سلام آباد ۔ سپریم کورٹ میں پاناما لیکس کیس کے موقع پر جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ وزیر اعظم کی تقریر اعتراف جرم ہے “۔
عدالت کا دائرہ اختیار ہے کہ فائنڈنگز ریکارڈ کر کے ڈکلریشن جاری کرے۔ وزیر اعظم نوازشریف نے اپنے حلف کی پاسداری نہیں کی، نوازشریف نے اپنے لندن کے اثاثے چھپائے لہذٰا وہ صادق اور امین نہیں رہے اور نااہل قرار دیا جائے۔ جبکہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا بتایا جائے کہ یہ فلیٹس کب خریدے گئے اور کیا یہ فلیٹس سیٹلمنٹ میں تو نہیں ملے ۔ نوازشریف نے آرٹیکل 66 کے تحت استثنیٰ نہیں استحقاق مانگا ہے سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کیس کی مزید سماعت پیر تک ملتوی کردی ہے۔
تفصیلات کے مطابق جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں قائم 5رکنی بینچ نے جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف کے دلائل سننے کے بعد کیس کی مزید سماعت پیر تک ملتوی کر دی ہے، اگلی سماعت پر جماعت اسلامی کے وکیل اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔
جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ وزیر اعظم نوازشریف نے اپنے حلف کی پاسداری نہیں کی، نوازشریف نے اپنے لندن کے اثاثے چھپائے لہذٰا وہ صادق اور امین نہیں رہے اور نااہل قرار دیا جائے جس پر بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ آپ کا الزام ہے جان بوجھ کر لندن کے اثاثے چھپائے گئے ؟
توفیق آصف نے عدالت کو بتایا کہ نوازشریف نے لندن فلیٹس کی ملکیت سے انکار نہیں کیا ، نوازشریف کی تقریر بطو رشواہد استعمال ہو سکتی ہے اور عدالت کو ڈیکلریشن دینے کا اختیار ہے۔ نوازشریف کے کاغذات نامزدگی اور اثاثوں میں لند ن فلیٹس کا ذکر نہیں ، کیا نوازشریف کی قومی اسمبلی میں تقریر قانون شہادت کے زمرے میں نہیں آتی ؟ جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ کی آپ سمجھتے ہیں کہ عدالت کو 184/3کے مقدمے میں ڈکلریشن دینے کا اختیار ہے ؟
جماعت اسلامی کے وکیل نے عدالت کو تبایا کہ نوازشریف نے بطور ایم این اے اور وزیر اعظم حلف کی پاسداری نہیں کی جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں حلف کی پاسداری نہ کرنے پر نااہل قراردیاجائے؟ ۔ وکیل نے کہا کہ تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری نے وزیر اعظم نوازشریف کی تقاریر میں تضاد پر دلائل دئیے۔”وزیر اعظم کی تقریر اعتراف جرم ہے “۔ عدالت کا دائرہ اختیار ہے کہ فائنڈنگز ریکارڈ کر کے ڈکلریشن جاری کرے۔اتفاق فاﺅنڈری 1980ء میں خسارے میں تھی اور وزیر اعظم کے مطابق اتفاق فاﺅنڈری 3 سال میں خسارہ ختم کر کے 60 کروڑ منافع پر چلی گئی ۔ 1985ء میں اتفاق فاﺅنڈری کا دائرہ کئی کمپنیوں تک پہنچ گیا ۔
توفیق آصف نے عدالت کو بتایا کہ دبئی میں گلف سٹیل مل قائم کی جو 9 ملین ڈالرز میں فروخت ہوئی تاہم یہ نہیں بتایا گیا کہ کاروبار کی رقم کہاں سے آئی ۔ وزیر اعظم کی تقریر کو درست مان لیا جائے کیونکہ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔ تقریر میں کہا گیا کہ فلیٹ 1993ء سے 1996ء میں خریدے گئے جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دئیے کہ یہ بات کہاں مانی گئی ، اگر ایسا ہوتا تو ہم اتنے دنوں سے یہ کیس کیوں سن رہے ہیں ؟ وکیل توفیق آصف نے عدالت کو بتایا کہ نوازشریف نے تقریر میں کہا تھا کہ وہ دبئی فیکٹری کے وقت سیاست میں نہیں تھے جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے استفسار کیا آپ نے کہا تھا کہ وزیر اعظم نے اعتراف کیا ہے جسے ہم ڈھونڈ رہے ہیں ۔ ”تقریر کا وہ حصہ دکھائیں جس میں اعتراف کیا گیا ہے “۔ آپ کہتے ہیں تقریر میں تضاد نہیں اعتراف ہے ۔ آپ کا کیس پی ٹی آئی سے بہت مختلف ہے ۔
بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اگر وزیر اعظم لندن فلیٹس کی ملکیت تسلیم کرتے تو اتنے دن سماعت ہی نہ ہوتی ۔جماعت اسلامی کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ وزیر اعظم نے کہا تھا یہ وہ وسائل ہیں جن سے لندن فلیٹس خریدے گئے ۔ وزیر اعظم نے تقریر میں کہا کہ دبئی اور جدہ فیکٹری کا تمام ریکارڈ موجود ہے جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ نعیم بخاری کا موقف ہے کہ وزیرا عظم کی تقاریر میں تضاد ہے ۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ یہاں پر 2سوالات ہیں ، سوال نمبر ایک فلیٹس کب خریدے گئے اور دوسرا ان کا وزیر اعظم سے کیا تعلق ہے ؟خریداری کی حدتک اعتراف ضرور ہے مگر یہ نہیں ہے کہ جائیداد نوازشریف نے خریدی ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ لندن فلیٹس کے خریدنے کا ذکر بھی والد کے حوالے سے ہے جس پر جماعت اسلامی کے وکیل نے جواب دیا کہ لندن فلیٹس کا ذکر ظفر علی شاہ کیس میں موجود ہے ۔ جسٹس عظمت سعید شیخ نے استفسار کیا کہ کیا ظفر علی شاہ کیس میں نوازشریف فریق تھے تو وکیل نے عدالت کو بتایا کہ نوازشریف ظفر علی کیس میں فریق اول تھے۔ ایڈوکیٹ خالد انور نے اس وقت نوازشریف کی کیس میں وکالت کی جس پر وزیر اعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے عدالت کو بتایا کہ ظفر علی شاہ کیس میں نوازشریف فریق نہیں تھے ۔ بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کیا آپ میری آواز سن پا رہے ہیں ، جناب وکیل صاحب؟جس کے بعد جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف نے دلائل کے دوران ظفر علی شاہ کیس سے متعلق دلائل واپس لے لئے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ جو حوالہ دے رہے ہیں وہ وکلاءکے دلائل ہیں عدالتی فیصلہ نہیں ، پراپرٹی کی ملکیت اس کیس میں بھی ثابت نہیں ہے ۔ اس وقت کے اٹارنی جنرل نے لندن فلیٹس پر حوالے دیے مگر عدالت نے ان حوالوں کو قبول نہیں کیا تھا ۔ جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیے کہ توفیق آصف صاحب خدا کا خوف کریں ،” آپ نے درخواست میں غلط بیانی کی “۔ انہوں نے جماعت اسلامی کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ پر آرٹیکل 62 لگائیں یا 63؟ ان ریمارکس پر عدالت میں قہقہہ لگ گیا جس پر جماعت اسلامی کے وکیل نے کہا کہ پاناما کیس میں بار ثبوت شریف خاندان پر ہے ، ثبوت کے طور پر نوازشریف نے 3تقاریر کیں اور پھرعدالت میں استثنیٰ مانگ لیا ۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آرٹیکل 248کے تحت استثنیٰ اور 66 کے تحت استحقاق الگ الگ ہیں، نوازشریف نے آرٹیکل 66 کے تحت استثنیٰ نہیں استحقاق مانگا ہے ،بینچ کے رکن جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ وزیرا عظم نے استثنیٰ نہیں مانگا ۔ جسٹس گلزار احمد نے وکیل توفیق آصف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیس کو اتنی غیر سنجیدگی سے نہیں لینا چاہئیے ۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ کے موکل انتہائی قابل اخترام ہیں ، وکیل کی غلطی کو موکل پر نہیں ڈالنا چاہئیے۔ وکیل توفیق آصف نے کہا نوازشریف کی اسمبلی تقریر میں حکومتی پالیسی بیان نہیں ۔وزیرا عظم نوازشریف نے بطور ایم این اے ذاتی الزامات کا جواب دیا ۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے جماعت اسلامی کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا وزیر اعظم کی تقریر ایجنڈے کا حصہ تھی ؟ کیا ذاتی الزامات کا جواب دینے کیلئے اسمبلی فلور استعمال ہو سکتا ہے ؟ جس پر جماعت اسلامی کے وکیل نے جواب دیا کہ نوازشریف کی تقریر ذاتی وضاحت ہے اس لئے اس کو پارلیمانی استحقاق حاصل نہیں ۔ میرا زیادہ انحصار وزیر اعظم کی اسمبلی تقریر پر ہے ۔
sachtimes.com
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn