Qalamkar Website Header Image

کمرشل لبرل مافیا اور فیض آباد دھرنا

ٹی وی چینل ڈان نیوز کے ٹاک شو ‘ذرا ہٹ کے’ کے دو پروگرام ہیں جن کو لازم دیکھنا چاہیے۔لیکن اس سے پہلے کہ میں ان دو پروگراموں کی میں پیش کئے گئے مواد بارے بات کروں۔مجھے اس کے سیاق و سباق، پروگرام کے میزبانوں اور اس میں زیربحث آئے واقعات کے پس منظر بارے بات کرنے کی اجازت دیں۔

پاکستان کا لبرل سیکشن کئی قسم کے لبرلز پہ مشتمل ہے۔اور ان میں سے ایک گروپ کو ‘کمرشل لبرل مافیا’ کا نام دیا گیا ہے۔یہاں تک کہ اس گروپ کو بھی کئی ایک مزید ذیلی گروپوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔جس میں جہاں کرئیرسٹ امید پرست سے لیکر بین الاقوامی شہرت یافتہ پروفیشنل تک شامل ہیں۔
ایسا ہی ایک ذیلی گروپ وہ ہے جو کہ ‘انتہائی معزز اینکر دانشور نما صحافیوں’ پہ مشتمل ہے۔یہ لوگ عام طور پہ انٹرنیشنل میڈیا آرگنائزیشن جیسے بی بی سی/وی او اے/سی این این وغیرہ سے وابستہ ہوتے ہیں۔ہمارے مقامی /دیسی لبرل کے برعکس ان کو اپنی نوکریوں اور آمدنی کے مقامی ذرائع کا محتاج نہیں ہونا پڑتا۔اگر زیادہ بے باکی سے کہا جائے تو ایسے لوگ اپنی اضافی آمدنی کے لئے مقامی ایجنسیوں کے ٹاؤٹ کے طور پہ کام نہیں کرتے۔(اگرچہ کوئی ان کو ہینڈسم رقم آفر کرے تو تب یہ انکار بھی نہیں کرتے)۔

کمرشل لبرل مافیا کے اس ذیلی گروپ کے فنڈز انٹرنیشنل این جی اوز، تھنک ٹینکس، سعودی عرب اور یہاں تک کہ یو این کے ذیلی اداروں اور امریکی سرکاری تھنک ٹینکس سے بھی آتے ہيں۔اس کی وجہ سے ان کو کئی ایسے موضوعات پہ بولنے کی آزادی بھی مل جاتی ہے جن کو ہمارے ہاں ٹیبوز/ممنوعہ خیال کیا جاتا ہے۔ڈان نیوز چینل کی ٹیم ‘ذرا ہٹ کے’ ایسے ہی دانشور نما صحافیوں کے کمرشل لبرل مافیا کے قبیلے سے تعلق رکھتی ہے۔

اب میں اوّل ذکر کردہ اس ٹاک شو کے دو پروگراموں کے سیاق و سباق پہ بات کرتا ہوں۔ان دو پروگراموں کے مواد کو سمجھنے کے لئے علمی بددیانتی کے نظریہ کے کچھ بنیادی اصولوں پہ بات کرنا ضروری ہے:
الف: ‘علمی بددیانتی کرنے اور لوگوں کو فکری طور پہ گمراہ کرنے کی جو آئیڈیالوجی ہے اس کا بنیادی مقصد اس طرح کا ابہام پھیلانا ہے جس سے نہ صرف عام مسلمان بلکہ عام غیر مسلم لوگ بھی یہ سمجھنے لگیں کہ مغرب دہشت گردی کو مذہب کا لازمی جزو خیال کرتا ہے۔اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ انتہا پسندی کا منبع مذہب ہے جو کہ خاص طور پہ اسلام سمیت سبھی مذاہب کے اندر موجود ہے۔

ب: جب یہ بنیاد ہو کہ انتہا پسندی و دہشت گردی کا منبع مذہب ہے تو پھر دو بہت ہی اہم قسم کی حکمت عملیاں اس کے نتیجے میں اپنائی جاتی ہیں،جب طالبان اور دوسرے تکفیری گروپوں کی دہشت گردی زیر بحث لائی جاتی ہے۔ایک تو تکفیری گروپوں کی دہشت گردی کا ذکر کرتے ہوئے ان کے کی فرقہ وارانہ شناخت کا ذکر غائب کردیا جاتا ہے۔اور کہا جاتا ہے کہ یہ مسلمان ہیں جن کو ان کی اس مذہبی فکر نے گمراہ کردیا جو سب مسلمان فرقوں کے اندر مشترک ہے یعنی اسلام،قرآن وغیرہ۔

ج: دوسری حکمت عملی غیر تکفیری فرقوں جیسے بریلوی اور شیعہ ہیں، کی مذہبی انتہا پسندی کا تذکرہ جب کیا جاتا ہے تو اس وقت ضروری سمجھا جاتا ہے کہ ان کے فرقے کی شناخت کا لازمی ذکر کیا جائے۔اس سے اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ لوگ یہ سمجھنے لگیں کہ یہ اسلام میں کسی حاص فرقے یا خاص مذہبی فکر و نظریہ کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ مذہب بذات خود انتہا پسندی کی جڑ ہے۔

د: علمی بدیانتی کی اس فکر کے تحت اس بات کی بہت ضرورت ہے جب تکفیری اور غیر تکفیری فرقوں کی انتہا پسندانہ سرگرمیوں کا موازانہ ہو تو ان کے درمیان تناسب کا فرق یکسر مٹادیا جائے۔اس حکمت عملی کے تحت کام کرنے والا افسانہ گری سے کام لیکر اپنی آواز کو بلند کرکے اور بہت پرجوش انداز میں آپ کو یہ مان لینے پہ مجبور کرتا ہے کہ تکفیری و غیر تکفیری فرقوں کے درمیان انتہا پسندی کا تناسب ایک ہی ہے۔

یہ بھی پڑھئے:  " راجر راجر ۔۔۔۔۔۔ بلیک ہارس اوور "

ان بنیادی باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے ،آئیں اب ہم ‘ذرا ہٹ کے’ ٹاک شوز کے دو پروگراموں پہ بات کرتے ہیں

فیض آباد دھرنا

https://www.youtube.com/watch?v=w5lhGC-042M

پہلا پروگرام فیض آباد دھرنے کا جو انجام ہوا اس بارے میں ہے۔اس پروگرام کو دیکھنے سے آپ کو مزا ہی نہیں آتا، بلکہ یہ ہمارے لبرل ذہنوں کی عکاسی بھی کرتا ہے کہ وہ کیسے حقائق اور واقعات کو تروڑتے مروڑتے ہیں اور اس سارے عمل کو بالکل فضول بناکر پیش کرتے ہیں۔

میں اس کی چند ایک مثالیں پیش کروں گا:

1. https://www.youtube.com/watch?v=w5lhGC-042M&t=800s

رپورٹر محمد اصغر جان بوجھ کر پولیس کی غیرآمادگی کو ‘مورال ڈاؤن’ ہونے سے بدلتا ہے جو کہ دو بالکل مختلف اثرات کی حامل ہیں۔وہ کہتا ہے کہ پولیس ماڈل ٹاؤن کے سانحے کے تناظر میں طاقت کے استعمال پہ راضی نہیں ہے لیکن پھر جان بوجھ کر اس بات کو نظر انداز کردیتا ہے کہ لوگوں کو یاد کرائے کہ ماڈل ٹاؤن سانحے میں ہوا کیا تھا۔
یاد رہے کہ ماڈل ٹاؤن کے واقعے میں چودہ نہتے لوگ بشمول دو عورتیں سیدھی فائرنگ کی وجہ سے مارے گئے تھے۔پولیس راولپنڈی میں اسی وجہ سے ویسا کرنے پہ آمادہ نہیں تھی، انھوں نے اپنے حکام بالا کے حکم پہ شہریوں پہ گولی چلانے سے انکار کرنے کو ترجیح دی۔اگرچہ اصغر دو بار پولیس کے گولی چلانے سے انکار کا ذکر کرتا ہے اور پھر ساتھ ہی یہ اصرار کرتا ہے کہ احتجاج کرنے والے انتہائی تربیت یافتہ خودکار ہتھیاروں آنسو گیس شیل اور ماسک سے لیس تھے،وہ پولیس اہلکاروں کے غیر مسلح ہونے کا ذکر کرتا ہے۔

2. https://www.youtube.com/watch?v=w5lhGC-042M&t=1020s

اس وڈیو لنک میں آپ چیک کریں کہ یہ آئن سٹائن کیسے حیرانی کا مظاہرہ کرتا ہے کہ اس نے سوچا کہ یہ مظاہرین نے گیس شیل پولیس سے چھینے ہوں گے (ہوسکتا ہے کہ یہ سچ ہو)۔ذرا دوسرے آئن سٹائن کے چہرے کا تاثر دیکھیں ‘ کس قدر حوفناک بات ہے کہ مظاہرین نے ان گیس شیل کو چھین لیا۔’اس بات کو ذہن میں رکھیں دوسرے ٹاک شو میں جب وہ اس واقعے کو دوبارہ زیر بحث لائیں گے تو اس کا موازانہ وہ طالبان کے ہلاکت آفریں ہتھیاروں سے کریں گے۔

3. https://www.youtube.com/watch?v=w5lhGC-042M&t=1150s

اس ٹاک شو کو سنیں کیسے محمد اصغر ڈرامائی انداز میں بتاتا ہے کہ وہ مظاہرین ان پولیس والوں کو زندہ جلانا چاہتے تھے اور انھوں نے ان کو معاف کردیا جب ان پولیس والوں نے ان کی منت کی تو انھوں نے ان کو جانے دیا۔اور تب وہ بتاتا ہے کہ کیسے یہ مظاہرین پولیس والوں کو پلاسٹک کی تاروں سے پیٹتے رہے۔اس ڈرامائی انداز بیان کو ذہن ميں رکھئے گا جب آپ دوسرا پروگرام دیکھیں۔اس پروگرام میں اس واقعے کا موازانہ لوگوں کے سروں سے فٹ بال کھیلنے کے واقعہ سے کیا جائے گا۔

4. https://www.youtube.com/watch?v=w5lhGC-042M&t=1320s

اس لنک میں ٹاک شو پروگرام بہت ہی دلجسپ ہے جب ایک آئن سٹائن خوراک کی فراہمی کو ‘آنسو گیس شیل’ کی فراہمی سے جوڑتا ہے۔وہ انٹیلی جنس رپورٹوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہوسکتا ہے کہ فوج کے کسی کروپ نے ان کو خوراک فراہم کرنے کے ساتھ آنسو گیس شیل بھی فراہم کردیے ہوں۔یہ اس کے باوجود کہا جارہا ہے کہ رپورٹر بار بار بتارہا ہے کہ عام لوگ ہیں جو کھانا فراہم کررہے ہیں۔

5. https://www.youtube.com/watch?v=w5lhGC-042M&t=1910s

اس لنک میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ٹی ٹی پی ، طالبان دہشت گردوں کا موازانہ ان مظاہرین کے ساتھ کیا جارہا ہے۔اور یہی عظیم دھوکہ دہی، علمی و صحافتی بدیانتی پہ مبنی دھوکہ دہی کی ڈاکٹرائن کا مقصد ہے۔دیکھیں کیسے نیک محمد، احسان اللہ احسان اور دوسرے تکفیری دہشت گردوں کا خادم رضوی اور مظاہرین سے تقابل کیا جارہا ہے۔اور یہی تناسب سے انتہائی دور ہونے کا سینڈروم ہے۔

یہ بھی پڑھئے:  سپریم کورٹ ایک بار پھرنظریہ ضرورت کے راستے پر؟ - انور عباس انور

6. https://www.youtube.com/watch?v=w5lhGC-042M&t=2160s

یہاں ایک اور اہم نکتہ ہے۔شام کو یاد رکھیں،جہاں تکفیری گروہوں کو غیر تکفیری گروہوں کے برابر بناکر دکھایا جاتا رہا اور اس طرح سے وہاں پہ تکفیری فاشسٹوں کی لڑائی کا جواز پیدا کیا جاتا رہا۔اور تکفیری بھی اس وقت تک مقبولیت نہ لے سکے۔تو اس شو میں آپ ان آئن سٹائن کو دیکھ سکتے ہیں کہ کیسے یہ تکفیری اور غیر تکفیری گروہوں کو ایک ہی مقام پہ رکھ رہے ہیں۔

احسان اللہ احسان پہ ٹاک شو

اس ٹاک شو میں احسان اللہ احسان کے 20 منٹ کے دروانیہ پہ مشتمل اعترافی بیان پہ بات کی گئی۔اس شو میں وہ اس دہشت گرد پہ 20 منٹ بھی بات نہ کرسکے اگرچہ انہوں نے فیض آباد دھرنے پہ دو مکمل پروگرام کئے، اس پروگرام میں آپ دیکھیں گ کس قدر سنجیدگی اور گھمبیرتا ان کے چہروں پہ ہے جب وہ احسان اللہ احسان کو ڈسکس کررہے ہیں۔کوئی ابتذال، کوئی پھبتی نہیں، کوئی مسخرہ پن نہیں ہے۔سستی جذباتیت بھی نہیں ہے، کوئی چیخنا ،چلانا نہیں، ایک دوسرے کی بات کو درمیان سے کاٹنے کا سلسلہ بھی نہیں ہے اور بہت ہی سنبھال کر کی گئی گفتگو ہے۔اور اب نیچے دئے گئے لنک میں کی گئی گفتگو دیکھیں، جو زبان استعمال کی جارہی ہے،اس کو ملاحظہ کریں:

1. https://www.youtube.com/watch?v=rjeRxzkCfwk&t=80s

کیسے ملّا فضل اللہ ، خالد خراسانی کا نام عزت سے لیا جارہا ہے۔اس میں کوئی مسخری نہیں ہے۔اور گزشتہ لنک میں دیکھیں کیسے مضحکہ خیز اور مسخری کے ساتھ خادم رضوی اور دوسرے پیروں کا ذکر کیا جارہا ہے۔

2. https://www.youtube.com/watch?v=rjeRxzkCfwk&t=240s

یاد رکھیں وسعت اللہ خان خود کو ‘پھکڑ باز’ دکھانے کی کوشش کرتا ہے۔لیکن اس کیس میں یعنی احسان اللہ احسان کے معاملے میں اس کی بذلہ سنجی، پھکڑ بازی کہیں گم ہوچکی ہے، وہ بہت سوچ سمجھ کر اور انتہائی احتیاط سے چنے ہوئے الفاظ کے ساتھ بات کررہا ہے۔اور کیسے ضرار کھوڑو اس معاملے کو سنبھالتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ بذلہ سنجی ہے۔

3. https://www.youtube.com/watch?v=rjeRxzkCfwk&t=480s

اس لنک میں دیکھیں کہ کیسے وسعت اللہ خان ‘ قانون کی حکمرانی’ کے سوال کو یہاں لیکر آتا ہے اور پھر اس کا موازانہ اس کی جانب سے فیض آباد میں مظاہرین کے خلاف فائر کھولنے پہ اصرار سے کریں اور پولے سے منہ سے سانحہ ماڈل ٹاؤن کا سرسری سا تذکرہ سنیں۔یہ ان لبرل کا بدصورتی کی انتہا پہ پہنچا ہوا چہرہ ہے۔اور میں اس لئے اصرار کرتا ہوں کہ انھوں نے تکفیری دہشت گردوں سے اندرون خانہ ہاتھ ملائے ہوئے ہیں۔اور احسان اللہ احسان و وسعت اللہ خان کے درمیان فرق تلاش کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔

4. https://www.youtube.com/watch?v=rjeRxzkCfwk&t=660s

اس لنک میں دیکھیں ضرار کھوڑو احسان اللہ احسان کے چہرے پہ آئی مسکراہٹ کو کیسے چھپاتا ہے۔وہ لوگوں کو پھر یہ یقین دلانے کی کوشش کرتا ہے کہ احسان اللہ احسان کو ہوسکتا ہے کہ سزائے موت دے دی جائے۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ لنگڑی لولی یقین دہانی ہے۔
5. https://www.youtube.com/watch?v=rjeRxzkCfwk&t=840s

یہاں ان کے اصل عزائم پہچاننے کی اصل چابی یہ جملے ہیں ‘ یہ شیڈو وار ہے’، ‘یہ بدقسمتی ہے۔’ گویا جیسے لوگوں کو یقین دہانی کرائی جارہی ہو کہ ان دہشت گروں کو معافی دینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

میں امید کرتا ہوں کہ ان دو پروگراموں کا یہ تجزیہ آپ کو یہ سمجھنے میں مدد دے گا کہ کمرشل لبرل مافیا کیے تکفیری انتہا پسندوں کو کور فراہم کرتا ہے اور اور کیسے ان کے اصل چہروں کو چھپاتا ہے۔

حالیہ بلاگ پوسٹس