Qalamkar Website Header Image

پاکستانی قوم کا موجودہ مزاج-عظیم الرحمن عثمانی

سعادت حسن منٹو اردو زبان کے ایک مشہور نثرنگار گزرے ہیں. انکی تحریر میں انفرادی و معاشرتی شہوات کا بہت ذکر ہے. جس کی وجہ سے اہل علم میں ہمیشہ انکی شخصیت متنازع رہی. ایک گروہ انہیں فحش نگار کہہ کر دھتکارتا رہا اور دوسرا گروہ انہیں حقیقت پسندی کہ تاج پہناتا رہا. ایک ادبی تبصرہ نگار کا تجزیہ مجھے انکے بارے میں خاصہ پسند ہے، وہ کہتے ہیں کہ "منٹو نے زندگی کو غسل خانہ کی روزن (کھڑکی) سے دیکھا ہے، لہٰذا اسے جو بھی نظر آتا ہے بناء کپڑوں کے نظر آتا ہے. ” .. ہمارے دور حاضر کے بہت سے مفکرین کا یہی حال ہے، وہ زندگی کو بس ایک ہی مایوس زاویے سے دیکھنے کے عادی ہیں. وہ چاہ کر بھی امید کے چراغ نہیں جلا سکتے، بس کسی لٹی ہوئی بیوہ کی طرح ماتم کر سکتے ہیں، کوسنے دے سکتے ہیں، صلواتیں سنا سکتے ہیں. یہ کبھی محقق بن ہی نہیں سکتے، کیونکہ اسکے لئے حالات کو غیر جانبداری سے دیکھنا لازم ہے اور یہ ان کے لئے ممکن نہیں.

لگتا ہے ہماری قوم مجموئی اعتبار سے اعتدال کی صفت سے خالی ہوچکی ہے. یہاں یا تو حسن نثار جیسے مایوسی کے پیغمبر بیٹھے ہیں یا پھر زید حامد جیسے خوش فہمی کے چیمپئن ! .. یہاں یا تو ایک شخص کو موسیٰ کی مسند پر بیٹھا دیا جاتا ہے یا پھر سیدھا فرعون کا تمغہ دیا جاتا ہے. بیچ کا کوئی امکان ہی نہیں .. یہاں ایسا کوئی تصور نہیں ہے کہ ایک شخص کی بیک وقت کچھ باتیں غلط اور کچھ صحیح تسلیم کی جایئں .. یہاں حق کو حق کہنے اور باطل کو باطل کہنے کا رواج نہیں ہے. یہاں حق و باطل کی کسوٹی انصاف نہیں عقیدت ہے. یہاں اگر آپ نے کسی کو حق کہنا ہے تو اسکے باطل کو بھی حق کہنا ہے، اور اگر کسی کو باطل پکارنا ہے تو اسکے حق کو بھی باطل پکارنا ہے. مختاراں مائی سے لے کر رمشا تک، عافیہ سے لے کر لال مسجد تک اور ملالہ سے لے کر بیت الله محسود تک سب یہی معاملہ ہے.
islamazeemnama.blogspot.com

حالیہ بلاگ پوسٹس