ہمیں یہ حقیقت بالکل نظرانداز نہیں کرنی چاہیے کہ خود پاکستانی ریاست نے بھی عدم برداشت کی کوکھ سے جنم لیا ہے۔ آپ کہیں گے پاکستان تو محمدعلی جناح صاحب کی قیادت میں چلی ایک پرامن تحریک کے نتیجے میں قائم ہوا۔ یقیناً ظاہر کی حد تک یہ بات درست ہے مگر اپریل 1947ء میں ’’رائٹر‘‘ اور پھر امریکی صحافیوں کو دیئے گئے جناح صاحب کے انٹرویوز کچھ اور کہانی سناتے ہیں۔ اس حوالے سے تفصیل کئی بار ان سطور میں عرض کرچکا۔ ستمبر 1947ء میں قائداعظم محمدعلی جناح نے ’’لائف ‘‘ نامی رسالے کی نامہ نگار مارگیٹ برک وائٹ کو انٹرویو دیا۔ مارگریٹ جاننا چاہتی تھیں کہ جناح صاحب پاک امریکہ تعلقات کن بنیادوں پر استوار کرناچاہتے ہیں۔ اس نے جب اس حوالے سے جناح صاحب سے سوال کیا تو وہ بولے
’’پاکستان کے مقابلے میں امریکہ کو پاکستان کی زیادہ ضرورت ہے‘‘۔
برک وائٹ کو دیئے گئے اس انٹرویو سے چند ماہ قبل جناح صاحب نے امریکی سفارتی عہدیداروں سے خطاب کرتے ہوئے ان توقعات کا اظہار کیا کہ ’’امریکہ کو پاکستان کی معاشی اور عسکری امداد کرنی چاہیے تاکہ اس کے جواب میں پاکستان مسلمان ممالک کو سوویت یونین کے خلاف متحرک کرسکے‘‘۔ محمدعلی جناح برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے کے مقبول لیڈر تھے۔ ان کے مخالف اور ناقدین انہیں برصغیر کی پرتشدد تقسیم کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ اس رائے کے حاملین کو یہ بات مدنظر رکھنا ہوگی کہ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔ مسلمانوں میں ہی نہیں ہندوؤں میں بھی عدم برداشت کا دوردورہ تھا ایک طرف بٹ کے رہے گا ہندوستان بن کے رہے گا پاکستان کے نعرے تھے تو دوسری جانب انتہا پسند ہندو تنظیمیں شدھی پروگرام سمیت مختلف محاذوں پر سرگرم عمل تھیں۔
البتہ یہ تلخ حقیقت ہے کہ ہندو مسلم فسادات کی ابتدا ان علاقوں سے ہوئی جو بعد میں پاکستان کا حصہ بنے۔ شاہ عالمی لاہور، لال کرتی راولپنڈی کے واقعات نے ہندو مسلم فسادات کی بنیاد رکھی۔ اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے پاس پرامن انتقال اقتدار اور تقسیم ہند کا کوئی فارمولا نہیں تھا۔ تمہید طویل ہوگئی ہم آگے بڑھتے ہیں۔ 14 اگست 1947ء کو برصغیر تقسیم ہوگیا اس کی کوکھ سے پاکستان نے جنم لیا ۔انسانی تاریخ کے عجیب و غریب جغرافیہ والا ملک جس کے ایک حصے سے دوسرے حصے (مغربی پاکستان سے مشرقی پاکستان تک) کا فاصلہ ایک ہزار میل کے قریب تھا۔ ہم یہاں اس پر بات نہیں کررہے کہ کیا پاکستان واقعتاً ان علاقوں کے مسلمانوں کی ضرورت تھا جن پر یہ قائم ہوا یا ہندوستان کے ان علاقوں کے مسلمانوں کی ضرورت جو اپنے علاقوں میں اقلیت میں تھے۔ یہ ایک الگ موضوع ہے۔
عدم برداشت کی دوسری بھیانک واردات قرارداد مقاصد کی صورت میں ہوئی ۔اس قرارداد کے خالق مولانا صاحبان کی اکثریت پاکستان کی مخالف تھی۔ مثلاً مولانا سید مودودی اوران کی جماعت اسلامی، یہ صرف ایک مثال ہے۔ آگے چل کر بننے والی جمعیت علمائے اسلام پاکستان جو خود کو جمعیت علمائے ہند کا وارث قرار دیتی تھی ،تحریک پاکستان کی مخالف تھی ۔اسی طرح مجلس احرار الاسلام اور خاکسار تحریک قیام پاکستان کی مخالف تھے۔
ان مذہبی جماعتوں نے وزیراعظم لیاقت علی خان کی اہلیہ بیگم رعنا لیاقت علی خان کے خاندانی پس منظر اورخاندانی عقیدے کو دودھاری خنجر کے طور پر استعمال کیا ۔اور قرارداد مقاصد کے ذریعے لیاقت سرکار سے یہ تسلیم کروالیا کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے، اس کے اقتدار اعلیٰ کا مالک اللہ تعالیٰ ہے، اس کی عنایت سے ہی ایک مسلمان یہ منصب سنبھال سکتا ہے۔ آگے چل کر 1956ء کے دستور کا سرنامہ یہی قرارداد ٹھہری اور 1973ء کے دستور کا بت بھی اسی کی روشنی اور چمٹیوں سے تراشا گیا۔ لیاقت علی خان، 1956ء کا دستور بنانے والے یا 1973ء کا اسلامی جمہوری آئین بنانے والوں نے یہ تلخ حقیقت نظرانداز کردی کہ مذہب اور عقیدہ کا تعلق اسے قبول کرنے والوں سے ہوتا ہے ریاست سے نہیں۔ کیونکہ اگر ریاست کوئی مذہب اختیار کرتی ہے تو لازماً اس کا کوئی عقیدہ بھی ہوگا۔
پاکستانی ریاست قرارداد مقاصد پر مسلمان ہوئی تو اس نے ابتدا ہی سے ایک مخصوص مسلک کو اپنالیا۔ یہی وہ عمل تھا جس نے عدم برداشت کی وہ فصل بونے میں بنیادی کردار ادا کیا جس سے دو خرابیاں پیدا ہوئیں ۔ ایک تو ریاست اور دستور کے خیموں میں مذہب کا اونٹ داخل ہوگیا، ثانیاً عقیدوں کی بنیاد پر صدیوں سے ایک دوسرے کی تکفیر کرنے والوں کو نئی دکانیں کھولنے کا موقع مل گیا۔ مزید خرابی یہ ہوئی کہ ریاست نے اجتہاد شروع کردیا اور فرقہ پرست ایک دوسرے کے گلے کاٹنے لگے۔ ایک ساعت کو کچھ پیچھے واپس چلتے ہیں ۔وزیراعظم لیاقت علی خان سوویت یونین کا دورہ ملتوی کرکے امریکہ کے دورہ پر چلے گئے۔ ان کے اس عمل کو ہمیں محمدعلی جناح صاحب کے ماگریٹ برک وائٹ کو دیئے گئے انٹرویو کی روشنی میں دیکھنا چاہیے۔
آگے چل کر پاکستان میں پہلا مارشل لاء نافذ کرنے والے خودساختہ فیلڈ مارشل جنرل محمد ایوب خان نے سوویت یونین کی جاسوسی کے لئے امریکہ کو پشاور کے قریب واقع ایئرفورس کا بیس (بڈبھیر) دے دیا۔ اس کا خمیازہ پاکستانی ریاست نے 1965ء اور 1971ء کی جنگوں میں بھگتا۔ کیونکہ ایک معاہدے کے مطابق پاکستان امریکی ساخت کا اسلحہ بھارت کے خلاف استعمال نہیں کرسکتا تھا ۔ دوسری جانب سوویت یونین نے دونوں جنگوں کے مواقع پر بھارت کی نہ صرف حمایت کی بلکہ بھارت سوویت یونین دفاعی معاہدے کی مکمل پاسداری بھی کی۔ یہاں پاکستانی ریاست کے کرتا دھرتا 1965ء میں بھارت کو امریکی وارننگ اور 1971ء میں چھٹے امریکی بحری بیڑے کا انتظار کرتے رہے۔
ایوب خان کی فوجی حکومت نے بنیادی جمہوریت کا ’’انڈہ‘‘ دیا۔ 10 سال ان کا اقتدار چلا پھر اپنے ہی بنائے بنوائے صدارتی دستور کے برعکس سپیکر قومی اسمبلی کو اقتدار منتقل کرنے کی بجائے انہوں نے کمانڈر انچیف جنرل یحیٰ خان کو اقتدار منتقل کیا۔ یوں پاکستان نے دوسرے مارشل لاء کا ذائقہ چکھا۔ یحیٰ خان کے لیگل فریم آرڈر (ایل ایف او) نے ون یونٹ ختم کردیا۔ مغربی پاکستان میں چار صوبے بحال ہوئے مشرقی پاکستان ایک صوبے کے طور پر بحال ہوگیا۔ 1970ء کے ا نتخابات دستور ساز اسمبلی کے انتخابات تھے۔ ان انتخابات کے دوران فوجی جنتا نے ایوب خان کی کنونشن مسلم لیگ کے ضبط شدہ فنڈز سے جماعت اسلامی، قیوم مسلم لیگ اور نظام اسلام پارٹی کی مالی اعانت کی۔ انتخابی مہم کے دوران مغربی پاکستان کے اخبارات بتاتے تھے کہ جماعت اسلامی جھاڑو پھیردے گی لیکن نتائج آئے تو جماعت اسلامی پر جھاڑو پھر گیا۔ 1971ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران 16 دسمبر 1971ء کو پاکستان اس طور تقسیم ہوا کہ اکثریتی صوبے مشرقی پاکستان نے پاکستانی ریاست سے الگ ہوکر اپنا نام بنگلہ دیش رکھ لیا۔ ملک کی اس تقسیم کے بعد پاکستان کی جس باقی ماندہ قومی اسمبلی نے 1973ء کا دستور بنایا اس قومی اسمبلی کی اخلاقی اورقانونی حیثیت پر سوالات تھے۔ اہم سوال یہ تھا کہ کیا ملک ٹوٹ جانے کی صورت میں اقلیتی آبادی والے حصے میں بچ گئے ارکان قومی اسمبلی برقرار رہ گئے یا ان کی قانونی حیثیت ختم ہوگئی اور کیا اب نئی دستور ساز اسمبلی کے انتخابات ایک قانونی ضرورت نہیں؟ (جاری ہے)


دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn