Qalamkar Website Header Image

پھر ہم ہی قتل ہو آئیں یارو چلو

شہر جاناں میں اب باصفا کون ہے
دست قاتل کے شایان رہا کون ہے

غصہ اور شرم اس بات پر آتی ہے کہ شہر جاناں میں دست قاتل کے شایان اب صرف ستر سال کے وہ جوان بچے ہیں جو ایک نہیں کئی قاتلوں کے ہاتھوں بار بار قتل ہوئے اور اس عمر میں جب حوادث زمانہ سے بچ کر انسان طبعی موت کی راہ دیکھ رہا ہوتا ہے تب بھی قتل ہونے کے لیے باصفا پروفیسر ڈاکٹر حسن ظفر ہی بچے تھے۔ گھن آتی ہے مجھے پاکستان کے کمرشل لبرل مافیا سے جنہوں نے ترقی پسندی اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ جیسی اصطلاحات کو ایک مذاق بنا کر رکھ دیا ہے۔

80 کی دہائی میں جب حسن ظفر ایسے ترقی پسند بحالی جمہوریت کی تحریک میں جنرل ضیاء جیسے ظالم و جابر سے نبردآزما تھے اس وقت بھی نصرت جاوید، امتیاز عالم، ماروی سرمد اور رضا رومی جیسے لاتعداد سگ زمانہ تھے جو شکم کی آگ بجھانے کے لیے کبھی بھی کسی پر بھونکنے کے لیے تیار رہتے تھے۔ مگر اس زمانے کی اچھی بات یہ تھی کہ جنرل ضیاء اور اس کے حواری ان کتوں کو چبائی ھوئی ہڈی بھی نہیں ڈالتے تھے۔ سوشل میڈیا ایکٹوازم کے اس دور میں کمزور ہوتی اسٹیبلشمنٹ نے اپنے خزانے کمرشل لبرل مافیا کے لیے اتنے ہی کھول دیے ہیں جتنے دائیں بازو کے رجعت پسندوں کے لیے کھلے ہوئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو امتیاز عالم اور انصار عباسی، نصرت جاوید اور اوریا مقبول جان ایک ہی چینل پر کام کرتے نظر آتے ہیں۔

مگر ان سب باتوں کا پروفیسر حسن ظفر صاحب کی شہادت سے کیا تعلق بنتا ہے؟ آپ نے سوچا کہ چند دن پہلے احمد نورانی نامی ایک بلیک میلر نے شور مچایا کہ اسے اسٹیبلشمنٹ کے غنڈے مارنا چاہتے تھے پھر ایک اور بلیک میلر طہ صدیقی نے دعویٰ کیا کہ اسے بھی اسٹیبلشمنٹ کے غنڈوں نے اغوا کرنے کی کوشش کی۔ اس طرح کے اور لاتعداد واقعات ہیں جن میں گزشتہ برسوں میں اسٹیبلشمنٹ سے "مار کھانے کے بعد” کمرشل لبرل مافیا کے یہ افراد ہر دفعہ ایک نئی ترقی پاتے ہیں۔ ماروی سرمد سے لے کر گل بخاری تک اور رضا رومی سے لے کر اویس گورایہ تک، میں نے ان سب افراد کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ کے ڈھونگ رچا کر ترقی کرتے دیکھا ہے۔

یہ بھی پڑھئے:  مذہبی تعصبات اور فرقہ وارانہ نفرتوں کا خاتمہ کیسے ممکن ہے

مجھے اس پر کوئی اعتراض نہ ہوتا اگر پروفیسر حسن ظفر جیسے حقیقی اینٹی اسٹیبلشمنٹ اور ترقی پسند روز اسٹیبلشمنٹ کے غنڈوں کے ہاتھوں قتل نہ ہو رہے ہوتے۔ خرم ذکی سے لے کر ڈاکٹر حسن ظفر تک گزشتہ دہائی میں اسٹیبلشمنٹ نے سینکڑوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔ خواہ وہ ماڈل ٹاؤن کے نہتے بریلوی ہوں یا کراچی کے مسلح باغی، خواہ وہ بلوچستان کے حریت پسند ہوں یا پھر سندھ کے شیعہ، وہ پیپلز پارٹی میں بچے ہوئے چند جیالے ہوں یا اے این پی کے آخری سرخ پوش۔ پاکستان کے حقیقی اینٹی اسٹیبلشمنٹ جانباز آج بھی خون دینے والے وہ مجنوں ہیں جنہوں نے کبھی اپنے خون کا خراج نہیں مانگا ۔ اور دوسری طرف دودھ پینے والے وہ مجنوں ہیں جو ہر لفظ خواہ وہ لکھا ہوا ہو یا بولا ہوا ہو کا معاوضہ ایڈوانس میں لیتے ہیں۔

پروفیسر حسن ظفر عارف کی شہادت اس بات کی شہادت ہے کہ پاکستان کبھی بھی سعودی عرب یا مصر نہیں بن سکتا۔ اسٹیبلشمنٹ کے وہ احمق جنرل جو یہ سمجھ رہے تھے کہ اسلام آباد، لاہور کے چند لونڈوں لونڈیوں کو نصرت جاوید اور امتیاز عالم ایسے مدرسے کے مولویوں کی شاگردی میں دے کر انہیں سوشل میڈیا پر ترقی پسندی اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ کا استعارہ بنا کر پیش کر سکتے ہیں تو یہ ان کی بھول ہے۔ سوشل میڈیا پر ہیش ٹیگ کی مہم چلانے والے کمرشل لبرل مافیا کے ٹوئپلز کو یہ اندازہ نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کے حاضر سروس جنرلوں کا آج بھی پیشاب خطا ہو جاتا ہے جب ستر سال کا نہتا بوڑھا ان کے سامنے کھڑا ہو کر کلمہ حق بلند کرتا ہے۔

یہ بھی پڑھئے:  مابعدنوآبادیاتی دور میں حرص، ہوس اور کورونا

کل کے جنرلز ایک نہتی لڑکی سے ڈرتے تھے اور آج کے جنرل ایک نہتے ستر سال کے پروفیسر سے ڈرتے ہیں۔ اینٹی اسٹیبلشمنٹ کا تمغہ ایک کمزور اور بھگوڑے ریٹائرڈ جنرل پر بھونکنے سے نہیں ملتا بلکہ ایک ظالم اور جابر حاضر سروس جنرل کے سامنے گرجنے سے ملتا ہے اور یہ تمغہ پھٹے کپڑے اور گنجا سر ہونے سے نہیں ہوتا بلکہ کٹا ہوا سر ہوتا ہے۔ پروفیسر حسن ظفر عارف کی شہادت اس بات کا ثبوت ہے کہ آج بھی فیض کا یہ ترانہ زندہ ہے۔

کٹتے بھی چلو ، بڑھتے بھی چلو
بازو بھی بہت ہیں سر بھی بہت۔

حالیہ بلاگ پوسٹس