ہم اہلِ جبر کے نام و نسب سے واقف ہیں
سروں کی فصل جب اُتری تھی تب سے واقف ہیں
کبھی چھپے ہوئے خنجر، کبھی کھچی ہوئی تیغ
سپاہِ ظلم کے ایک ایک ڈھب سے واقف ہیں
وہ جن کی دستخطیں محضر ستم پہ ہیں ثبت
ہر اُس ادیب، ہر اُس بےادب سے واقف ہیں
یہ رات یوں ہی تو دشمن نہیں ہماری کہ ہم
درازئ شبِ غم کے سبب سے واقف ہیں
نظر میں رکھتے ہیں عصرِ بلند بامئی مہر
فراتِ جبر کے ہر تشنہ لب سے واقف ہیں
کوئی نئی تو نہیں حرفِ حق کی تنہائی
جو جانتے ہیں وہ اس اَمر رب سے واقف ہیں
"افتخار حسین عارف” انتخاب سید جاوید حیدر
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn