بین الاقوامی تنازعات کا پرامن حل اقوام متحدہ کے قیام کا بنیادی مقصد تھا۔ 1945ء میں اقوام متحدہ کی بنیاد ہی اس اصول پر رکھی گئی تھی کہ دنیا کو ایک دوسرے کے خلاف طاقت کے بجائے گفت و شنید، ثالثی، عدالتی فیصلے اور دیگر پُرامن ذرائع کے ذریعے تنازعات سے بچایا جائے۔ تاہم وقت کے ساتھ، یہ نظریہ کمزور ہوتا چلا گیا اور بڑی طاقتوں نے اقوام متحدہ کو اپنے مفادات کے تحفظ کا ایک ذریعہ بنا لیا۔ مشرقِ وسطیٰ، افریقہ، جنوبی ایشیا اور مشرقی یورپ میں جاری تنازعات اور عالمی اداروں کی بے عملی اس کی واضح مثالیں ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں رواں ماہ پاکستان کو صدارت حاصل ہوئی جس کے تحت نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحٰق ڈار نے "تنازعات کے پُرامن حل کے ذریعے بین الاقوامی امن و سلامتی کے فروغ” کے موضوع پر ایک جامع بحث کا آغاز کیا۔ اس بحث کا نتیجہ پاکستان کی پیش کردہ ایک متفقہ قرارداد کی صورت میں نکلا۔اقوام متحدہ میں پاکستان کی قرارداد سلامتی کونسل کے تمام اراکین کی تائید سے منظور ہوئی۔
یہ قرارداد اقوام متحدہ کے منشور کی دفعہ 33 اور 36 کے عین مطابق ہے، جن میں بین الاقوامی اختلافات کو گفت و شنید، ثالثی، پنچایت، عدالتی فیصلے اور دیگر پرامن ذرائع سے حل کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ پاکستان کی اس قرارداد میں اسی اصول کو دوبارہ مؤثر بنانے پر زور دیا گیا ہے۔ پاکستان کی قرارداد کا مکمل اتفاقِ رائے سے منظور ہونا عالمی سطح پر ایک اہم سفارتی کامیابی ہے۔ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ پاکستان نہ صرف عالمی امن و سلامتی کے لیے سنجیدہ ہے بلکہ وہ سفارتی محاذ پر اپنی اہمیت کو بھی منوا رہا ہے۔
قرارداد کی منظوری ایسے وقت میں ہوئی ہے جب دنیا مختلف جنگوں، جارحیتوں، اور نسل کشی جیسے واقعات کا شکار ہے۔ خصوصاً غزہ، یوکرین، سوڈان، اور کشمیر جیسے خطے عالمی بے حسی کی بدترین مثالیں بن چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کی جانب سے غزہ میں اسرائیلی مظالم پر تشویش اس قرارداد کے سیاق و سباق کو مزید تقویت دیتی ہے۔ اگرچہ قرارداد کی منظوری ایک خوش آئند پیش رفت ہے، تاہم اقوام متحدہ کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ محض قراردادیں عالمی طاقتوں کے سامنے مؤثر ثابت نہیں ہوتیں جب تک ان کے ساتھ عملی اقدامات نہ ہوں۔ عراق، شام ، کشمیر اور فلسطین جیسے کئی خطوں میں قراردادیں موجود رہیں مگر عملدرآمد نہ ہو سکا۔
پاکستانی دفتر خارجہ کی یہ بات درست ہے کہ اس قرارداد کے ذریعے پُرامن حل کے طریقہ کار کو مزید مؤثر اور مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کو بین الاقوامی ثالثی اداروں، عالمی عدالتِ انصاف اور غیر جانب دار ثالثی پلیٹ فارمز کو زیادہ فعال کردار دینا ہوگا۔ پاکستان کی قرارداد میں جو خوبصورتی ہے وہ اس کا جامع اور کثیرالسمت ہونا ہے، لیکن اصل چیلنج اس کی عملی شکل میں نفاذ ہے۔ سلامتی کونسل کی مستقل نشستیں رکھنے والے ممالک (ویٹو پاور) ہی اکثر ایسے تنازعات میں فریق ہوتے ہیں یا کسی فریق کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ ان کی موجودگی میں قرارداد کے نفاذ کی راہ میں کئی رکاوٹیں ہیں۔
موجودہ عالمی نظام انصاف کے بجائے طاقت کی بنیاد پر استوار ہے۔ جب تک طاقت ور ممالک کو جواب دہ نہیں بنایا جاتا، تب تک پُرامن تنازعات کے حل کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ صرف قرارداد کافی نہیں، اس پر عمل درآمد کے لیے ٹائم فریم، اسٹریٹیجک پلانب اور مانیٹرنگ میکنزم بھی لازمی ہیں۔ عالمی ثالثی کونسل، عدالتی پلیٹ فارمز اور غیر جانب دار تنظیموں کو مزید اختیارات دے کر بین الاقوامی تنازعات کے حل کے لیے مرکزی کردار دیا جائے۔
پاکستان کو چاہیے کہ وہ دیگر ترقی پذیر ممالک، اسلامی تعاون تنظیم (OIC)، اور عدمِ وابستہ تحریک (NAM) کے ذریعے اس قرارداد کو ایک عالمی تحریک کی شکل دے۔ صرف قراردادیں نہیں بلکہ جارح ریاستوں پر سفارتی، تجارتی، اور عسکری پابندیاں عائد کرنے کی پالیسی اپنائی جائے۔ پاکستان کو اپنی قرارداد کے پیغام کو عالمی میڈیا، تعلیمی اداروں، پالیسی تھنک ٹینکس اور عالمی کانفرنسوں میں عام کرنا چاہیے تاکہ اس کو ایک نظریاتی تحریک کا روپ دیا جا سکے۔
پاکستان کی اقوام متحدہ میں منظور شدہ قرارداد ایک بڑی سفارتی اور اصولی کامیابی ہے، مگر اس کامیابی کو حقیقی ثمر آور بنانے کے لیے مؤثر، فعال اور مربوط حکمت عملی درکار ہے۔ اگر عالمی برادری نے اس قرارداد کو سنجیدگی سے نہ لیا تو طاقت، جبر اور ظلم کا دور مزید گہرا ہو جائے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی امن کے لیے طاقتور اقوام پر اخلاقی دباؤ ڈالا جائے اور انصاف و برابری کے عالمی نظام کو بحال کیا جائے، تب ہی یہ قرارداد محض کاغذی اعلان نہیں بلکہ عالمی امن کا ضامن بن سکے گی۔


دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn