یوں تو پاک امریکا تعلقات کی تاریخ میں اونچ نیچ سرد مہری، بے وفائی اور عدم اعتماد کے مواقع کافی بار آچکے ہیں اور مختلف ادروار میں مختلف ایشوز پر ایک دوسرے پہ الزام تراشی بھی ہوتی آئی ہے۔ مگر موجودہ صورتحال میں کانگرس کے عہدیداروں کی طرف سے خاصے سنگین الزامات سامنے آرہے ہیں۔ الزامات کی فہرست تو خاصی طویل ہے لیکن لُبِ لُباب یہ ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کی معاونت کر رہاہے اور حقانی گروپ کی سرپرستی کررہاہے۔
امریکی عہدیداروں کے یہ بیانات دراصل اِن واقعات کا تسلسل ہیں جوگزشتہ دس سے پندرہ سال میں پاک امریکہ تعلقات میں لگاؤ اور غلط فہمویوں کا سبب بن رہے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ تو امریکہ بہادر خود بھی ہے کہ 9/11 کے بعد امریکہ کی افغان پالیسی یکسر تبدیل ہوئی طالبان حلیف سے حریف ہوئے اور پاکستان کو گاجر یا چھڑی کے اصول پہ فرنٹ لائن اتحادی بنایا لیکن آج تک فرنٹ لائن اتحادی اِس تذبذب میں ہے کہ یہ جنگ اُس کی ہے۔ یا کسی اور کی ہماری ماضی کی طالبان پالیسی ڈھکی چھپی نہیں مگر اب صورتِ حال کچھ اور ہے۔ بہر حال اس وقت امریکہ کا سیخ پا ہونا کچھ زیادہ بے وجہ نہیں ہے۔ اگر بغور جائزہ لیا جائے تو اس وقت موجودہ حکومت کی پالیسز اور مشرف حکومت کی پالیسز میں بہت فرق آچکا ہے۔
اور حقیقت تو یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تذبذب کا شکار ہماری حکومت بہت سے ایسے کام کررہی ہے۔ جو ان کے مطابق پاکستان کی بقا کے لیے کیے جا رہے ہیں۔ لیکن امریکہ مین ان کاموں کی وجہ سے بہت بے چینی پھیل رہی ہے۔ مثلاً گڈ اور بیڈ طالبان کی اصلاح پر امریکن حلقوں میں کافی عرصے سے بحث جاری ہے ۔ کہ پاکستان کچھ طالبان گروہوں کو گڈ طالبان کے نام سے سرپرستی کر رہاہے ۔ اوریٹوٹ کے طور پہ وہ حقانی گروپ سے پاک اسٹیلشمنٹ کے تعلقات کا حوالہ دیتے ہیں ۔ پھر اچانک امریکہ کا مطلوب ترین فرد اسامہ بن لادن ہمارے گھر سے برآمد ہوا جس کاامریکہ نے بہت بُرا منایا ۔ اس کے بعد ہم نے شکیل آفریدی کو سلاخوں کے پیچھے کر دیا جسے امریکی حکومت اور عوام اپنا ہیرو مانتے ہیں۔ اس بات پہ پاکستانی سفارت خانے کے سامنے با قاعدہ احتجاج بھی ہواہے۔
پھر ملا منصور کی پاکستانی حدود میں ہلاکت او ر پاکستانی دستاویزات نے مزید الجھایا ہے لیکن دوستو کیا ہم اس وقت امریکہ کی ناراضگی مول لے کر کسی مہم جوئی کے متحمل ہوسکتے ہیں جبکہ ہماری خارجہ پالیسی کی حالت یہ ہے کہ ایران ، افغانستان اور انڈیا جیسے پڑوسی ملکوں سے ہمارے تعلقات پہلے ہی انتہائی کشیدہ ہیں ۔ سچ تو یہ ہے۔ کہ امریکہ میں پاکستان کے خلاف اٹھنے والی آوازیں اب بے چینی کی حدود کراس کر چکی ہیں ۔ امریکی ایوان میں برملا کہا جارہا ہے کہ پاکستان سٹرٹیجک ضروریات پوری کرنے کے لیے دہشت گردی کو بطور آلہ استعمال کر رہا ہے ۔ جو کہ بہت خطرناک ہے۔
افسوس کے دہشت گردی کے خلاف 70,000 قربانیاں دینے کے بعد بھی ہمارا کردار مشکوک ہے۔ اسکی وجہ اگر امریکہ کی بے وفائی ہے تو کچھ وجوہات ہمیں بھی دِل بڑا کر کے ختم کرنا پڑیں گی۔ اگر ہم نے اپنے ملک کو ترقی ، سلامتی کی راہ پہ گامزن رکھنا ہے تو۔
میرے خیال میں تو ہمیں امریکہ اور نیٹو میں شامل 52 ممالک کو صرف حقانی گروپ کو بچانے کے لیے ناراض نہیں کرنا چاہیے بلکہ اب وقت ہے کہ اِن تزویراتی اثاثوں سے جان چھڑا کر تمام ملکوں بشمول انڈیا ، ایران، افغانستان سے تعلقات کا ازسرِ نو جائزہ لیا جائے۔
دوسرا ہر کسی کو آنکھیں دکھانے سے بہتر ہے کہ عالمی معاملات پہ ملکی ساکھ کو مزید بہتر بنانے کے لیے ملکی اور عالمی سطع پر تھنک ٹینکس اور لابنگ فرمز کی خدمات حاصل کرنی چائیں۔
ہمیں اپنے 70,000 سے زائد شہدا کی قربانیوں کو رائیگاں ہونے سے بچانے کا حل ہی یہ ہے کہ اچھے اوربرُے طالبان کے فرق کو ختم کر کے معاشرے کو گلوبلایز کریں اور اگر ہم چاہتے ہیں کہ عالمی سطح پہ پاکستان اور پاکستانیوں کی ساکھ بحال ہو تو پھر ہمیں ایک طرف کھڑا ہونا ہو گا۔ بیچ میں ! نہیں! اور ہمیں دہشت گردی کے خلاف دو ٹوک کی پالیسی اپنانی ہوگی۔ْ بیڈ اور گڈ سے نکل کر ورنہ” یزید سے بھی مراسم حسین کو بھی سلام "والی پالیسی اب خود ہمارے اپنے وجود کے لیے خطرہ ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn