غالباََ دو روز قبل گلبرگ سے جیل روڑ کی طرف جاتے ہوئےنہر کا پل کراس کیا تو آگے ٹریفک جام تھا، میرے موٹر سائیکل کی ہیڈ لائٹ آن تھی، کسی نے بہت زور سے چلا کر کہا ۔۔۔۔۔ اوے لائٹ تے بند کر لے۔۔۔۔ میں نے آواز کی سمت دیکھا تو میری سائیڈ پر قیدیوں کو لے جانے والی پولیس وین موجود تھی جس کے اوپری حصے میں نصب سلاخوں سے درجنوں ہاتھ باہر کی طرف جھانک رہے تھے گویا جیسے وین میں آکسیجن کی کمی ہو اور ان ہاتھوں کے حامل اجسام کے نتھنے ہاتھوں میں پہنچ کر سانس لینے کی ناکام کوشش میں مگن ہوں۔ اک لمحے کے لئے میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی لیکن وین سے موجود کسی شخص نے پھر سے ہنستے ہوئے کہا۔۔۔۔ اوے سٹینڈ چک لے۔۔۔۔ ظاہر ہے وہ سٹینڈ میرا نہیں بلکہ کسی اور موٹر سائیکل سوار کا تھا، مجھے تھوڑی افسردگی ہوئی کہ وین میں قید افراد باہر کی دنیا کو کس قدر اشتیاق سے دیکھ رہے ہیں، تیسرے شخص نے وہاں موجود تمام افراد سے باآواز بلند سوال کر ڈالا۔۔۔۔۔ اوے باہر بجلی آتی ہے یا نہیں ؟۔۔۔۔۔۔۔پاکستانی معاشرے میں یہ سوال اک عام سا سوال ہے لیکن سوال کرنے والا عام نہ تھا اور یہ سوال مجھے جھنجھوڑ گیا۔۔۔۔ وہ یہ شخص وین میں قید تھا اور یہ پوچھ نہیں رہا تھا کہ بجلی آرہی ہے یا نہیں بلکہ وہ یہ بتا رہا تھا کہ جیل میں بجلی ناپید ہوتی ہے۔
اچانک میری نظروں کے سامنے جیل کے اندر قید انسانوں کا منظر گھوم گیا۔ ایک ہی کمرے میں درجنوں افراد کیڑوں مکوڑوں کی طرح قید پڑے ہیں، شدید گرمی میں بجلی غائب ہونے کی وجہ سے انکے جسموں سے پسینے کی نہریں بہہ رہی ہیں اور وہ اس گرمی کا کوئی حل نکالنے سے قاصر ہیں۔ اک آزاد شخص گھوم پھر کر ہوا لے سکتا ہے، کسی سایہ دار درخت کے نیچے بیٹھ سکتا ہے، کسی ندی نالے میں نہا کر گرمی کا اثر کم کر سکتا ہے لیکن قیدیوں کے پاس یہ سہولت موجود ہوتی ہے؟۔۔۔۔۔ جواب تھا نہیں۔۔۔۔۔ کیا ان تمام قیدیوں کو حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق تیار کیا گیا کھانا دیا جاتا ہے ؟ جواب تھا نہیں۔۔۔۔ کیا یہ تمام کے تمام قیدی حقیقت میں مجرم بھی ہیں؟۔۔۔۔۔ جواب تھا نہیں۔۔۔۔۔ میں سوچ میں پڑ گیا کہ اتنا اختیار کسی شخص یا ادارے کو کیونکر دیا جا سکتا ہے کہ وہ ہزاروں لاکھوں افراد سے ان کے شب و روز کا معمول چھین لے؟ ان سے دھوپ یا چھاؤں میں بیٹھنے کی آزادی چھین لے؟ ان سے اپنے دوست احباب سے ملنے کی خوشی چھین لے۔ کئی خواتین اپنے بچوں کے ساتھ جیل کے دروازے پر کھڑی ، رشوت دے کراپنے پیاروں کی صرف ایک جھلک دیکھنے کی خاطر منتیں کررہی ہیں یہ منظر مجھے افسردہ کر گیا۔
انسانی معاشروں میں بھی جیلیں موجود ہوتی ہیں مگر وہاں پاکستان میں موجود اک آزاد انسان سے زیادہ سہولتیں مہیا کی جاتی ہیں۔ اگر کوئی شخص کسی جرم کا ارتکاب کر بھی بیٹھا ہے تو کیا اس سے اس کا انسان ہونے کا حق چھینا جا سکتا ہے؟ اس وین میں موجود اشخاص کے چہرے تو نہیں دیکھ پایا لیکن مجھے لوہے کی دیوار کے پیچھے ان کے حسرت زدہ چہرے اور بے نور آنکھیں دکھائی دینے لگیں، اک شخص سامنے جاتے بچے کو دیکھ کر رو رہا تھا کہ اس کا بچہ بھی بالکل ایسا ہی ہے، وہ بھی اسی طرح سکول سے واپس جا رہا ہوگا۔ اک خاتون کو سٹرک کراس کرتے ہوئے دیکھ کر کسی کے دل سے آہ نکلی ہوگی کہ میری بہن بھی ملازمت سے ایسے ہی واپس جاتی ہوگی، کسی لچکتی کمر کو دیکھ کر کسی منچلے کے دل نے خون کے آنسو روئے ہونگے کہ وجود زن کی اک جھلک دیکھنے کو بھی قید ہونا پڑتا ہے۔ کوئی ٹھنڈا ٹھار شربت دیکھ کر اسے حسرت کی نگاہوں سے دیکھتا ہوگا کہ کاش میں آزاد ہوتا تو اس شدید گرمی میں یہ شربت ضرور پیتا۔ کسی بوڑھے کو اپنے سہارا بننے والے بیٹے کی یاد نے آن گھیرا ہوگا۔ کوئی گاڑیوں کو دیکھ کر رو رہا تھا کہ ہم سے زیادہ خوش نصیب تو یہ لوہے کے ڈبے ہیں جو کم سے کم کھلی فضا میں چل تو سکتے ہیں۔
میں جب بھی کسی جیل کے پاس سے گزرتا ہوں تو خود کو اس جیل کے اندر محسوس کرتے ہوئے سوچتا ہوں کہ ان اونچی دیواروں کے باہر لہلاتے کھیت کیسے دکھتے ہونگے؟ اس موسم میں کونسی فصل ہوگی؟ گندم کے کی ڈالیوں پر گوشہ آچکے ہوں گے؟ آم کے پودوں نے پھول دیے ہونگے؟ سرسوں کے پھولوں کی خوشبو اب کیسی ہوتی ہوگی؟ کیا کوئل آج بھی باغوں میں کوکتی ہوگی ؟ میرے گھر کے راستے پر موجود درخت آج بھی جوان ہونگے؟َ جیل میں قید تمام قیدیوں میں شاید صرف دس فیصد انسان ایسے ہونگے جنہوں نے کوئی بہت بڑا جرم سر انجام دیا ہوگا جبکہ باقی افراد صرف اور صرف غریب اور مجبور لوگ ہوتے ہیں۔ پرچہ کٹ جانے کے بعد تھانوں میں جو افراد پیسے دے کر سودا نہیں کر پاتے صرف وہی جیل کے حقدار ٹھہرتے ہیں ورنہ تو یہاں دہرے قتل کر چکے افراد عیاشی میں مگن ہیں، ریپ کرنے والے، انسانوں کو زنجیروں میں قید رکھنے والے، انکے ہاتھ پاؤں توڑنے والے لگژری گاڑیوں میں گھومتے پائے جاتے ہیں۔
یہ نظام ایسا کیوں ہے؟ کیوں کسی بھی انسان یا ادارے کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی بھی انسان سے اس کے انسان ہونے کا سکون چھین لے؟ میرے حساب سے جیل ایک غیر انسانی جگہ اور نظام کا نام ہے کہ جہاں انسان یا تو بالکل خاموش ہوکر نکلتا ہے یا پھر پہلے سے بڑا مجرم بننے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ میں نے اپنے پیاروں سے ملنے کے لئے ترسنے والی جوان بہنوں کو جیل انتظامیہ کے سامنے برہنہ ہوکر عزت نیلام کرتے دیکھا ہے، جیل میں قید انسان صرف اکیلا ہی قید نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنے تمام گھر والوں کی عزت، غیرت اور آزادی کو بھی قید کر جاتا ہے۔
اس فرسودہ نظام کو بدلنا ہوگا۔ میٹرک اور ایف اے پاس پرچی، رشوت یا سفارش پر بھرتی ہوئے انسان کیسے ہزاروں انسانوں کو جینے کا سبق دے سکتے ہیں؟ کیسے ان کو جرم سے نفرت کرواتے ہوئے معاشرے کا اک مثبت فرد بنا سکتے ہیں؟ تھانہ کلچر، جیل کے ماحول کو بدلنا ہوگا ورنہ کتنی ہی خاموش آنکھیں قید ہوکر چوک میں جاتے آزاد لوگوں سے پوچھ رہی ہوں گی۔۔۔۔ اوے باہر بتی آوندی اے۔۔۔؟
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn