تا گور کے اوپر وہ گل اندام نہ آیا
ہم خاک کے آسودوں کو آرام نہ آیا
بے ہوش- مئے عشق ہوں کیا میرا بھروسا
آیا جو بخود صبح تو میں شام نہ آیا
کس دل سے ترا تیر- نگہ پار نہ گذرا
کس جان کو یہ مرگ کا پیغام نہ آیا
دیکھا نہ اسے دور سے بھی منتظروں نے
وہ رشک- مہ- عید لب بام نہ آیا
سو بار بیاباں میں گیا محمل- لیلیٰ
مجنوں کی طرف ناقہ کوئی گام نہ آیا
اب کے جو ترے کوچے سے جاؤں گا تو سنیو
پھر جیتے جی اس راہ وہ بدنام نہ آیا
نے خون ہو آنکھوں سے بہا ٹک نہ ہوا داغ
اپنا تو یہ دل میرؔ کسو کام نہ آیا
شاعر میر انتخاب عمیر سعید
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn