سرمایہ داری نظام شدید ترین بحران کا شکار ہے ایک طرف تو وہ وسائل پر گرفت کے لیے جنگیں لڑ رہا ہے تو دوسری طرف مختلف ملکوں میں تضادات و اختلافات کو ہوا دے کر اسلحہ کے کارخانوں کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ کر کے نئے اتحاد بنا رہا ہے۔ تیسری صورت ملکی وسائل میں کمی اور عوامی مطالبات میں بڑھتے ہوئے اضافہ کی ہے جس کے باعث ان ملکوں کی معیشتیں تباہی اور تنزل کی طرف گامزن ہیں جس کی بنا پر ترقی یافتہ ممالک کی صنعتی کمپنیاں نئی مارکیٹوں کی تلاش پسماندہ اور غریب ملکو کی اقتصادی پالیسیوں پر قابض ہو کر انھیں اپنی معاشی خواہشات کے مطابق استعمال کر رہی ہیں…. لیکن وقت کی تیز ترین رفتار میں ان ملکوں کے محکوم اور مجبور عوام کا اجتماعی شعور حقائق کی تلاش میں ان عالمی اقتصادی پالیسیوں اور سرمایہ دارانہ ترجیحات کی تہہ تک پہنچ کر اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے لگا ہے جس کی بنا پر استحصال کا شکار ملکوں کی حکومتوں اور حکمران طبقوں کے لیے مشکلات کا ایک طوفان اٹھ رہا ہے جس کو ختم کرنے یا پھر اس کا دباو کم کرنے کو ایسے مباحث کو جنم دیا جا رہا ہے جن کا سب سے بڑا ہدف سیاسی نظام ہوتے ہیں…. جیسا کہ ہمارے ہاں پچھلے کچھ عرصہ سے جاری جمہوریت اور جمہوری نظام اور اس کے تقاضوں پر حکمران طبقوں کے نمائندے ہی ایک دوسرے کے خلاف سیاسی محاذ آرائی شروع کیے ہوئے ہیں لیکن افسوسناک صورت حالات تو یہ ہے کہ…. کہیں بھی معاشرتی اور معاشی تبدیلی یا پھر عوام کی بنیادی ضرورتوں اور سہولتوں کی بات نہیں ہوتی۔ بس یہی کہا جاتا ہے کہ
٭ یہ جمہوریت نہیں، اس سے مارشل لا بہتر تھا۔
٭ سیاستدان ناکام ہو چکے ہیں، تمام مسائل کا حل فوج کے پاس ہے۔
٭ موجودہ حکمران کرپٹ اور بدعنوان ہیں صرف ہمیں ہیں جن کی ایمانداری کا تذکرہ آسمانوں پر بھی ہوتا ہے۔
٭ یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی، ورنہ پھر اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔
اس سارے شور شرابے اور ہنگامہ آرائی میں کہیں بھی کوئی معاشی نظام اور اس میں تبدیلی کی بات نہیں کرتا کہیں انسانی مساوات اور دولت کی مساویانہ تقسیم نہ سہی کم از کم عوام کے لیے زندگی کی بنیادی ضرورتوں اور سہولتوں کا کہیں کوئی تذکرہ نہیں۔ کسی کو یہ خیال نہیں کہ روزانہ ایک درجن افراد بے روزگاری، غربت اور مفلسی کی بنا پر زندگی سے ناتہ توڑ لیتے ہیں تو کیوں؟؟ وہ خوش اور مطمئن ہیں ان کے سیکڑوں کنالوں پر پھیلے ہوئے گھر، محفوظ ہیں۔ وہاں چوکیدار بھی ہیں، دیوان بھی۔ گارڈز بھی ہیں اور دربان بھی۔ جو عوام اور ان کے درمیان فاصلہ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
یہ تو عوام ہیں، جو اپنی جہالت اور کم علمی کی بنا پر انہی کو اپنا راہبر و راہنما بنائے ہوئے ہیں انہی سے اپنے مسائل و مصائب سے نجات کی توقع رکھے ہوئے ہیں۔
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
حقیقت و یہ ہے کہ…. عوام کو اسی لیے جاہل اور انپڑھ رکھا جاتا ہے۔ وہ گمراہ ہی رہیں اپنے شعور کے ساتھ حقائق تک رسائی حاصل نہ کر سکیں وہ چوروں، ڈاکوؤں، لٹیروں اور راہنماؤں اور راہبروں کے درمیان تمیز نہ کر سکیں۔
تازہ ترین صورت حالات کا منظر نامہ بھی کچھ ایسا ہے۔ پاناما پیپرز کی برآمدگی پر سب متفق ہیں جیسے چور مچائے شور…. دیکھنا، پکڑنا، بھاگنے نہ پائے، چور چور کا شکور ہے۔ لیکن…. دلچسپ بات ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے نمایندوں میں ’ٹی او آرز‘ پر اتفاق نہیں ہو رہا۔ نہ ہی ہو گا کہ، ہر کوئی اپنے اپنے چور کو بچانے میں مصروف ہے۔ اپنے راہزن کو راہبر بنانے اور منوانے کی کوشش کر رہا ہے۔
ظاہر ہے کون دیوانہ ہے جو خود اپنے گلے کا پھندہ بھی تیار کرے اور پھر مقل کی طرف بھی ائے۔ بات تو ایک دو ماہ کی ہے، پھر نہ وہ ہیجان رہے گا نہ خلجان۔
رات گئی بات گئی۔
یہی اس نظام کا تقاضا ہے اور اس معاشی اور معاشرتی نظام کو محفوظ اور مستحکم رکھنے کی ضرورت یہ جو وقتی بگولا ہے، ختم ہو جائے گا۔ پھر وہی معمول ہو گا اور معمولاتِ زندگی۔
ستم تو یہ ہے کہ…. وہ جو دانش وری کا میک اپ کر کے ٹیلی ویژن کی سکرینوں پر جلوہ افروز ہوتے اور اپنی اپنی خواہشوں کو تجزیہ بنا کر پیش کرتے ہیں اور پھر رات کے اندھیروں میں بھٹک جاتے ہیں، دو دو، تین تین تنخواہیں وصول کرتے ہیں ان کا مقصد بھی عوام کو گمراہ یا حقائق سے دور رکھنا ہوتا ہے۔ کسی خواہش پرست اور خود ساختہ بلکہ اپنے اپنے ادارے کے بنائے ہوئے دانش ور نے یہ نہیں بتایا کہ سب خرابیاں سرمایہ داری نظام کی ہیں جس کی بنیاد ہی کرپشن اور بدعنوانی ہوتی ہے۔ منافع کے لیے کسی نظریے اور کسی اخلاقیات کو ذہن کا حصہ نہیں بنایا جاتا۔ اشیا کی فروخت کے لیے کمیشن اور کک بیکس لازم ہوتی ہیں اور اس میں جتنا بڑا سودا اتنا ہی بڑا کمیشن ہوتا ہے۔ اور یہ کمیشن مجبور اور بے بس عوام حاصل نہیں کرتے یہ کوئی اور مخلوق ہوتی ہے جسے راہبر و راہنما بھی کہا جاتا ہے۔
ہمارے ان خواہش پرستوں نے عوام کو یہ بتانا پسند نہیں کیا۔ سرمایہ دار ملکوں کے ماہرین نے معاشی بحرانوں کا منصوبہ بنا لیا ہے۔ بہت جلد اس پر عملدرآمد شروع ہونے والا ہے۔ پسماندہ اور غریب ملکوں پر ایک اور حملہ ہونے والا ہے۔ چنگیز خان اور ہلاکو خان نئے روپ میں سامنے آنے والے ہیں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn