تحریر کا پہلا حصہ پڑھنے کے لیے کلک کریں۔ پاکستانی ریاست، تاریخ اور گھٹالے
سقوط مشرقی پاکستان، باقی ماندہ پاکستان، دستور ساز اسمبلی کی آئینی قانونی اور اخلاقی حیثیت یہ وہ سوالات ہیں جنہیں نظرانداز کرنا ازبس مشکل ہے۔ ان سوالات پر آگے چل کر بات کرتے ہیں فی الوقت ہمیں متحدہ ہندوستان کے دنوں میں واپس جانا پڑے گا۔ ان دنوں اور اس وقت کی تاریخ کا جائزہ لینے کی ضرورت اس لئے ہے کہ اس تاریخ کی کوکھ سے صرف بٹوارے نے جنم نہیں لیا بلکہ بدترین حالات، فسادات، جلاؤ گھیراؤ اور اس طرح کے دوسرے ناپسندیدہ واقعات نے ایسی نفرتوں کی آبیاری کی کہ دونوں جانب آج تک نفرتوں کی فصلیں ہی کاٹنا پڑ رہی ہیں۔ اندریں حالات اگر ایک طبقہ یہ کہتاہے کہ نفرتوں کا کاروبار دونوں ریاستوں کو مرغوب ہے تو اس پر ناراض ہونے یا پھبتی کسنے کی ضرورت نہیں۔
مثال کے طورپر ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ متحدہ ہندوستان کی سماجی وحدت کو پارہ پارہ کرنے میں لالہ جیت رائے کی ہندو مہاسبھا کا بھی کردار ہے۔ لیکن یہ تو 1923ء کی بات ہے اور کیا ہندو مہاسبھا کے قیام سے قبل ہندو مسلم شیروشکر تھے؟ سادہ جواب یہ ہے کہ تلخیوں اور ماضی کے بعض واقعات کے باوجود صورتحال قدرے بہتر تھی۔ بھونچال اس وقت آیا جب گرو گول والکر اور ڈاکٹر ہیڈ گواڑ نے اپنے حامیوں سمیت ہندو مہاسبھا سے چند قدم آگے بڑھ کر مسلمانوں کو ہندوستانی ماننے سے انکار کردیا ۔یعنی وہ اس پر بضد ہوئے کہ مسلمان ہندوستانی قومیت کے دائرے میں نہیں آتے۔ کیونکہ ان میں ایک طبقہ وہ ہے جن کے بزرگ مسلمان حملہ آوروں کے ساتھ آئے تھے اور دوسراوہ جنہوں نے حملہ آوروں کا مذہب قبول کیا ۔ان کے خیال میں ’’جن مقامی باشندوں نے اسلام قبول کیا انہوں نے بھارت ماتا سے غداری ہی نہیں کی بلکہ مقامیت سے اپنے سارے رشتے ناطے بھی توڑلئے‘‘۔
ان کے اس خیال کو خود مسلم مبلغین اور مولویوں کی جانب سے شدومد کے ساتھ پیش کئے جانے والے اس موقف سے تقویت ملی کہ ’’اسلام قبول کرنے والے عالمگیر مسلم برادری (مسلم امہ) کا حصہ بن گئے ہیں‘‘۔ اس سے یہ تاثر ابھرااور دن بدن پختہ ہوا کہ اسلام قبول کرنے کے ساتھ ہی پرکھوں کی تاریخ رشتوں اور مقامیت سے کوئی تعلق نہیں رہا۔ اس سوچ نے مسلمانوں کے بڑے حصے (بڑا حصہ اس لئے عرض کیا کہ اس غیرفطری سوچ کی مزاحمت کرنے والے بھی موجود رہے) نے خود کو اپنی ہی تاریخ و تمدن سے دور کرلیا۔ ہمارے ہاں بہت سارے ’’ریاستی محققین‘‘ تواتر کے ساتھ یہ کہتے لکھتے چلے آرہے ہیں کہ متحدہ ہندوستان میں مسلم قومیت اس دن ہی معرض وجود میں آگئی تھی جب پہلے کلمہ گو نے یہاں قدم رکھا یا پہلے شخص نے اسلام قبول کیا۔
ریاستی محققین یا فرقہ پرست تاریخ نویسوں کے بوئے کانٹے کتنی صدیوں میں چنے نکالے جاسکیں گے؟، اس پر حتمی بات اس لئے مشکل ہے کہ دونوں ریاستوں کا کاروبار حیات اسی پر چل رہا ہے۔ یعنی ضروری ہے کہ پہلے ریاستیں انسانی جذبات اور تاریخ کا احترام سیکھیں۔ لیکن یہ انہیں سیکھائے گا کون یہ بذات خود سوال ہے۔ ہم اپنے چار اور نگاہیں دوڑاکر دیکھیں تو ہر طرف شدت پسندی کا دوردورہ ہے ۔ یہ شدت پسندی ایک دوسرے کے وجود سے انکار سے رزق پاتی ہے۔ اسی طرح ہمیں یہ بھی ماننا ہوگاکہ جہاں ایک طرف کانگریس ہندوستانی قومیت کو مذاہب سے بالاتر قرار دیتی تھی، وہیں اسی کانگریس کے متعدد رہنما ہندو انتہا پسندی کو رزق فراہم کرنے میں پیش پیش رہے ۔
ایک رائے یہ بھی ہے کہ برصغیر میں ہندو مسلم تعصبات اور نفرتوں کے بیج برطانوی سامراج نے بوئے ۔اولاً اس کا مقصد اپنی قبضہ گیری کو برقرار رکھنا تھا ۔آگے چل کر یہ اس عالمگیر سامراجی ایجنڈے کا حصہ ہوا جس کا مقصد متحدہ ہندوستان کو تقسیم کرنا تھا۔ یہاں ہمیں دوسری باتوں کے ساتھ یہ امر بھی مدنظر رکھنا ہوگا کہ عالمی سامراجیت کے علمبردار ممالک نے مقبوضہ علاقوں سے نکلتے ہوئے ان کی قدیم وحدت پر نئی ریاستوں کی شناخت کی ضرب لگائی ۔ عین ممکن ہے کہ اس عمل کا مقصد یہ ہو کہ نئی تقسیم اور جغرافیائی حد بندیوں سے پیدا ہوئے مسائل نئی ریاستوں کے لوگوں اور قائدین کو حقیقت پسندی سے فاصلے پر رکھیں گے ۔
بہرطور ہم اس حقیقت کو بھی نظرانداز نہیں کرسکتے گاندھی جی نے متحدہ ہندوستان کی دونوں اکائیوں (ہندووں اور مسلمانوں) کے درمیان ہم آہنگی کی فضا کو برقرار رکھنے کےلئے اپنے تئیں ہمیشہ فوقیت دی۔ 1920ء میں منعقد ہونے والے کانگریس کے خصوصی اجلاس میں تحریک خلافت اور عدم تعاون کی تحریک کے درمیان جو یکجائی دیکھنے میں آئی یہ ہندوستان کی دونوں اکائیوں کے درمیان بہتر سے بہتر تعلقات برقرار رکھنے کی ہی ایک کوشش تھی۔ اس شاندار اور مخلصانہ کوشش کو ناکام بنانے میں پیش پیش سیاسی و مذہبی لوگ دونوں اکائیوں کی صفوں میں موجود تھے ۔اس کے چند برس بعد ہندو مہاسبھا اور دوسری انتہا پسند ہندو تنظیموں کے قیام نے سارانقشہ ہی تبدیل کردیا۔ لیکن کیا انتہا پسندی کی یہ تالی ایک ہاتھ سے بجائی جارہی تھی؟
تالی بہرطور دو ہاتھوں سے بجتی ہے۔ برصغیر کی تقسیم سے قبل کے حالات اور نفرت کے بیوپاریوں کے ساتھ برطانوی سامراج کے عزائم کوبھی مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے تو بالکل اسی طرح یہ دیکھنے اور سمجھنے کی بھی کہ اس بٹوارے سے فائدہ کس کو ہوا؟ اس سوال کو اگر ہم اپنے ہاں کے حالات و واقعات کی روشنی میں سمجھنا چاہیں تو سادہ سا جواب یہ ہے کہ صدیوں سے بالادستوں کے معاون بنے طبقات اور خاندانوں نے بٹوارے کی صورت میں قائم ہونے والی نئی مملکت پاکستان کو سکیورٹی سٹیٹ کے طور پر منظم ہونے میں ا پنی خدمات پیش کیں۔ ان خدمات کا صلہ بھی پایا اور اب تک پارہے ہیں۔
پاکستان 14 اگست 1947ء میں قائم ہوا اور پہلا دستور 1956ء میں بن پایا۔ دس برس دستور بنانے میں کیوں لگے جبکہ کہا تو یہ جارہا تھا کہ ہمارے پاس چودہ سو سالوں سے کامل ضابطہ حیات موجود ہے؟ بٹوارے نے جن المیوں کو جنم دیا ان سے آج 78 برس بعد بھی آنکھیں چرانا مشکل ہے۔ ستم یہ ہے کہ دونوں جانب جو ریاستی نصاب ہے وہ سچائیوں اور زمینی حقائق سے یکسر محروم ہے۔ اس میں جھوٹ کی آمیزش اتنی زیادہ ہے کہ سچ تلاش کرنا جان جوکھم میں ڈالنے جیسا ہے۔ سچ کیسے تلاش کیا جائے یہ بذات خود سوال ہے تلخ ترین سوال۔ کیونکہ 14 اگست 1947ء کو معرض وجود میں آنے والی مملکت کے پاس اپنی تاریخ تھی نہ ہیرو۔ ہیرو تو ہم نے ادھار لے لئے مگر تاریخ، تاریخ کے نام پر جو تانے بانے بُنے گئے وہ کھوکھلے تھے ۔ ہم اسے بدقسمتی ہی کہہ سکتے ہیں کہ 13 اگست 1947ء تک ہمارے یہاں (نئی مملکت کی جغرافیائی حدود میں) جو ولن تھے وہ ہیرو بنادیئے گئے۔ لیکن دوسری جانب مقامی شناخت کے حامل ہیرو برطانوی سامراج کے دنوں کی طرح ولن ہی رہے۔
پچھلے 78 برسوں میں تاریخ مرتب کرنے کے حوالے سے ایک بار سنجیدگی کے ساتھ پیش رفت ہوئی۔ یہ پیش رفت ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ہوئی تھی۔ انہوں نے ’’ہسٹری کمیشن آف پاکستان‘‘ قائم کیا۔ بدقسمتی سے 5 جولائی 1977ء کو لگنے والے تیسرے مارشل لاء کے قائد جنرل ضیاء الحق اسی سطحی سوچ کے پیروکار تھے جو سکیورٹی اسٹیٹ کی پہلے دن سے تھی۔ اس لئے ہسٹری کمیشن آف پاکستان تحلیل کردیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے (اہل پاکستان کے) پاس اپنا کچھ بھی نہیں پتہ نہیں ہم مقامیت اس کی تاریخ و تمدن علم و ادب سماجی روایات و شناختوں کو اپنانے سے کیوں ڈرتے ہیں اور جب بھی مقامیت یا اس سے جڑی کسی چیز کی بات ہو تو فوراً اس کے غیراسلامی ہونے کے فتوے سے جی بہلانے لگتے ہیں؟


دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn