پانچ جولائی 1977کے بعد کا پاکستان

پانچ جولائی 1977 کا دن  پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے جب ایک فوجی آمر نے منتخب جمہوری حکومت پر شب خون مارا، میری نسل کے سب لوگوں کو مذہبی ٹھیکیداروں کی نام نہاد تحریک اور پھر اس کے بعد ضیائی مارشل لا کے خوفناک شب روز آج بھی بھیانک خواب کی طرح یا دہیں۔

پانچ جولائی 1977ء میں مارشل لاء کے نفاذ کے بعد پاکستانی اشرافیہ اور ان کے حامی دانشوروں اور اخبار نویسوں کو کامل یقین تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی ختم ہوچکی ہے۔ مگر 8اگست 1977ء کو لاہور ایئرپورٹ پر چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کے فقید المثال استقبال سے بھٹو دشمن سیاسی قوتوں کی راتوں کی نیند ایک دفعہ پھر حرام ہونے لگی۔ اس کے بعد مارشل لاء انتظامیہ نے چیئرمین بھٹو کو جسمانی طور پر ختم کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ ان کے نزدیک پاکستان کے مسائل کا اس کے علاوہ اور کوئی ’’حل‘‘ نہیں تھا۔ اپریل 1979ء میں چیئرمین بھٹو کی شہادت کے بعد جنرل ضیا الحق کے عسکری اور سیاسی مُغبچوں نے سکھ کا سانس لیا اور بھٹو دشمن سیاسی قوتوں کے ایما پر ستمبر1979ء میں بلدیاتی انتخابات کروادیئے۔ پی پی پی نے ’’عوام دوست‘‘ کے بینر تلے انتخابات میں حصہ لیا۔ بلدیاتی انتخابات میں پی پی پی نے سارے ملک میں ستر اور اسی فیصد کے درمیان سیٹیں جیت کر یہ بات منوا لی کہ ’’کل بھی بھٹو جیتا تھا۔ آج بھی بھٹو جیتے گا‘‘۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے ان انتخابات میں بھرپور حصہ لے کر ثابت کردیا کہ ’’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے‘‘۔اس انتخابی مہم کا سب سے پسندیدہ اور ہردلعزیز سلوگن یہ تھا’’جب تک سورج چاند رہے گا۔ بھٹو تیرا نام رہے گا‘‘

 ستمبر1977ء میں چیئرمین بھٹو گرفتار ہوچکے ہیں۔ اکتوبر 1977ء کے مجوزہ الیکشن کے لئے انتخابی جلسے شروع ہوچکے ہیں۔ کراچی اور راولپنڈی کے بعد لاہور میں جلسہ ہوچکا ہے۔ 27 ستمبر1977ء گوجرانوالہ میں انتخابی جلسہ ہورہا ہے۔ وہی نومبر1968ء والا شیرانوالہ باغ ہے۔ گوجرانوالہ کے شہری ہیں۔ عوام کی تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ بیگم نصرت بھٹو جلسہ سے خطاب کرنے کے لئے پہنچ چکی ہیں۔ مقامی رہنماؤں کی تقاریر کے بعد بیگم صاحبہ اپنے خطاب میں چیئرمین بھٹو کی گرفتاری کی شدید مذمت کرتی ہیں اوران کی رہائی کا مطالبہ کرتی ہیں۔ بیگم نصرت بھٹوکی تقریر کے چند ابتدائی کلمات کے بعد لوگوں کے جذبات کے سارے بند ٹو ٹ جاتے ہیں۔ نوجوان جوش و خروش سے نعرے لگا رہے ہیں۔

’’جیل کا پھاٹک ٹوٹے گا‘‘
’’بھٹو قید سے چھوٹے گا‘‘

اس بات کا فیصلہ کرنا مشکل ہورہا ہے کہ نوجوانوں کے نعروں کی آواز زیادہ ہے یا گوجرانوالہ کے مظلوم عوام کی ہچکیوں اور رونے کی آواز زیادہ ہے۔

ستمبر 1979ء کے بلدیاتی الیکشن میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حیرت انگیز اور شاندار کامیابی کے بعد نوابزادہ نصراللہ خاں اور غوث بخش بزنجو سمیت سیاستدان کی اکثریت نے پی پی پی کے ساتھ مل کر سیاسی محاذ بنانے اور مارشل لاء کے خاتمہ کے لئے جدوجہد کرنے کا فیصلہ کیا۔ حکومت مخالف سیاسی اتحاد قائم کرنے کے لئے گفتگو شروع ہوگئی۔ پی پی پی کے اندر ایک گروپ جمہوریت کی بحالی اور مارشل لاء کے خاتمہ کے لئے مختلف سیاسی قوتوں کو ساتھ لے کر سیاسی جدوجہد کرنے کا حامی تھا مگر دوسرے گروپ کا مؤقف یہ تھا کہ جن لوگوں کے ہاتھ چیئرمین بھٹو کے خون سے رنگین ہیں ان کے ساتھ پی پی پی کو سیاسی اتحاد نہیں بنانا چاہیئے۔ نوابزادہ نصراللہ خاں مرحوم نے پی پی پی کے لیڈروں سے ابتدائی بات چیت کرنے کے بعد بیگم نصرت بھٹو سے ملاقات کرنے کا وقت طے کرلیا۔ ملاقات میں نوابزادہ نصراللہ خاں نے چیئرمین بھٹو شہید کے ایصالِ ثواب کے لئے فاتحہ خوانی کی اور تعزیتی کلمات ادا کرنے کے بعد بھٹو مرحوم کی ملکی اور قومی خدمات کو اپنے مخصوص انداز میں خراجِ تحسین پیش کیا۔ نوابزادہ صاحب نے بیگم نصرت بھٹو کو کہا بیگم صاحبہ! بھٹو صاحب کو موجودہ حکومت نے قتل کیا ہے۔ بھٹو صاحب آپ کے خاوند اور پی پی پی کے چیئرمین تھے۔ آپ موجودہ حکومت کے خلاف جو بھی اقدام کرنا چاہیں ہم اس میں آپ کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔ کیا آپ کو بھٹو کے قاتلوں کی حکومت ختم کرنے کے لئے ہماری مدد کی ضرورت ہے؟ اس موقع پر بیگم نصرت بھٹو صاحبہ نے سیاسی بصیرت اور فہم و فراست کا مظاہرہ کرتے ہوئے مشترکہ جدوجہد اور سیاسی اتحاد قائم کرنے پر رضامندی کا اظہار کردیا۔ اس ملاقات کے بعد مختلف سیاسی جماعتوں نے باہمی صلاح مشورے کے بعد ایک مشترکہ اعلامیہ پر دستخط کرکے ایم آر ڈی کے قیام کا اعلان کردیا۔ بیگم نصرت بھٹو نے پی پی پی کے تمام لوگوں کو اس بات پرقائل کرلیا کہ ساری پارٹیوں کی مشترکہ جدوجہدکے بغیر مارشل لاء کا خاتمہ اور جمہوریت کی بحالی ممکن نہیں ۔

بین الاقوامی برادری ، یورپی ممالک کی رائے عامہ اور میڈیا کے زبردست دباؤ کے بعدبیگم نصرت بھٹو اور مس بینظیر بھٹو کو مارشل لاء حکومت بیرون ملک علاج کے لیے آمادہ ہوگئی صنم بھٹو ، میر مرتضٰے بھٹو اور شاہنواز بھٹو مختلف ممالک میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔علاج معالجہ اور طبی معائنہ کے بعد بیگم نصرت بھٹو اورمس بینظیر بھٹو بھی اُن کے پاس پہنچ جاتی ہیں۔ مرتضٰے اورشاہنواز نے دو افغانی بہنوں سے شادیاں کرلی ہیں۔ دونوں سیاسی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ جولائی 1985 ء میں ساری فیملی پیرس میں جمع ہوتی ہیں۔ کئی سالوں کے بعد یہ ایک خوشگوار موقع ہے۔ ساری فیملی ہنسی خوشی زندگی کے معمولات سے لطف اندوز ہورہی ہے۔ بھٹوز کی خوشیوں کو زمانے کی نظرِ بد لگ جاتی ہے۔ اٹھارہ جولائی1985ء کی رات شاہنواز کو اپنے فلیٹ میں پراسرار طور پر موت کا سندیسہ آجاتا ہے۔ بیگم نصرت بھٹو کے لئے یہ ایک ناقابلِ برداشت صدمہ ہے۔

شاہنواز بھٹو کی المناک وفات کے ایک ہفتہ بعد ،26 جولائی کو لندن میں میڈیا کے نمائندوں سے خطاب کرتے ہوئے مس بینظیر بھٹو نے کہا:۔
‘‘شاہنواز طبعی موت نہیں مرا اور جیسے ہی شاہنواز کا جسدِ خاکی انہیں ملا وہ اسے پاکستان لے کر ضرور جائیں گی تاکہ پاکستان کے عوام کو بتائیں کہ فوجی ڈکٹیٹر نے شہید بابا کے بعد ان کے نوجوان بیٹے کو بھی شہید کردیا‘‘
(’’بھٹو خاندان۔ جُہدِ مسلسل‘‘، مصنف بشیر ریاض، چہارم ایڈیشن2009ء، صفحہ نمبر132)

فرانس کی حکومت بھٹو خاندان کو ایک ماہ کے اذیت ناک انتظار کے بعد شاہنواز بھٹو کی میت تدفین کے لیے دے دیتی ہے۔ مس بینظیر بھٹو ساری مشکلات اور مصائب کے باوجود اپنے بھائی کی میت لے کر پاکستان آتی ہیں۔ گڑھی خدا بخش کے قبرستان میں شاہنواز کی تدفین کی جاتی ہے۔تدفین کے بعد سوگواروں سے المرتضٰے (لاڑکانہ) کے باہر خطاب کرتے ہوئے مس بینظیر بھٹو نے کہا:۔
‘‘میں اپنے بھائی کی موت کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال نہیں کروں گی مگر پاکستان کے عوام کا ہر دکھ میرا دکھ ہے۔ شاہنواز کی موت میرا ذاتی غم نہیں بلکہ اس سے پوری قوم غمگین ہوگئی ہے۔ مجھے فخر ہے میرا بھائی شاہنواز باعزت طور پر پاکستان واپس آیا ہے۔ چند سال پہلے جب میں نے لاڑکانہ چھوڑا تھا تو اس وقت میں تصور بھی نہیں کرسکتی تھی کہ میں اپنے بھائی کی میت لے کر اپنے گھر واپس آؤں گی آج ہر شخص جانتا ہے کہ ہم نے کتنی مصیبتیں اٹھائی ہیں۔ لیکن ہم نے ہر مصیبت کا مقابلہ کیا ۔ ہم بھٹو شہید کے مشن کو جاری رکھیں گے۔ عوام کے لئے غربت و ناانصافی کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھیں گے۔ شاہنواز صرف میرا بھائی نہیں آپ بھی اُسے اپنا بھائی سمجھتے ہیں۔ میں آپ کی بہن ہوں اور ہر مرحلے پر آپ کے ساتھ رہوں گی۔ میرے احساسات وہی ہیں جو آپ کے ہیں اور ہمارا راستہ ایک ہی ہوگا‘‘
(’’بھٹو خاندان۔ جُہدِ مسلسل‘‘، مصنف بشیر ریاض، چہارم ایڈیشن2009ء، صفحہ نمبر137)

لاڑکانہ میں بھٹو خاندان کے غم میں شریک ہونے والوں سے اجتماعی ملاقات کرنے کے بعد مس بینظیر بھٹو کراچی آجاتی ہیں۔ کراچی پہنچنے پر 70۔ کلفٹن (کراچی) کے باہر PPP کے سوگوار کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے مس بینظیر بھٹو نے کہا:۔
‘‘بھٹو شہید نے زندگی بھر غریب عوام کے لئے جدوجہد کی ہے اور میں بھی وفاق اور وفاقی یونٹوں کے حقوق کے حصول اور عوام کو انصاف ملنے تک ان کے ساتھ رہوں گی۔ ہم نے شاہنواز کی موت سے اپنا بھائی کھو دیا ہے لیکن اس کے خون کے ہر قطرے سے ایک اور شاہنواز پیدا ہوگا‘‘
(’’بھٹو خاندان۔ جُہدِ مسلسل‘‘، مصنف بشیر ریاض، چہارم ایڈیشن2009ء، صفحہ نمبر138)

شاہنواز کی تدفین اور رسمِ قل کے بعد مس بینظیر بھٹو واپس اپنی والدہ کے پاس چلی جاتی ہیں۔ بیگم نصرت بھٹو کے چھوٹے صاحبزادے شاہنواز کی موت پر ابھی تک اسرار کا ایک دبیزپردہ پڑا ہوا ہے لیکن نہ جانے کیوں مجھے شاہنواز کے قتل کے پسِ پردہ حقائق اور قاتلوں کے چہرے برادرِ محترم جناب بشیر ریاض کی اس تحریر میں صاف نظر آرہے ہیں:۔
‘‘چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت کے بعد1979ء ہی میں شاہنواز نے پی ایل او کے چیئرمین یاسر عرفات کی دعوت پر بیروت جانے کا فیصلہ کیا۔ وہ تقریباً ڈیڑھ ماہ تک یاسر عرفات کے مہمان رہے اور یہ عرصہ انہوں نے فلسطینی مجاہدوں کے کیمپوں میں گزارا اور جب وہ لندن واپس آئے تو ان کے بدن پر فلسطینی مجاہدوں کے کیمپوں میں گزرے ہوئے دنوں کی مکمل کہانی لکھی ہوئی تھی‘‘
(’’بھٹو خاندان۔ جُہدِ مسلسل‘‘، مصنف بشیر ریاض، چہارم ایڈیشن2009ء، صفحہ نمبر131)

مارچ 1986ء میں پاکستان پیپلزپارٹی مس بینظیر بھٹو کے استقبال کی تیاریاں شروع کرتی ہے۔ 10 اپریل 1986ء لاہور ایئرپورٹ پر واپسی کا اعلان ہوچکا ہے۔

اگست1988 ء میں جنرل ضیاالحق قدرت کے انتقام کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ عام انتخابات سے قبل ہی بیگم نصرت بھٹو جلاوطنی ختم کرکے واپس آتی ہیں۔ایئرپورٹ پر پاکستانی سرزمین کو دیکھتے ہی بیگم نصرت بھٹو کہتی ہیں’’جنرل ضیاالحق کے بغیر پاکستان کتنا خوبصورت محسوس ہورہا ہے‘‘

اس تحریر کو لکھنے میں بشیر ریاض کی کتا ب ’’بھٹو خاندان۔ جُہدِ مسلسل‘‘ سے استفادہ کیا گیا ہے

حالیہ بلاگ پوسٹس