مجھ میں مُرجھایا ہوا باغ کِھلا سکتا ہے
اچھا موسم تو کسی وقت بھی آ سکتا ہے
یہ غلط فہمی خدا جانے کہاں سے آئی
ہر کوئی ریت سے دیوار بنا سکتا ہے
روح پُھونکو کسی منظر میں تو پھر بات بنے
ویسے تو کوئی بھی تصویر بنا سکتا ہے
”دشت جاگیر نہیں قیس کی آؤ آؤ”
جس قدر چاہے کوئی خاک اُڑا سکتا ہے
نقش گر لاکھ ہیں لیکن ہیں سبھی ہیچ ہُنر
چاک سے کون نیا کوزہ اُٹھا سکتا ہے
آئینہ دیکھتا رہتا ہوں اِسی آس پہ میں
وہ کسی وقت مجھے مجھ سے مِلا سکتا ہے
صبح ہوتے ہی ستاروں نے کہا تھا یاسر
اب اجازت ہے تجھے شمع جلا سکتا ہے.