرکاری استاد ایسے ہی مارتے ہیں- شاید اسی وجہ سے یہ غریب بچے بھی رٹا باز تو بن جاتے ہیں لیکن وہ کیا پڑھتے رہتے ہیں اس کی انہیں کچھ سمجھ نہیں آتی- حد تو یہ ہے سرکاری سکولوں کے یہ استاد نویں کلاس تک کے بڑے بچوں کا بھی پوری کلاس کے سامنے تنسخر اڑاتے ہیں اور کئی دفعہ ضد میں آ کر مارتے بھی ہیں-
ان اساتذہ کو شاید کوئی یہ نہیں سمجھاتا کہ نویں اور دسویں کلاس کے بچوں کی عمر 14 سے 16 سال کے بیچ میں ہوتی ہے- یہ وہ عمر ہوتی ہے جب بچے نوجوانی میں داخل ہو رہے ہوتے ہیں اور پلٹ کر واپس استاد یا ڈانٹنے والے پر جوابی وار بھی کر سکتے ہیں- یا شاید تشدد کرنے والے استاد بچوں کو مسلسل تشدد کے ذریعہ اس حد تک ذہنی طور پر غلام بنا چکے ہوتے ہیں کہ وہ جوتوں, ڈنڈوں سے ہونے والی پٹائی کے باوجود بھی پلٹ کر وار نہیں کرتے مگر یہ ضرور طے ہے کہ یہ بچے ان اساتذہ کے عمل کو بُرا ضرور جانتے ہیں اور ان کے خلاف شدید نفرت پیدا کر لیتے ہیں- تشدد پسند اساتذہ کے ان رویوں کی وجہ سے بچے اس کچی عمر میں مختلف دماغی امراض کا شکار بن جاتے ہیں, سکول سے باہر خوب لڑائی چھگڑے کرتے ہیں اور ہر دوسرے طالب علم کو یا تو مار رہے ہوتے ہیں یا دوسروں سے اپنی دھلائی کروا رہے ہوتے ہیں- ان بچوں کے ان لڑائی جھگڑوں کے شکوے شکایات جب ان کے گھروں تک پہنچتے ہیں تو ان کے مستقبل کے لئے فکرمند محنت کش والدین اپنی معاشی فرسٹریشن کو ان کی مزید پٹائی لگا کر اتارتے ہیں- راقم کے غیر تشدد پسند اساتذہ میں سے ایک اُردو کے اُستاد تھے جن کا کہنا تھا کہ اسکول میں جو لڑکا شریف ہوتا ہے, وہ کالج میں جاکر بہت آزاد ہوجاتا ہے اور جو اسکول میں آزاد ہوتا ہے وہ کالج میں جا کر شریف ہوجاتا ہے۔ یہ تو معلوم نہیں ہے کہ اسکول کے آزاد ٹائپ لڑکوں میں کتنے فی صد کالج جا کر شریف ہو جاتے ہیں لیکن یہ ذاتی مشاہدہ ہے کہ ان غریب اور متوسط طلباء کی اسکول کی زندگی کی ساری احساس کمتری اور تشدد پسند اساتذہ سے نفرت جب کالج کی زندگی میں غصہ کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں تو یہی بچے کالج میں غنڈہ گردی اور اپنے ساتھی طالب علموں کے ساتھ خونخوار جھگڑوں اور پروفیسرز کی تذلیل جیسے شرمندہ کر دینے والے واقعات میں ملوث ہو جاتے ہیں- سرکاری اسکولوں میں گزارے دس سال سے دبے ہوئے اُس احساس محرومی, بدتمیزی اور گالیاں سُن سُن کر بچوں میں جو ذہنی فرسٹریشن پیدا ہوتی ہت تو پھر ان بچوں کی اکثریت اسی کا اظہار ہی کالج میں کرتی ہے-
شاید وقت کے ساتھ ساتھ ان بچوں میں سب نارمل ہو جاتا ہو اور احساس کمتری, تذلیل اور غیر منصفانہ سلوک کے مارے بچے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ٹھنڈے پڑ جاتے ہوں مگر ان میں مستقبل کے لئے کسی اچھی کارکردگی کی امید ختم ہو جاتی ہے- ان بچوں کی اکثریت سی ایس پی مقابلوں میں کامیابی کے خواب نہیں دیکھتی بلکہ ان کی بڑی سے بڑی خواہش بھی کسی سرکاری نوکری کے حصول اور مستقل ذریعہ آمدنی تک ہی محدود ہو کر رہ جاتی ہے- ہمیں سوچنا چاہئے کہ جب ہم اپنی اولاد کو اسکول بھیج رہے ہوتے ہیں تو ہم دراصل اس بات کا فیصلہ کر رہے ہوتے ہیں کہ آگے چل کر اُس نے کیا کرنا ہے اور زندگی میں کیا بننا ہے۔اسکول تو ایک غریب کا بیٹا بھی جاتا ہے جو اب شاید کچھ سو روپے فیس دیتا ہو اور اسکول ایک سی ایس پی افسر کا بیٹا بھی جاتا ہے جو ایک ماہ کی 30 سے 40 ہزار روپے فیس دیتا ہے- ظاہر یے کہ دونوں بچے برابر تو نہیں ہوسکتے لیکن غریب اور متوسط طبقے کے افراد کم از کم اتنا ضرور کر ہی سکتے ہیں کہ اپنے بچوں کے ساتھ ایسا رویہ رکھیں کہ وہ اپنے دل کی بات ان سے کھل کر شیئر کرسکیں۔ آگے بڑھنے کے لئے ضروری ہے کہ غریب اور متوسط طبقات کے افراد اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلوائیں, اپنا پیٹ کاٹیں یا ایک وقت کا کھانا چھوڑ دیں, کوئی حرج نہیں لیکن اگر وہ اپنے بچوں کو اچھی تعلیم اور اچھا ماحول نہیں دے پارہے تو یقین جانیں کہ وہ اپنی اگلی نسلوں پر ظلم کر رہے ہیں۔
بڑے بوڑھے کہا کرتے تھے کہ افسراں دے پُت افسر ای ہوندے نے- شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں سمجھ آ جاتی ہے کہ یہ افسر لوگ طریقہ کار سمجھ جاتے ہیں کہ انہوں نے کیسے اپنے بچوں کو تعلیم دلوانی ہے- غریب کا بچہ کسی طرح سے بھی دماغی طور پر کمزور نہیں ہوتا- صرف اُسے اچھی بنیاد اور اعتماد کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ بنیاد ہی فیصلہ کرتی ہے کہ عمارت کتنی بلندی تک جائے گی۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn